امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان
پر دبائو بڑھانا شروع کر دیا ہے کہ وہ نیٹو کی سپلائی لائن بحال کر دے جو
کہ سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی بمباری اور چوبیس فوجی اہلکاروں کی شہادت کے
بعد بند کر دی گئی تھی یہ صرف چوبیس شہادتیں نہیں تھیں بلکہ پاکستان کی خود
مختاری پر ایک زبردست حملہ تھا اس سے پہلے دو مئی کو بھی امریکہ یہ حرکت کر
چکا تھا۔ اِن واقعات پر عوام کا غم و غصہ فطری تھا اور شاید یہی مجبوری تھی
کہ حکومت کو نیٹو سپلائی لائن بند کرنے کا اقدام اٹھانا پڑا جو امریکہ کے
لیے خلاف توقع تھا کیونکہ اب تک اُس کے ہر ڈو مور کے مطالبے پر ہمارے
حکمران لبیک کہتے رہے تھے اور جب ایک بار پھر خلاف توقع یہ پابندی طول
پکڑتی گئی تو امریکہ کو یہ جنگ مہنگی سے آگے بڑھ کر نا ممکن نظر آنے لگی
اور تب اُس نے پاکستان کو مختلف دھمکیاں دینا شروع کردیں اور اب اس نے ایک
بِل پر کام شروع کر دیا ہے جس میں پاکستان کی فوجی امداد روکنے اور تجارتی
اور سول امداد پر شرائط سخت کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔ جمعرات دس مئی کو یہ
دونوں بِل سینٹ کی سب کمیٹیوں میں پاس ہو چکے ہیں اب اس پر زیریں ایوانِ
نمائیدگان میں بحث کے بعد اِسے سینٹ میں پیش کیا جائے گا اور منظوری کے
صورت میں صدر اوبامہ کے دستخط کے بعد یہ لاگو ہو جائیں گے۔ یہی وہ امداد ہے
جس نے پاکستانی قوم کو خدانخواستہ ایک غلام کی حیثیت کے قریب کر دیا ہوا ہے
لیکن یہ امداد عوام کی سطح پر کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ درست ہے کہ اس سے کئی
منصوبے چلتے ہوںگے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے ہمارے حکمران اپنی
ضروریات ، اپنے اللے تللے، اور اپنی خواہشات زیادہ پورا کرتے ہیں جو اُنہیں
امریکہ کو آنکھیں دکھانے سے باز رکھتے ہیں۔ سیکیورٹی کے نام پر اُن کے آگے
پیچھے چلتی ہوئی گاڑیوں کی فوج ، ظہرانوں وعشائیوں کی ریل پیل، بچوں اور
پھر ان کے بچوں کی بیرون ملک تعلیم اور بزنس سب کچھ آخر کہاں سے ہو۔ اس لیے
یہ کہنا کہ امریکہ پاکستانی عوام کی مدد کر رہا ہے کچھ زیادہ قرینِ انصاف
نہیں اور امریکہ کا یہ سوچنا کہ وہ پاکستان کی مدد کر رہا ہے بھی درست نہیں
وہ تو وہ معاوضہ بھی ادا نہیں کر رہا جو خدمات وہ پاکستان سے لے رہا ہے
سڑکوں اور عمارتوں کی تباہی سے لے کر سٹاک ایکسچینج میں نقصان تک کہاں کہاں
ہم اس دہشت گردی کی جنگ سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ کوئی بیرونی ٹیم پاکستان
آکر کھیلنے تک کو تیار نہیں اور اس سب کچھ کے بعد نیٹو کے سیکٹری جنرل کا
یہ کہنا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مدد نہیں کررہا ہمارے منہ پر طمانچے
کے مترادف ہے ۔امریکی حکومت کا حقانی نیٹ ورک کی سزا پاکستان کو دینے کا
کیا جواز ہے اگر وہ چاہتا ہے کہ طالبان اُس کی شرائط پر اُس کے ساتھ صلح
کریں اور وہ ایسا کرنے کو تیار نہیں تو بھی مجرم پاکستان ۔ جبکہ سچ یہ ہے
کہ امریکہ پوری دنیا کو اپنا مطیع بنا کر اس پر راج کرنا چاہتا ہے۔ خاص کر
اسلامی دنیا کو تو وہ اس حالت میں رکھنا چاہتا ہے کہ وہ سر اٹھا کر چل نہ
سکے اور زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ باوجود ایک اللہ ، رسول صلی اللہ علیہ
