فی زمانہ اسلام کو برا بھلا کہنا
ایک فیشن بن گیا ہے۔ منتشر ذہن، سیکولر ازم و کمیونزم کے ماننے والے دنیا
کی ہر برائی ہر خامی کا ذمہ دار اسلام اور مسلمانوں کو قرار دیتے ہیں۔ وطن
عزیز میں گڑشتہ ایک عشرے سے دین بیزار، سیکولر لابی نے اپنے پر پرزے نکال
لئے ہیں۔ جبکہ اس وقت موجود نجی چینلز بھی پاکستان اور اسلام کے بجائے
بھارتی، امریکی، اور مغربی اقدار کو فروغ دے رہے ہیں اور اپنے پروگرامات کے
شعائر اسلام کے خلاف مذموم پروپیگنڈہ کررہے ہیں ۔ جبکہ ٹاک شوز، ڈراموں،
اور فلموں میں اب کھلم کھلا اسلام کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں اور لوگوں کے
اندر دین بیزاری پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اسی مہم کا ایک حصہ مدارس کے خلاف منظم پروپیگنڈہ بھی ہے۔ مدارس کے اساتذہ
کو ظالم،جابر،وحشی بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ دینی مدارس کو دہشت گردی کے
مراکز کہاجارہا ہے۔دینی مدارس کے بارے میں ایک اور مذموم مہم یہ چلائی جاتی
ہے کہ مدارس میں ہم جنس پرستی اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی عام ہے۔ یہ
گھناﺅنا پروپیگنڈہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ لوگ مدارس سے متنفر ہوجائیں اور
اپنی اولادوں کو دینی تعلیم سے دور رکھیں۔(لیکن الحمد اللہ اس تمام کے
باجود دینی مدارس میں داخلوں کا رجحان بڑھتا جارہاہے)۔
کسی بھی قسم کے جرائم کو کسی خاص گروہ یا فرقے کی سے منسوب نہیں کرنا چاہئے
بلکہ اس کو ایک جرم اور گناہ ہی سمجھا جانا چاہئے ۔ہم جنس پرستی اور بچوں
کے ساتھ زیادتی کے جرائم انتہائی گھناﺅنے پن اور پست ذہنیت کی علامت ہیں
لیکن ان کو مدارس کے ساتھ مخصوص و منسوب کرنا اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ کیا
ہمارے معاشرے میں عام طور سے یہ جرم نہیں ہوتا؟؟ کیا کم سن بچیوں کے ساتھ
زیادتی کے واقعات کا رجحان بڑھ نہیں گیا ہے؟؟ کیا دہشت گردی کے واقعات میں
عام اضافہ نہیں ہوگیا ہے؟؟اور کیا کراچی و دیگر شہروں میں دہشت گردی، ٹارگٹ
کلنگ، موبائل چھننے اور ڈکیتی کی وارداتوں میں کالجز اور یونیورسٹیوں کے
فارغ التحصیل افراد ملوث نہیں ہیں؟ تو کیا ان باتوں کو جواز بنا کر ہم
کالجز اور یونیورسٹیز کے خلاف مہم چلانا شروع کردیں اور ان اداروں کو بند
کرنے کا مطالبہ کردیں ؟ اور کیا چند ایک ایسے لوگوں کے مکروہ کردار کے باعث
ہم یونیورسٹی اور کالجز کے تمام ہی طلبہ و طالبات کے بارے میں یہ گمان
کرلیں کہ یہ سارے کے سارے بد کردار اور جرائم پیشہ ہیں؟؟ ایسی خبریں بھی
سامنے آئی ہیں کہ اسکول اور کالجز کے اساتذہ نے طلبہ و طالبات کے ساتھ
زیادتی کی یا امتحانات میں کامیابی کے عوض ان کا جنسی استحصال کیا اور بعد
میں بلیک میل بھی کیا (جامعہ پنجاب کے پروفیسر افتخار کی مثال سامنے ہے )۔
تو کیا ہم یہ کہنا شروع کردیں کہ اسکول اور کالجز کے تمام ہی اساتذہ بے راہ
رو ہیں اور وہ طلبہ و طالبات کے ساتھ جنسی زیادتیاں کرتے ہیں؟؟ میرے خیال
میں کوئی بھی عقل و شعور رکھنے والا فرد ہماری اس بات سے اتفاق نہیں کرے گا۔
تو پھر دینی مدارس کو ہی دہشت گردی کے مراکز قراردینا اور دینی مدار س کے
اساتذہ و طلبہ پر ہم جنس پرستی اور بچوں سے زیادتی کا ذمہ دار ٹھہرانا درست
