نہایت بے چینی ،اضطراب اور
انقباض کی کیفیت سے دو چار اشک بارحالت میں ذہن میں پھیلی کھلبی کو زینت
قرطاس بنانے قلم کو ہاتھ میں تھاما ،بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا ،نیند پاس
آنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور نیند کیونکر آتی ....موبائل فون کی کال
ریسیو کی ....حسب معمول و حسب عادت بھائی جان سے سلام کلام کے بعد پیاری
ماں سے بات کرنے کی درخواست کی تو جواب میں بھائی نے کہا کہ امی جان آپ سے
ناراض ہیں وہ بات نہیں کر نا چاہتیں ۔خیریت تو ہے بھائی۔۔۔؟ گستاخی
معاف!میں نے سوال جھاڑ دیا ۔بھائی جان نے موبائل امی جان کے کان سے لگا دیا
، میں نے اس بار ان کی آواز میں کپکپی سنی ہاتھوں پر رعشہ طاری ہو گیا امی
جان خیریت تو ہے آپ مجھ سے نا راض کیوں ہیں ....؟مجھ سے کیا غلطی سر زد ہو
گئی ،آپ مجھ سے ٹھیک طرح بات کیوں نہیں کرتیں ....؟ میری ماں کا جواب سنیئے
،تمہارے علم تمہارے کالموں اور تمہاری استعداد کا مجھے کیا فائدہ ہر موضوع
پر کالم لکھ کر سامنے لے آتے ہو اور خوشی کے عالم میں دل سے نکلی ہوئی
ڈھیروں دعائیں وصول کر کے لے جاتے ہو ،تم کیسے صحافی ہو ....؟ ماﺅں کے
حوالے سے منعقدہ عالمی د ن جس میں ماں کی عظمت ،کردار اور شخصیت کے حوالے
سے لوگ دنیا بھر سے اپنی ماﺅں کو فون ،ای میل ،فیس بک اور میسجز کے ذریعے
خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں ،آج کے اخبارات نے خصوصی ایڈیشن بھی شائع کیے
ہیں۔ کیا تمہاری نظر سے وہ بھی نہیں گزرے۔۔۔ ؟میں تو اس انتظار میں تھی کہ
میرا بیٹا بھی ماں کو محبت و عقیدت کا نذرانہ پیش کرے گا لیکن ....یہ جواب
سن کر میں تھوڑی دیر سوچ کی وادیوں میں بھٹکا پھر تا رہا ....واقعی مجھ سے
غلطی ہو گئی مجھے اس بارے میں ضرور لکھنا چاہیے تھا کم از کم اپنی ماں کو
”مدر ڈے “پر خصوصی سلام بھیجنا چاہیے تھا لیکن جب بنظر غایر ”مدر ڈے “کو
دیکھا تو تھوڑی دیر ڈھارس بندھی کہ ”مدر ڈے “تو مغرب کی نقالی میں ہم
مسلمانوں نے شروع کر رکھا ہے جس ایک دن میں تمام لوگ اپنی ماﺅں کو عقیدت کے
پھول پیش کر کے ڈھیر ساری دعائیں وصول کرتے ہیں ۔اسلام کا مطالعہ ہمیں اس
بات کا درس دیتا ہے کہ ماں ماں ہے ،وہ ایک دن نہیں سال کے 12مہینے، ہر
مہینے کے ہر دن، ہردن کی ہر آن ہر گھڑی وہ ماں ہے وہ ہر وقت لائق توجہ ہے
اسے ہر وقت عقیدت کے نذرانے پیش کیے جاسکتے ہیں ،ان کی خدمت ،اطاعت و
فرمانبرداری کے ذریعے اس کا دل جیتا جا سکتا ہے ،آج کل اُلٹی گنگا بہہ نکلی
ہے کبھی ”مزدور ڈے “کبھی مدر ڈے او ر کبھی خواتین کے حقوق کے عالمی دن
تقاریب کا اہتمام کر کے ان کی عظمت ،کردار اور معاشرے کے لیے ضرورت کو
اجاگر کیا جاتا ہے ،پھر سال بھر ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلو تہی کی جاتی
ہے ،ابھی چند روز قبل یکم مئی ”یوم مزدور “کے حوالے سے منایا گیا
سیمینارزتقاریب میں یہ حدیث جلی حروف کے ساتھ مر قوم نظر آئی کہ ”مزدور کو
اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے قبل دو “ایئر کنڈیشنڈ ہالز میں بیٹھ کر
مزدور کی تقدیر بدلنے والے اور اس کے حقوق کے لیے بلند وبانگ دعو ے الانپنے
والے تو نظر آ تے ہیں لیکن عملی میدان میں ہم میں سے ہر ایک کا اپنے ماتحت
مزدور کے ساتھ کیا رویہ ہے یہ ہم میں سے ہر شخص بخوبی جا نتا ہے ۔ اس کی
تفصیل میں جا نے کی ضرورت نہیں۔
بہر حال مدرڈے کے حوالے سے بات ہو رہی تھی کہ مغربی اقوام میں بسنے والے
لوگوں نے ہر چیز کے لیے ایک خاص دن مقرر کر رکھا ہے جس میں وہ تقاریب کا
اہتمام کر کے اس کی عظمت کو اجاگر کر کے سال بھر کے لیے چپ کا روزہ رکھ
لیتے ہیں ۔اسی طرح ماں کے اظہار ےکجہتی کی خاطر انہوں نے ”مدر ڈے
کاانعقادکیا ہے لیکن جب والدین پیرانہ سالی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو
