بجلی کی لوڈشیڈنگ کے سلسلہ میں
قوم نے ماحول کو بہت کشیدہ کررکھا ہے، آئے روز ہڑتالیں، ریلیاں ، مظاہرے
اور توڑ پھوڑکی خبریں آتی ہیں، کوئی نہیں جو اس کشیدگی کے ماحول سے بھی خیر
کشید کرنے کی کوشش کرے۔میں نے سوچ وبچار کے بعد چند ایسے پہلو نکا لنے کی
کوشش کی ہے جن کا شمار یقینا لوڈشیڈنگ کے فوائد میں ہوتا ہے۔ آئیے ان نکات
کا جائزہ لیتے ہیں اور لوڈشیڈنگ کے عذاب اورتکلیف سے کچھ دیر کے لئے خود کو
محفوظ کرتے ہیں-
لوڈشیڈنگ کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان وقت کی پابندی سیکھتا
ہے، کون نہیں جانتا کہ پاکستانی قوم وقت ضائع کرنے کی بادشاہ ہے، وہ واپڈا
ہی ہے جس نے مسلسل جدوجہد کرکے قوم کو وقت کا پابند کیا ہے۔ اب ہر کسی کو
معلوم ہے کہ اس نے فلاں وقت کپڑے استری کرنے ہیں، فلاں وقت کمپیوٹر کا
استعمال کرنا ہے، گرمی میں پانی اہم ضرورت ہے، وقت کی پابندی کرتے ہوئے
مخصوص اوقات میں پانی نکالنے والی موٹر چلانا بھی یاد رکھنا پڑتا ہے۔ مکینک
کو علم ہے کہ اس نے کس وقت اپنے فرائض سرانجام دینے ہیں، کہ تھوڑی سی
کوتاہی سے کام اگلے کئی گھنٹوں تک ملتوی ہوجائے گااور گاہک کے ساتھ تلخی
بڑھ گئی تو گرماگرمی میں معاملہ دست و گریبان تک پہنچ سکتا ہے، مسئلہ
روزگار کابھی تو ہے۔
صبر کی تلقین ہمیں مذہب تو بہت کرتا ہے، مگر ہمیں اس حکم پر عمل کرنے کی
توفیق کم ہی ہوتی ہے۔ واپڈا نے صبر کرنے کا مشورہ تو کبھی نہیں دیا، لیکن
اس کا ماحول ضرور فراہم کرتا ہے، جب ایک گھنٹہ بجلی آئے گی اور اگلے گھنٹہ
میں وقفہ ہوگا تو صبر کرنا آہی جائے گا۔ صبر کی انتہا تواس وقت ہوتی ہے جب
شیڈول کا گھنٹہ پورا ہونے کے بعد چند منٹ بجلی آتی ہے، اور گھنٹہ بھر کے
لئے پھر غائب ہوجاتی ہے، حتیٰ کہ شیڈول والا گھنٹہ شروع ہوجاتا ہے، یوں ایک
گھنٹہ انتظار کا اور ایک صبر کی پریکٹس کا ۔ اگر چند پاکستانی ہی واپڈا کی
کوششوں سے صبر جیسی نعمت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو واپڈااہلکاروں
کے لئے صدقہ جاریہ سے کم نہیں۔
ہم بحیثیت قوم نہایت تساہل پسند اورآرام طلب ہوچکے ہیں، تھوڑی سی محنت سے
بھی دل گھبرانے لگتا ہے، معمولی سی گرمی بھی برداشت نہیں ہوتی، نراکتیں حد
سے بڑھ چکی ہیں، واپڈا کا احسان ہے کہ اس نے گھر بیٹھے پسینہ بہانے کا
بندوبست کردیا ہے، کیا ہی جدیددور آیا ہے کہ فارغ بیٹھتے ہیں اور پسینہ
بہاتے ہیں۔ پسینہ انسانی صحت کے لئے بہت ضروری ہے، اس کے لئے اب ہمیں ورزش
یا واک کی محتاجی نہیں ہوتی۔ ایک فائدہ سادگی کا بھی ہے ، لوڈشیڈنگ کی وجہ
سے ہم کلف زدہ لباس زیب تن نہیں کرسکتے، وہ صرف حکمران ہی ہیں جو سخت گرمی
کے موسم میں بھی ہر وقت سوٹ میں ملبوس ہوتے ہیں، کیونکہ لوڈشیڈنگ کی نعمت
سے وہ محروم ہیں۔
واپڈا کی مہربانیوں سے ہم اپنی روایات اور کلچر کو اپنانے پر بھی مجبور
ہیں، ہم نے اپنی روایات کو خیر باد کہہ دیا تھا، اب ایک تو قومی لباس کا
رواج فروغ پذیر ہورہا ہے، دوسرے یہ کہ دھوتی بنیان کی مانگ بڑھ گئی ہے،
تیسرے یہ کہ ایک بہت ہی خوبصورت اور شاعرانہ تخیل کے حامل روایتی آئیٹم
دستی پنکھا ضرورت بن چکا ہے، یہ صنعت زوال پذیر ہی نہیں تھی بلکہ دم توڑ
رہی تھی، رنگین دستی والا پنکھا، جس کی جھالر پر رنگ برنگے دھاگوں سے
کڑھائی کی ہوئی ہوتی تھی ، مہمان کو پیش کیا جاتا تھا۔ اب تو نئی نسل اس
روایت سے واقف ہی نہیں۔ لوڈشیڈنگ کے عالم میں اگر چار پائی پر دھوتی باندھ
کے بیٹھے ہوں اور کھجور کے پتوں کے پنکھے سے مصنوعی ہوا کا بندوبست ہو تو
اس کامزہ ہی کچھ اور ہے، اگر لوڈشیڈنگ نہ ہوتی تو ہم اپنے بچوں کو ماضی کے
جتنے بھی قصے سناتے ، وہ سنی ان سنی کردیتے تھے، اب وہ حق الیقین کی حدوں
میں داخل ہوچکے ہیں، شکریہ واپڈا۔ |