آج کے انسان میں صبر ہے نہ
برداشت ہے مسئلے مسائل ہیں کہ ختم نہیں ہونے میں آتے پریشانیاں ہیں کہ ختم
ہونے کا نام نہیں لیتیں ایک کے بعد ایک خرابی پیدا ہوتی جا رہی ہے تفکرات
وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جارہے ہیں مہنگائی میں اضافہ اخراجات میں بڑھوتری
یہ سب کیا ہے اس جھنجھٹ سے کیسے نجات حاصل ہو کیا کریں کیا نہ کریں کچھ بھی
تو ٹھیک نہیں خرابیاں ہیں کے بڑھتی جارہی ہیں سکون ہے نہ آرام چین سے گزر
بسر کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے کس طرح مقابلہ کریں کیسے دور کریں
ان مسئلوں کو اپنی زندگی سے جیسے دیکھو وہی شکوہ کناں پے ہر ایک کی زباں پہ
خرابی حالات کا گلہ ہے آخر یہ سب کیوں ہے آخر یہ سب کیا ہے سوچنے کی بات ہے
کون اس کا ذمہ دار ہے وقت حالات حکومت یا عوام کوئی تو وجہ ہے کچھ تو ایسا
ہے اور وہ ایسا کیا ہے ہمیں خود دریافت کرنا ہمیں خود سوچنا اس کا حل ہمیں
خود ہی نکالنا ہے ۔۔۔ کیسے۔۔۔؟
ایسے کہ ہمیں خود اپنا احتساب کرنا اپنے روز و شب کا حساب کرنا ہے ہر بات
کا الزام قسمت حالات یا کسی دوسرے فرد پر عائد کر کے رنجیشیں بڑھانے
کدورتیں عداوتیں اپنی زندگی میں پیدا کرنے کی بجائے مایوسی کا گھٹن کا
ماحول مٹا کر زندگی کو خوشگوار بنانا ہے بظاہر تو یہ کام بہت مشکل نظر آتا
ہے لیکن کچھ ایسا مشکل بھی نہیں یہ سب کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ
اللہ تعالٰی نے انسان کو اتنی عقل اتنی قوت اور اتنے اختیار کی صلاحیت عطا
فرمائی ہے کے وہ بدلتےہوئے حالات کا سامنا جرات و بہادری سے ہمت و حوصلے سے
تدبیر و فراست سے کر سکے اور خود کو مسائل کے جال سے نکال سکے مایوسی کے
عالم سےخود کو باہر نکال سکے امید اور یقین کی روشنی اپنے قلب و نظر میں
اتار سکے بس سوچنا یہ ہے کہ کیا کریں ۔۔۔۔؟
بس ذرا سی بات ہے گھٹن زدہ ماحول سے خود کو باہر نکالنے کے لئے بس یہ ہی
ایک بات ہے کہ ہم ان سب حالات کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ دریافت کریں اور
وجہ صرف یہ ہے کہ ہم اس طرح سے زندگی نہیں گزارتے جس طرح سے زندگی گزارنے
کا حکم ہمیں اللہ تعالٰی نے نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے ذریعے سے جو بنی نوع انسان کو دیا ہے خود انسان کی اپنی فلاح و
بھلائی کے لئے خوشی اور کامیابی کے لئے ہم مسلمان جب تک مذہب اسلام کے قائم
کردہ اصولوں کے مطابق زندگی نہیں گزاریں گے ہم خود کو گھٹن زدہ ماحول سے
باہر نہیں نکال سکتے اس ماحول سے اپنے اور دوسروں کے لئے خوشگوار پر امن و
پرسکون زندگی گزارنے کا خواب شرمندہء تعبیر نہیں کر سکتے-
ہم اپنے گرد و پیش اپنے انداز و اطوار کا جائزہ لیں ایمانداری سے اپنے شب و
روز کا مشاہدہ کریں اپنے اخلاق و کردار کا جائزہ گاہے بگاہے لیتے رہیں دل
سے فیصلہ کریں کیا ہم نے اپنی زندگی ایسے ہی گزار رہے ہیں نہیں ہم مسلمان
ضرور ہیں اللہ پر اللہ کے نبیوں اور اللہ تبارک و تعالٰی کے فرمان پر نہہ
دل سے ایمان بھی رکھتے ہیں لیکن کیا ہمارے اعمال ہمارے ایمان کے مطابق ہیں۔۔۔؟
نہیں نا۔۔ کیا ہم اسوہ حسنہ کے مطابق چلتے ہیں پیروی محمد صلی اللہہ علیہ
والہ وسلم کو اختیار کئے ہوئے ہیں نہیں بلکہ ہم تو اقوام غیر کی تقلید میں
پڑے ہوئے ہیں جوق در جوق بڑھتے جارہے ہیں اس جنون میں اور فخر کرتے ہیں
اغیار کی تقلید میں پھر کیوں کرتے ہیں حالت کی خرابی کا گلہ کیوں ہیں زندگی
سےشکوہ کناں۔۔۔؟
خرابی ہے مذہب سے دوری بس اس خرابی کو اپنے سے الگ کر دیں مذہب کے قریب ہو
جائیں اس طرح جیسا کہ ہونا چاہئے پھر دیکھئے کیسے نہیں بدلتے حالات کیسے
نہیں آتی خوشگوار تبدیلی آپ کی زندگی میں محبت شفقت ایثار صبر برداشت تحمل
حسن سلوک رواداری محنت ایمانداری تدبیر و فراست سے حسن عمل سے کام لیں ایک
دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں دوسروں کی بجائے اپنے اندر کی خامیوں کو
برائیوں کو جانچ کے خود ختم کریں اپنے اندر کی پوشیدہ صلاحیتوں کو خود
دریافت کریں اور فیض اٹھائیں ہر حال میں اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتے رہیں
ہر قسم کے حالات کا صبر سے مردانہ وار سامنا کریں ڈٹے رہیں اپنے ہدف پہ جہد
مسلسل کرتے رہیں پھر دیکھیں کیسے حالات نہیں سدھرتے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ
شاید اللہ ہم سے ناراض ہے تو اللہ کو راضی کرلیں وہ اپنے بندوں سے کیسے
ناراض ہو سکتا ہے کہ وہ ہی تو بندوں پہ کل کائنات میں سب سے زیادہ محبت
کرنے والا ہے مہربان ہے رحیم ہے رحمٰن ہے اور اللہ کو کیسے راضی کرنا ہے یہ
آپ بھی جانتے ہیں ہم بھی جانتے ہیں پم سب جانتے ہیں اللہ کی کتاب پڑھیں
سمجھیں عمل کریں اللہ تبارک تعلٰی نے اپنی کتاب میں روشن دلیل کے ساتھ سب
کچھ اپنے بندوں کے لئے بیان کیا ہے بےشک ہدایت والوں کے لئے واضح نشانیاں
ہیں کلام پاک میں بس یہ ہی بات ہے اللہ تعالٰی ہمارے دل ایمان کی نور سے نا
دم مرگ منور رکھے اور ہمیں ہمیشہ اعمال صالح پر قائم رنے کی توفیق عنایت
فرمائے کبھی ہمارا ایمان متزلزل نہ ہونے پائے ﴿آمین یا رب العلمین﴾- |