علم وعمل کے پیکر ، عجزو انکساری
کے خوگر ، قرآن کے سائے تلے زندگی کی بہاریں بتانے والے ، تفسیر قرآن کو
گلی گلی ، کوچہ کوچہ عام کرنے والے ، گھر گھر میں قرآن کے پیغام کو پہنچانے
والے ، داعی قرآن کے نام سے پہچانے جانے والے ، دونوں پیروں سے معذور اس
فرشتہ صفت انسان کو دنیا مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ کے نام سے جانتی
ہے۔
تفسیر مکمل کرلی تھی یا نہیں؟ بس یہی حسرت دل میں لیے دنیا ئے فانی سے دار
بقاءکی طرف کوچ کرگئے ، تکمیل تفسیر کی خاطر درس وتدریس کے سلسلے کو بھی
موقوف کر رکھا تھا اور دیگر مصروفیات ومشاغل کو بھی اسی بناءپر ترک کرنا
پڑا تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت تفسیر لکھنے میں ہی صرف ہو اور جلد از جلد
تفسیر کا کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے ۔ لیکن تفسیر مکمل کرنے کی تمنا
وآرزو پوری نہ ہوسکی ۔ راہ ِ حق کے مسافر تھے انہوں نے تو اپنی منزل پالی ،
نقصان میرا اور آپ کا ہوا ، امت کا نقصان ہوا ، بلاشبہ نا قابل تلافی نقصان
! اس خلا ءکو پُر ہوتے ہوتے عرصہ بیت جائے گا ۔ زمانہ کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ یک دم نہیں ہوتا! یہ مکالمہ حضرت کی شہادت کے دوسرے روز تعز یت کے
لیے آنے والے معروف عالم دین مفتی احمد ممتاز صاحب اور حضرت شیخو پوریؒ کے
صاحبزادے مولانا محمد عثمان کے مابین ہورہا تھا میں بھی اسی مجلس میں شریک
تھا ۔ وہاں سے رخصت ہوتے وقت حضرت شیخوپوری ؒ کے چھوٹے صاحبزادے سے بغلگیر
ہوا تو شفیق ومہربان والد کی ستائی ہوئی یاد سے بے چین اس معصوم کے ضبط کا
بندھن ٹوٹ گیا اور اس کے آنسو چھلک چھلک کر میرے کندھوں پر گرنے لگے ۔ میں
اسے تسلی دیے بنا ہی خود پر قابو پاتے ہوئے اس آباد خانے کو ویراں دیکھتے
ہوئے وہاں سے چل دیا ۔ اور تنہائی میسر آتے ہی خوب دل کھول کر رویا ۔ رات
کو سوتے وقت بھی میں ان آنسوؤں کے نشانات کو اپنی قمیص پر دیکھتا رہا اور
سوچتا رہا ۔ اس عاجز ، لاغر اور بے ضرر بندے سے کسی کو کیا تکلیف تھی ؟
علمی میدان کے اس شہسوار سے کسی کو کیا خطرہ تھا ؟ زندگی کو قرآن کے نام پر
وقف کرنے والے اس عظیم انسان سے کسی کو کیا نقصان تھا ؟ اس نے تو کبھی
تفرقہ ، توڑ ، جدائی اور اختلاف کی بات نہیں کہی ، ہمیشہ اتفاق ، اتحاد ،
حکمت ومصلحت ہی کا درس دیتے رہے ۔
قرآن کا ترجمہ وتفسیر گھر گھر عام کرنا ہی تو ان کا مشن تھا ، خواتین سے ان
کے چھینے گئے حق یعنی پردے کا درس دینا ہی تو ان کا حدف تھا ۔ اللہ تعالیٰ
نے کیا لذت اور چاشنی دے رکھی تھی حضرت کی زبان میں کہ روز بروز ان کا حلقہ
وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا تھا ، ہماری بے پردہ ماؤں بہنوں کو عفت کی چادر
اوڑھانا ہی شاید کسی کی نظر میں کھٹک رہا تھا ، ان کے حلقہ درس کا وسیع
ہونا ہی شاید کسی کے من کو نہیں بھا رہا تھا ۔ اس کے علاوہ تو ان کا اور
کوئی حدف ومقصود نہ تھا ۔ لیکن پھر بھی اس معذور فرشتہ صفت انسان سے جینے
کا حق چھین لیا گیا ۔
بڑے حیرت وتعجب کی بات ہے کہ دونوں پیروں سے معذور ، پیغمبر دو جہاں ﷺ پر
نازل کی گئی اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کا پرچار کرنے والے اس کمزور
وعاجز انسان پر گولیاں برساتے ہوئے بے رحم وسفاک قاتلوں کو ذرا سا ترس بھی
نہ آیا ! یقینا اس منظر کو دیکھ کر تو آسمان بھی رویا ہوگا ، ڈھلتا سورج
بھی مغموم ہوا ہوگا ۔ لیکن گولیاں برساتے درندہ صفت دہشت گردوں کے ارادے
میں ذرہ برابر فرق نہ آیا ۔
شاید شیطانی صفت کے حامل قاتل بھی ایک دوسرے پر فخر کرتے ہونگے کہ ہم نے
فلاں بڑے سیاسی لیڈر کو قتل کیا ، ہم نے فلاں بڑے عالم کو شہید کیا ، ہم نے
فلاں نوجوان کو موت کی نیند سلادیا ۔ لیکن قاتلوں کے ٹولے میں ایسے حیا
ءفروش قاتل شاید نہ ہوں کہ قاتل بھی جن کا مذاق اڑائیں کہ دیکھو ۔۔۔! ان
بہادروں کو اللہ کے دین کو بیان کرنے والے نصف جسم سے معذور ایک عاجز انسان
کو مار کر غیرت وحمیت سے عاری یہ لوگ ابھی تک زندہ ہیں ۔ شرم تم کو مگر
نہیں آتی ۔۔۔!
دنیا وآخرت تو ایسے لوگوں کی ہوتی ہی برباد ہے لیکن ایسے بدبخت ذلیلوں کو
کبھی عافیت کی موت بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ دوسروں کو دُکھ دینے والا کبھی
سکھی نہیں رہ سکتا ، دوسروں کو تڑپانے والا کبھی چین کی نیند نہیں سو سکتا
، دوسروںکے سہاگ کو اُجاڑنے والا کبھی اپنا گھر آباد نہیں کرسکتا، پرسکون
گھروں کو ماتم کدوں میں بدلنے والے کو کبھی گھر کی خوشی نصیب نہیں ہوتی ۔
خدارا شیطانی وطاغوتی اشاروں پر ناچنا چھوڑ دو ، گناہوں کی اس آلودہ دنیا
سے بے رخی اور کنارہ کشی اختیار کرلو، کب تک ظلم ڈھاتے رہو گے ؟ کب تک سروں
کے مینار کھڑے کرتے رہو گے ؟ ظلم کی رات جتنی بھی طویل ہو آخر کٹ ہی جاتی
ہے اور صبح آفرین کا سورج طلوع ہو کر رہتا ہے ۔زندگی کا سورج غروب ہونے اور
آخرت کا سورج طلوع ہونے سے قبل ہی لوٹ آؤ۔۔۔! ورنہ اللہ کا عذاب بڑا سخت
ہے۔ |