آزاد کشمیر میں قیمتی پتھروں کی چوری کا سلسلہ

کہتے ہیں کہ نیکی اور برائی نسل در نسل چلتی ہے۔انسان کی اچھی یا بری فطرت اولاد کے ذریعے پروان چڑہتے ہوئے تقویت پاتی جاتی ہے۔اسی حوالے سے آزاد کشمیر کے ایک شہری مسٹر جمالدین سابق ملازم کارپوریشن’ AKMIDC‘ کی طرف سے آزاد کشمیر کے ارباب اختیارکے نام دی گئی ایک درخواست کے مندرجات قارئین کی دلچسپی اور آگاہی کے لئے من و عن پیش ہیں تا کہ سرکاری ،حکومتی کرپشن اور نااہلی کے حوالے سے عوامی شکایات داخل دفتر ہونے کے بجائے منظر عام پر آتے ہوئے حقیقی صورتحال کو واضح کر سکیں۔سرکاری خزانہ اور عوامی ملکیت کے اثاثہ جات کی لوٹ مار کے بارے میں عوام کی آگاہی اور ذمہ داران کی باز پرس کا سلسلہ موثر انداز میں شروع ہو سکے۔مسٹر جمالدین کی داخل دفتر ہو جانے والی یہ اپیل آزاد کشمیر میں کرپشن کے عام چلن اور کمزور حکومتی رٹ کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔

محترم جناب
ڈوگرہ دور کا قصہ ہے کہ گلگت ریزیڈنسی کے علاقہ میں ایک شخص شیر باز مشہور چور تھا، جو کہ لوگوں کی بھیڑ بکریاں ،اناج وغیرہ چوری کرتا تھا۔ڈوگرہ پولیس کو مطلوب تھا کہ بھاگ کر علاقہ گریز نیلم ویلی میں چھپ گیا۔اس دور میں نیلم ویلی چور ڈاکوﺅں کی پناہ گاہ تھی۔دور دراز علاقہ برفوں،ندی نالوں،جنگلوں اور پہاڑی ڈھلوانوں کی وجہ سے باقی دنیا سے کٹا ہوا تھا ۔اور دریا کے اس پار ایک گرے ہوئے درخت سے پل کا کام لیتا تھا۔شیر باز گریز کے ایک گاﺅں میں آیا اور شادی کر کے اسی علاقہ میں آباد ہو گیا۔لیکن چور اپنی عادت سے مجبور تھا۔یہاں کے باسی بھی اس کی شر انگیزیوں سے محفوظ نہ رہے اور شکار ہونے لگے۔شیر باز نے گاﺅں سے دور ایک اونچے پہاڑ کے درمیان اپنا مسکن بنا لیا ،جس کو ”پجہ “ کہتے ہیں(جو کہ عمودی پہاڑ کے درمیان نسبتاً محدود ہموار جگہ ہوتی ہے جو تین اطراف سے گہری کھائی اور آنے جانے کا صرف ایک راستہ ہوتا ہے)شیر باز وہاں لوگوں سے لوٹی ہوئی،چوری کردہ اشیاء بشکل پالتو جانور اور اناج وغیرہ ذخیرہ کرتا رہتا اور اپنے کنبہ کے ہمراہ اسی پر گزارہ کرتا۔اسی وجہ سے وہ مسکن ”شیر باز پجہ “کے نام سے مشہور ہوا اور اب بھی اسی نا م سے پکارا جاتا ہے ۔یہاں پر ہی اس کی اولاد پیدا ہوئی ۔آخر شیر باز کے مظالم سے تنگ آ کر لوگ مہاراجہ کشمیر کے پاس فریاد لیکر گئے۔ڈوگرہ مہاراجہ نے شیر باز پجہ کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ پولیس اسے گرفتار کرنے علاقہ گریز پہنچی تو علاقے کے لوگ دریا کے کنارے جمع ہو گئے تا کہ شیر باز پجہ کی گرفتاری کا نظارہ کر سکیں۔

