تب و تاب جاودانہ،مولانا اسلم شیخو پوری شہیدؒ
(Abdul Sattar Awan, Bhakkar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر چہرہ پریشاں، ہر آنکھ نم ہے۔ہر جانب حسرت ، یاس اور مایوسی کی فضاءآخر
کیوں نہ ہو کہ آج علم و معرفت کا آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو چکا اور وطن
عزیز کی ایک اور قد آور مذہبی ، علمی، روشن اور تاباں تاباں شخصیت ، داعئی
قرآن مولانا محمد اسلم شیخو پوری کو بھی شہید کر دیا گیا ۔سوچتا ہوں ایسی
سرزمین پر قہر کیوں نہیں ٹوٹتا جہاں پر علمائے حق اوراہل علم کو چن چن کر
قتل کیا جا رہا ہو ۔۔۔؟ ذرا جگر تھام کر کے سوچیے کہ جس خطے کے باسیوں کی
اصلاح کے لیے مولانا شہیدؒ نے اپنا سب کچھ وقف کر دیا تھا ، دروس قرآن اور
اپنی ایمان افروز تحریروں سے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر چھوڑا
تھا ، پھر اس پھول سے نرم و نازک مرد ِ درویش کو آخر کا ر اس شہر کے بے
ضمیروں، بے ادب بے نصیبوں ، نامرادوں نے گولیوں کی شکل میں یہ کیسا صلہ دے
ڈالا۔۔۔؟کیا محبت ، پیار ، امن اور عجز و انکساری کے مقابلے میں اس طرح کے
صلے کی بھی امید رکھی جا سکتی ہے ۔۔۔؟ ”تو اور جگ میں اتنا رسوا ، حیف اے
انساں، تف اے انساں“۔مولانا اسلم شیخو پوری جیسی خالصتاً علمی ، دینی اور
بے ضرر ہستی کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ انہیں اسی سرزمین
پر خاک و خون میں تڑپا دیا جا ئے گا جہاں انہوں نے ساری زندگی دین ِ حق کی
ترویج کی خاطر گزار دی تھی۔ مولانا نے ہر ایک کو امن کا درس دیا تھا اور ان
کے کردار سے ہزاروں گم گشتگان نے منہاج حق پر آکر اپنی زندگیوں کو گل و
گلزار بنا لیا تھا ، انہوںنے عوام و خواص میں علم ، حکمت اور بصیرت و
دانائی کے گوہر لٹائے دیے تھے، دو ر دور سے اس شمع بے دود کی زیارت کے لیے
پروانے کھنچے چلے آتے اور اس سے ضیاءپاتے ، مولانا شہید کی کرشماتی شخصیت
نے اسلامیان پاکستان کو بہت زیادہ متاثر کر چھوڑا تھا ،آپ کی نظر کیمیا ،
پراثر قلمی شہہ پاروں سے ایک زمانے نے ہدایت پائی اور جینے کا قرینہ ،سلیقہ
اور شعار سیکھا ۔آپ کی بے باک تحریروں نے عوام الناس کے دل و دماغ روشن کر
دیے تھے۔شرافت و دیانت ، امن پسندی اور قرآن کی دعوت ہی ان کی زیست کا
قیمتی ترین اثاثہ ٹھہرا ، ان کی علمی ثقاہت ، تبلیغی کردار اور بے باک قلم
سے کئی بھٹکے ہوﺅں کو منزل کے تعین میں مدد میسر آئی ۔مضمون نگاری اور کالم
نویسی میں تو ان کا تخلیقی وجدان قاری کو اپنے سحر میں جکڑے رہتا تھا ،
مولانا شہیدؒ کی زندگی کا ہر ہر پہلو اور ان کی فکر کا ہر زاویہ روشنی کی
سی حیثیت رکھتا تھا ، اس گھٹن زدہ ماحول میں سدھا ر لانے کے لیے آپ نے