ہوگا؟۔دیکھیں جرائم کے بڑھنے کی کچھ اہم اور بڑی وجوہات ہیں ۔ ایک دین سے
دوری اور تعلیم کا نہ ہونا، دوسرا قانون پر عمل درآمد نہ ہونا، تیسری اور
اہم بات میڈیا کے ذریعے وی آئی پی کلچر کا فروغ اور جذبات کو برانگیجتہ
کرنے والے بے ہودہ پروگرامات اور بے حیائی پر مبنی ڈراموں اور فلموں کا عام
ہونا جس کے باعث لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور پھر یہ جنسی درندے
معصوم بچوں اور بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، جبکہ وی آئی پی کلچر
، امیرانہ طرز زندگی اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ پر مبنی ڈرامے اور پروگرامات
لوگوں میں بالخصوص نوجوانوں میں احساس محرومی پیدا کرتے ہیں اور یہ نوجوان
اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہر جائز و ناجائز کام کرنے کو تیار ہوجاتے
ہیں جس کے باعث اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں اور موبائل چھننے کی وارداتوں
میں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔
تمہید بہت طویل ہوگئی ہے ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں اور یہ ایک خبر ہے جس
نے بطور ایک مسلمان اور پاکستانی میرا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔آپ بھی یہ خبر
پڑھیں۔ اس وقت یہ خبر پوری دنیا کے اخبارات اور انٹر نیٹ پر گردش کررہی ہے
اور اسلام اور پاکستان کا نام ”روشن “ ہورہا ہے۔ آپ گوگل سرچ پر جاکر صرف
child groming case london لکھیں تو اس کیس سے متعلق کئی پیجز کھل جائیں
گے۔اب آپ لوگ یہ خبر پڑھیں ۔
” چائلڈ سیکس گرومنگ کیس میں 8 پاکستانیوں سمیت 9 افراد کو نابالغ لڑکیوں
کی گرومنگ، انہیں ریپ کرنے اور انہیں جنسی تسکین کے لئے دوسرے مردوں کو
فراہم کرنے کے جرائم ثابت ہونے پر طویل عرصہ کے لئے جیل بھیج دیا ہے۔
لیورپول کراﺅن کورٹ نے ان افراد کو منگل کے روز مجرم قرار دیا تھا اور اس
کیس میں ملوث 59 سالہ شخص پر گرومنگ اور ریپ کے تمام الزامات ثابت ہوگئے
ہیں جس کے بعد اسے 19 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ان
سفید فام دوشیزاﺅں کو دو ٹیک اویز کے باہر پھانسا جاتا تھا اور ان میں سے
اکثر کو انہی ٹیک اویز کے اوپر والے کمروں میں لے جاکر ریپ کیا جاتا تھا۔
بعض اوقات ڈرنک لڑکیوں کو بھی ریپ کیا جاتا تھا۔ ایک کمسن لڑکی نے عدالت کو
بتایا کہ اسے دو مردوں نے ایک رات میں اس وقت ریپ کیا جب وہ سخت نشے میں
تھی اور الٹیاں کررہی ہے۔ کراﺅن کورٹ کے جج جیرالڈ کلنٹن نے 59 سالہ شخص کو
رنگ لیڈر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے 15 سالہ لڑکی کو ٹیک اوے کے ورکر
کبیر حسن کے ساتھ سیکس کرنے پر مجبور کیا۔ عدالت نے اسے ریپ، گرومنگ اور
لڑکیوں کو سپلائی کے جرم میں 19 سال قید کی سزا دی۔ اور کراس ایوینو،
اولڈھم کے 25 سالہ کبیر حسن کو ریپ کے جرم میں 9 برس قید اور ریپ کی سازش
پر تین سال قید کی سزا دی گئی۔ دونوں سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی۔
آرمسٹرانگ ہرسٹ کلوز راچڈیل کے تین بچوں کے باپ 41 سالہ ٹیکسی ڈرائیور
عبدالعزیز کو لڑکیاں سپلائی کرنے اور جنسی تسکین کے الزامات ثابت ہونے پر 9