وہ انہیں ”اولڈ ہاﺅس “کی راہ دکھاتے ہیں ،ان کی خدمت کو اپنے لیے بار گراں
سمجھتے ہیں ۔پھر یہی حشر ان کی اولاد بھی ان کے ساتھ کر تی ہے صحیح بات یہ
ہے کہ جتنی عزت ،مرتبہ اور مقام اسلام نے ماں کو دیا اتنا کسی مذہب نے نہیں
دیا ۔”ماں کے قدمو ں تلے جنت “کس نے بتلائی ....؟”ماواں ٹھنڈیاں چھاواں “یہ
سب میری ماں کی دعا ہے گاڑیوں کے پیچھے جلی حروف میں لکھا کسی معاشرہ میں
ملتا ہے ،ماں ....ماں کی قدر و قیمت ،احساس اور بلندی مرتبہ ان سے پوچھیے
جن کی مائیں نہیں ،ماں کے ساتھ گھر جنت کی نظےراور ماں کے بغیر گھر قبرستان
معلوم ہوتا ہے ۔ مجھ ناچیز نے بھی بار ہا ماں کی عدم موجودگی اس بات کا شدت
سے ادراک کیا ہے ،یہی ماں ہے جس کی اےک دعا ءانسان کو اوج ثریا تک پہنچا
دیتی ہے اور اسی ماں کی بددعا ءبنی اسرائیل کے بہت بڑے بزرگ جرےج کو ذلت کا
منہ دکھاتی ہے ،یہی ماں ہے جب فوت ہوتی ہے تو موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ کی
طرف سے پیغام ملتا ہے کہ اب ذرا سنبھل کے آنا ،یہی ماں ہے جب کائنات کے
عظیم ترین انسان ،رہبر انسانیت حضرت محمد ﷺ سے رفاقت کا دامن چھوڑ کر زمین
کی گود میں جا سوتی ہے تو آپ ﷺ اپنی ماں کی قبر کے ساتھ لپٹ کر روتے ہوئے
نظر آتے ہیں ،اسی ماں کے بارے آپ ایک صحابی ؓ کو جواب دیتے ہیں کہ تجھ پر
ماں تیری ماں کا حق ہے ،تیری ماں کا حق ہے ،تیری ماں کا حق ہے پھر چوتھی
بار استفسار پرفرماتے ہیں تیرے باپ کا حق ہے ،اسی ماں کو شفقت بھری نگاہ سے
دیکھنا مقبول حج و عمرے کا ثواب رکھتا ہے ۔
اسلام سے تعلق رکھنے والے ماں کے حقوق کے بارے میں بخوبی جانتے ہیں،اس کے
باوجود آج ہم جس متعفن زدہ معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں اس میں جہاںدیگر
جرائم کے بارے میں خبریں پردہ سماعت سے ٹکراتی رہتی ہیں وہیں یہ منحوس اور
اذیت ناک خبر بھی سننے کو ملتی ہے کہ ”بد بخت بیٹے نے ماں کو قتل کر ڈالا
“لاڈلی اور چہیتی بیویوں کی ہاں میں ہاں ملانے والے اس عظیم رشتے کو کیوں
فراموش کر دیتے ہیں جو ماں کڑکتی دھوپ اور سردی کی ٹھٹھرتی راتیں اپنے لخت
جگر کی خاطر کر ب و الم کی حالت میں گزار کر اسے سلاتی ہے خود نہیں سوتی ،اسے
پلاتی ہے خود نہیں پیتی ،اسے کھلاتی ہے خود نہیں کھاتی ،آج اس کی چہتی بیوی
کی ایک ”ناں “ماں کو دھکے دینے پر مجبو کر دیتی ہے ۔اس کی سوچ کو دقیانوسی
سوچ اور اس کی فکر کو پتھر کے زمانے کے ساتھ منسوب کر کے یکسر مسترد کر دیا
جاتا ہے ۔ہائے افسوس !!!اے انسان تیرے بیٹے تو فروٹ کھائیں اور تیری ماں کا
جھریوں والا چہرہ ایک نوالے کو ترس رہا ہو اور آنسوﺅں کی مسلسل رم جھم بارش
اس کے رخسار پر بننے والی نہروں سے ٹپک رہے ہوں ،تیری اولاد تو عمدہ کپڑے
پہنے اور تیری ماں پھٹے پرانے پہن کر گزارا کرے ،کبھی تو نے قرآن کا مطالعہ
کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی عبادت کے ساتھ کن ہستیوں کے حسن سلوک کا حکم دیتے
ہیں ....؟وہ ہستیاں والدین ہیں ،والدین کی پیرانہ سالی کے عالم میں قرآن کی
پکار تو نے نہیں سنی ....؟”واخفض لھما جناح الذل من الرحمة “(ترجمہ )ان کے
سامنے عاجزی کے پر بچھا لو ،ان کے ساتھ رحم سے پیش آﺅ اور ساتھ یہ دعا پڑھو
ر ب ارحمھما کما ربیٰنی صغیراً اے میرے پر ور دگار ان دونوں پر رحم فرما
جیسا کہ بچپن میں انہوں نے مجھے پالا ۔
مغرب کی نقال میں اپنی ماﺅں کو ”اولڈ ہاﺅس “چھوڑ آنے والے ،اپنی ماﺅں پر
بیویوں کو ترجیح دینے والے، اپنی ماﺅ ں کو زدو کوب کر نے والے اور ان کو
گالیاں دینے ”مدر ڈے“ کے موقع پر کچھ لمحہ کے لیے ہی اپنے بے حس ضمیر کے
دروازے پر دستک دیں کیا ان کا معاملہ اپنی ماں کے ساتھ درست ہے ....۔بس آخر
میں اتنا ہی ماں کوئی تجھ سا کہاں ........ماں تجھے سلا |