ہمیشہ ایک راہبر اور مفتی کا کردا ر ادا کیا ۔ مولانا اسلم شیخو پوری شہید
ؒ دینی علوم کے حقیقی ترجمان تھے ۔ ان کی شخصیت کے تہہ در تہہ کئی پرت تھے
جن پر خامہ فرسائی کے لیے اک عمر چاہیے ، ان کے کن کن کمالات و محاسن کا
تذکرہ کیا جائے ۔۔؟ اس عدیم النظیر شخصیت کی کن کن خوبیوں پر لکھا جائے
۔۔۔؟ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔محشر بدا یونی نے شاید ایسی ہی سحر طراز ، ہمہ
جہت شخصیات کے متعلق کہا تھا
کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
ملائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہا تھ کی جائے
مولانا شہیدؒ نے اپنی ذہانت ، تیز ترین قوت مشاہدہ کے باعث ملک بھر کے دینی
، علمی اور ادبی حلقوں میں اپنا نام پیدا کیا تھا۔ ، ہفت روزہ ضرب مومن میں
مولانا باقاعدہ لکھتے ، انہیں یہ ملکہ حاصل تھا کہ جب چاہتے قاری کی دکھتی
رگ پر ہاتھ رکھ دیتے اور پڑھنے والے کے گوشہ ہائے چشم سے عرق نمکین رسنے
لگتا، ان کے مستقل کالم کو پڑھنے والے کبھی دانت کچکچانے پر مجبور ہو جاتے
تو کبھی مٹھیاں بھینچ کر رہ جاتے ،کبھی وہ قاری کے جذبے اور ولولے کو ایسا
جوان بنادیتے کہ پڑھنے والا دنگ رہ جاتا ، کالم ختم ہو جاتا مگر اس کے
پڑھنے والا دیر تک اسی کے سحر میں جکڑا رہتا ،ان کا اسلوب ہائے نگارش نہایت
شستہ اور پر مغز ہوتا جو قاری پر بے پناہ قسم کا اثر چھوڑ جاتا ۔ انہوں نے
اپنی سیرت و کردار ، حسن اخلاق سے ایک ایسا انقلاب بر پا کیا جس کی
تابانیوں سے معاشرے نے جلا پائی ۔ بلا شبہ ان کے فیض کی ضو فشانیاں دیر تلک
اس دھرتی پر روشنیاں بکھیرتی رہیں گی اور طالبان علم آپ کو بحر العلم کے
لقب سے یاد کرتے رہیں گے ۔آسمان اس لحد پرشبنم افشانی کرے جہاں پر یہ داعی
قرآن ، سچا عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سکون کی نیند سوتا ہے۔ میرے
ایسا نامہ سیاہ، کم علم ، کم فہم اس برگزیدہ ، نابغہ روزگار ہستی پر
بھلاکیا لکھ سکتاہے۔ باوقار، بااصول ، نیک سیرت مولانا محمد اسلم شیخو پوری
شہیدؒ ایک ایسا خلاءچھوڑ گئے جو کبھی بھی پورا نہیں ہو سکے گا ، باوجود اس
کے وہ ہم سے بہت دور جا بسے مگر ان کی یادوں کاگلشن سدا مہکتا ہی رہے گا،
آپ کی شخصیت کی گہرائی اور گیرائی کی چھاپ تا صبح قیامت لوگوں کے اذہان پر
نقش رہے گی ور اس اسلام کے خادم ، داعی قرآن کی یادیں ، خوبصورت تحریریں
رہتی دنیا تک قائم ،دائم رہیں گی ۔دیکھیں کہ خدا وند تعالیٰ نے اپنی لاریب
کتاب کے اس حقیقی داعی کو اس کی خدمات کا کیسا حسین ، خوبصورت، رشک آفرین
صلہ دیا ، تاج شہادت اس متبحر عالم دین کے سر پر سجا دیا گیا اور انہیں
ہمیشہ ہمیشہ کی عزت ، دائمی عزت عطاءکر دی گئی ۔ |
|