سال قید کی سزا دی گئی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ لڑکیوں کو سپلائی کرنے والا
مرکزی کردار عبدالعزیز ہی تھا۔ ڈیری روڈ راچڈیل کے پانچ بچوں کے باپ 43
سالہ عبدالرﺅف نابالغ لڑکیوں کی سپلائی اور سیکس ایکسپلانٹیشن کے جرائم
ثابت ہونے پر 6 سال کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ مذہبی
سٹڈیز کے ایک ٹیچر نے ایک 15 سالہ لڑکی سے کہا تھا کہ اگر اس کے پاس اس کی
عمر کی چھوٹی لڑکیاں ہیں تو وہ ان کو ساتھ لائے تاکہ انہیں بھی جنسی تسکین
کے لئے دوسروں کے پاس بھیجا جائے۔ اوسوالڈ سٹریٹ راچڈیل کے 42 سالہ عادل
خان کو بھی انہی جرائم میں 8 سال قید کی سزا دی گئی۔ عادل خان شادی شدہ اور
ایک بچے کا باپ ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے ایک 13 سالہ لڑکی کو حاملہ
کردیا تھا۔ جنیفر سٹریٹ راچڈیل کے 35 سالہ محمد ساجد کو ریپ اور 16 سال سے
کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کے جرائم میں 12 سال قید کی
سزا سنائی گئی۔ اس کو سزا پوری ہونے پر پاکستان ڈی پورٹ کرنے کا حکم بھی
دیا گیا ہے۔ فالنگ روڈ فالنگ کے 45 سالہ محمد امین کو جنسی تشدد کے جرم میں
5 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا اور ”کارزیرو“ کے
نام سے جانا جاتا تھا۔ 22 سالہ افغان نژاد حامد صافی کو لڑکیاں سپلائی کرنے
کے جرم میں 4 سال قید کی سزا دی گئی۔ رمزے سٹریٹ راچڈیل کے 44 سالہ
عبدالقیوم عرف ٹائیگر کو 5 سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔ جنسی گرومنگ کے
ریپ گروپس پر الزام تھا کہ اس نے 16 سال سے کم عمر لڑکیوں کو نہ صرف اپنی
جنسی تسکین کے لئے استعمال کیا بلکہ انہیں دوسرے افراد کو جنسی تشدد کے لئے
بھیجا کراﺅن کورٹ کو بتایا کہ ان میں سے بعض افراد نے 13 سال تک کی عمر کی
لڑکیوں کو بھی نہیں چھوڑا اور ان میں یہ ایک 13 سالہ لڑکی حاملہ بھی ہوگئی
تھی عدالت کو یہ بتایا گیا کہ ان افراد نے لڑکیوں کو شراب اور منشیات کے
عوض اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور دوسروں کو بھی اس مقصد کےلئے یہ لڑکیاں
سپلائی کی گئیں۔ “
آپ لوگوں نے یہ خبر ملاحظہ کی۔ اب غور کیجئے کہ ان میں سے کسی کا تعلق بھی
کسی مدرسے سے نہیں ہے۔ یہ لوگ کوئی جاہل یا اجڈ نہیں ہیں بلکہ پڑھے لکھے
افراد ہیں۔یہ لوگ کسی پسماندہ اور تہذیب و تمدن سے دور کسی علاقے کے رہنے
والے نہیں ہیں بلکہ عشروں سے یہ لوگ دنیا کے مہذب ترین ملکوں میں سے ایک
ملک برطانیہ میں مقیم ہیں ۔پھریہ سب کیا ہے؟؟؟ اب کیا اس واقعے کی بنا پر
ہم یہ کہہ دیں کہ تمام ہی تارکین وطن ایسے ہی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔
ہم اب اس پر مزید کوئی تبصرہ یا بات کرنے کے بجائے یہ کام قارئین پر چھوڑتے
ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا رائے دیتے ہیں۔ہماری درخواست صرف اتنی ہے کہ کسی
بھی جرم کو کسی مخصوص مذہب، قوم ، یا طبقے سے منسوب نہ کیا جائے بلکہ صرف
مجرم کو ہی اس کی سزا دی جائے اس کی کمیونٹی کو نہیںاس کے جرم کی سزا نہ دی
جائے اور نہ ان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جائے ، بالخصوص اسلام، مسلمان اور
مدارس کے خلاف مذموم مہم نہ چلائی جائے۔ |