پولیس دریا عبور کر کے شیر باز پجہ کے ٹھکانے پر پہنچی تو شیر باز پجہ کی کھائی کی جانب رسہ سے لٹک گیا ۔پولیس نے بھلا پھسلا کر اسے اوپر آنے پر مجبور کر دیا۔ پولیس اسے گرفتار کر کے پہاڑ سے نیچے لائی ۔دریا عبور کرتے ہوئے جب وہ پل کے درمیان پہنچے تو علاقے کے لوگوں نے شیر باز پجہ سے نفرت کے اظہار کے طور پر پتھراﺅ شروع کر دیا۔ایک پتھر شیر باز پجہ کے سر پہ لگا جس سے وہ دریا میں گر گیا۔پولیس نے اسے دریا سے نکالا لیکن وہ سر پر آنے والے زخم کی وجہ سے مر گیا۔پولیس نے شیر باز پجہ کو گاﺅں میں ہی دفنا دیا۔اس کی قبر علاقے میں آج بھی عبرت کا نشان ہے۔اس کی اولاد کو پولیس نے ان کے نانا کے سپرد کر دیا۔جو ہوش سنبھالتے ہی گھر سے بھاگ کر کراچی چلے گئے اور کسی یتیم خانے میں پروان چڑھے۔ایک جوان ہونے پر گلگت چلا گیا جبکہ دوسرا واپس گریز آ گیا،یتیم خانے کی تعلیم کی بنیاد پر آزاد کشمیر حکومت میں کلرک بھرتی ہوا ۔اور چالیس سال سے زیادہ نوکری کرکے ترقی پاتے ہوئے سیکرٹری حکومت بن گیا۔جس محکمے میں بھی رہا اپنی خاندانی خصلت کی بنیاد پر چوریاں ہی کرتا رہا،بظاہر مذہبی حلیہ میں وہی خاندانی خصلت اس پر غالب رہی۔چوری کرتا،چوروں کا ساتھ دیتا اور کرپشن گروپ کی سرپرستی کرتا۔

حکومت کے ایک محکمہ میں قیمتی پتھروں کی چوری ہو گئی جو کہ کئی سالوں کی پیداوار تھی،جن کی مالیت کروڑوں میں تھی۔جس کی فروخت سے محکمہ چلتا حکومت کو بھی معقول آمدن ہوتی تھی اورملازم ہر سال بونس بھی لیتے تھے۔محکمہ کے ہی چند افسران نے مل کر اس پر ڈاکہ ڈالا اور قیمتی پتھربیرون ملک بظاہرسرکاری دورہ پر بین الاقوامی قیمتیں لگوانے لے کر گئے اور بیچ آئے۔واپس آ کر ایک ہفتے کے اندر جعلی ڈاکہ ڈلوا کر پتھر ہضم کر گئے۔

حکومت نے ابتدائی انکوائری کر کے جن آفیسران کے پاس چابیاں ہوتی تھیں( جو بجائے بنک لاکر میں رکھنے کے ،جو اسی مقصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا، صفائی کرانے کے بہانے دفتر میں ہی رکھے ہوئے تھے جبکہ یہ پیداوار چار پانچ سالوں کی تھی اور گزشتہ اس عرصہ میں کسی وجہ سے نیلامی نہ ہوئی تھی) کو سروس سے معطل کر دیا،جو کہ ڈیڑھ سال تک معطل رہے۔ حکومت نے قیمتی پتھر چوری کرنے کے اس واقعہ کی انکوئری کے لئے ” شیر باز پجہ“ کی اولاد کو انکوئری افسر مقرر کیاجس نے انکوئری کو’ گول مول‘ کر کے معطل آفیسران کو ملازمت پر بحال کر دیااور معاملہ کو دبا دیا گیا۔جس سے عیاں ہوتا ہے کہ کتیا چوروں کے ساتھ مل گئی۔حکومت نے بھی انکوائری کے بعد اسی شیر باز پجہ کی اولاد کو اسی ادارہ کا سربراہ بنا دیا،جو چار سال پتھر چوروں کے ساتھ ملکر ادارے کو لوٹ رہا ہے۔چار سالہ دور میں قیمتی پتھر کان سے نکالے جاتے رہے لیکن ادارہ کے دفتر میں کوئی پتھر نہ آیا۔مائن سے براہ راست ملک کے اندر اور بیرون ملک سمگل ہوتا رہا ہے۔کچھ لوگ مقبوضہ کشمیر میں لیجا کر ہر سال بیچتے رہے۔عمرہ کے بہانے سعودی عرب،انگلینڈ و دیگر ممالک کے دورے کر کے ہر جگہ سمگلنگ میں ملوث رہے۔چوروں میں سے ایک کو انگلینڈ میں چھ سال بٹھائے رکھا اور خود جا کر اس حوالے کرتے تھے اور رقم لا کر بانٹتے رہے۔اور انگلینڈ والے کو چھ سال قاعدہ قانون کے خلاف حاضر ڈیوٹی بھی کر دیا۔ اس سارے عمل کی نگرانی ،دفتر کا خزانہ خالی کرنے،مراعات لینے اور دینے کے علاوہ ان چوروں کو چار سال میں ترقیاب بھی کر دیا۔ اسی ”شیر باز پجہ “ کی اولاد کے گروہ کے کچھ ممبران ریٹائرڈ بھی ہو گئے ہیں لیکن اس نے اور کرپٹ گروہ نے محکمہ کو خوب لوٹا اور قومی خزانے پر ہاتھ صاف کر کے اپنی اوقات سے زائد عیاشی سے زندگی بسر کرتے ہیں۔نہ ان کی جائیداد یا دولت کا کسی نے محاسبہ کیا اور نہ ہی انہیں بیرون ملک دوروں سے روکا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ چار سالہ عرصہ اور اس سے قبل محکمہ میں ہونے والی چوریوں کا سراغ لگایا جائے اور کرپٹ گروہ کے ارکان کو بے نقاب کر کے عبرت ناک سزا دی جائے اور ان کے نام” ECL“ میں ڈال کر بیرون ملک دوروں،عمرہ وغیرہ سے روک کر چھان بین کی جائے۔

لیکن اس عمل میں درد دل اور وطن سے محبت،عوام سے انس ہو تو تب ہی ہو سکتا ہے ۔لیکن ایسا ہوتا نہیں اور چور بچ جاتے ہیں۔
واسلام
جمالدین
سابق ملازم کارپوریشن اے کے ایم آئی ڈی سی

آزاد کشمیر حکومت کے نا م داخل دفتر ہوجانے والی اس درخواست سے یاد آیا کہ تقریباً دس سال قبل وادی نیلم کے گریز علاقے میں کان سے محکمہ کے قیمتی پتھر چوری ہو گئے۔اس چوری میں ملوث استور کے ایک شخص پر مظفر آباد ضلع میں داخل ہونے پر پابندی عائید کی گئی۔اس وقت وادی نیلم ضلع مظفر آباد میں ہی شامل تھا۔لیکن نہ معلوم اس شخص نے حکومتی حلقوں میں کیسے اپنے پر عائید پابندی ختم کرائی اور اب وہی شخص وادی گریز کے چار سو ایکڑ علاقے پر قابض ہے،خود ہی اس علاقے میں کان کنی کے اجازت نامے جاری کرتا ہے،اس کے زیر قبضہ چار سو ایکڑ علاقے میں آزاد کشمیر حکومت بھی مجبور و بے بس ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وہ شخص صرف اس سال حکومت کے تقریباً نو دس لاکھ روپے ہڑپ کر چکاہے۔ اسی طرح سرکاری قیمتی پتھروں کی ایک چوری میں متعدد ”بڑے لوگوں“ کے بیٹے بھی ملوث پائے گئے۔ آزاد کشمیر میں کرپٹ افراد کرپشن کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔بعض اصحاب کا تو کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کی کرپشن کے ”حمام میں سب ہی ننگے ہیں“،فرق طریقہ واردات کا ہے۔مقام افسوس ہے کہ شہیدوں،غازیوں کی اس سرزمین کو اب ایسی” کرپشن لینڈ“ کہا جاتا ہے جو ریاستی تشخص اور مقامی حقوق تیزی سے کھوتی جا رہی ہے۔انحطاط پذیری کا یہ سفر آزاد کشمیر کے عوام کو کہاں لے جائے گا،اس کا اندازا لگانا زیادہ مشکل نہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 619159 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More