اآلہ اسلم سے ڈرنے کا دعویٰ کرنے کے ہم امریکہ کے تابعدارہیں اور اُس سے
ڈرتے ہیں۔ اگر یہ ممالک ایک ہو جائیں تو ممکن ہی نہ تھا کہ امریکہ کسی ایک
مسلمان ملک کو بھی آنکھیں دکھاتا۔ خود وہ طالبان سے مذاکرات کرتا ہے لیکن
پاکستان کا ایسا کہنا بھی اُس کو سیخ پاکر دیتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو
پاکستان ٹیررازم اکاونٹبیلٹی بِل نہ پیش کیا جاتا۔ ڈرون حملوں کو تو بند
کرنے سے مکمل طور پر انکار کیا جارہاہے بلکہ اسے بین الاقوامی قوانین کے
مطابق قرار دیا جارہا ہے کیونکہ یہ ٹارگٹڈ ہیں تو کیاپاکستان اگر کسی
امریکی کو نشانہ بنائے یعنی ٹارگٹڈ آپریشن کرے تو وہ سب جائز ہوگا۔
اب سوال امریکی امداد کی ممکنہ بندش کے بعد کی صورت حال کا ہے کہ پھر کیا
ہوگا ۔ کیا بجلی بند ہوجائے گی تووہ اب بھی بند ہے، مہنگائی ہو جائے گی ،
کارخانے بند ہو جائیں گے، دوائیاں مہنگی ہو جائیں گی تویہ سب تو ہمارے
حکمرانوں کی مہربانی سے اب بھی ہیں ،دریاامریکہ کے منظور نظر بھارت کی کرم
نوازی سے قطرہ قطرہ خشک ہو رہے ہیں۔ اگر پاکستانی قوم اب بھی اِن سارے
مصائب کا مقابلہ کررہی ہے جو بلاوجہ ہیں تو بوجہ آنے والی مشکلات سے بھی
نبٹ لے گی۔ لیکن اگر اِن دھمکیوں میں آکر جو امریکہ دے رہا ہے سپلائی لائن
کھولی گئی تو قوم کا سر جس طرح شرم سے جھک جائے گا اور امریکہ اور نیٹو کی
تعریف کے بدلے میں بین الاقوامی طور پر جوسُبکی ہوگی اُس داغ کا مٹانا بہت
مشکل ہو جائے گا اورخود کو خود دار قوم کہنے والی یہ قوم اپنی خود داری کا
بین ہی کر سکے گی۔ اگر حکومت نے عوامی دبائو میں ہی آکر ایک غیرت مندانہ
اور عزت مندانہ فیصلہ کرلیا ہے تو اُس پر قائم رہے کیونکہ اِس قوم کی زندگی
اتنی بھی ارزاں نہیں کہ امریکیوں کی حفاظت کے لیے مسلسل قربان ہوتی رہے۔
قوم کا اب بھی خیال ہے کہ کاش ہم اس جنگ میں نہ کو دے ہوتے تو آج ہماری
جانیں محفوظ ہوتیں اور امریکیوں کی طرح ہم بھی زندگی کے مزے لوٹتے۔ میں یہ
نہیں کہتی کہ امریکہ سے تعلقات ختم کئے جائیں لیکن ہر پاکستانی کی طرح یہ
مطالبہ ضرور ہے کہ انہیں برابری کی بنیا د پر قائم کیاجائے اور یہ کہنا کہ
وہ ایک بڑا ملک ہے اور ہم چھوٹا ملک اس لیے ایسا ممکن نہیں یہ بھی درست
نہیں کیونکہ آزاد ممالک اپنی آزادی، خودمختاری اور وقار کی خاطر ایک جیسے
اور برابری کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں اس کے لیے صرف حکمرانوں کی جر ات کی
ضرورت ہوتی ہے قوم خود بخود اُن کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ اگر ہمارے حکمران بھی
اپنے اخراجات میں کمی کریں جن کا میں پہلے ہی ذکر کر چکی ہوں، اگر بیرونی
دوروں پر اور وہاں شاہانہ قیام و طعام پر سمجھوتہ کرلیں ،لاکھوں کے لباس
اور بیگ استعمال نہ کریں ، کروڑوں روپے گاڑیوں پر خرچ کرنے کی بجائے روزگار
کے ذرائع پیدا کرنے پر استعمال کریں، پچاس ہزار کی کرسیوں کے جلسوں پر
اٹھنے والے اخراجات ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کریں تو اِن پچاس ہزار لوگوں کا
بھلا ہوتا جائے ۔ اپنے اکاونٹ اپنے اور اپنے بچوں ہی کے نام سے اپنے ملک
میں منتقل کریں تو پاکستان کا خزانہ اور بینک یوں خالی نہ ہو ں وہیں
فیکٹریاں اور تجارتی فرم جو وہ وہاں بناتے ہیں یہاں لے آئیں تو زرمبادلہ
کمانے کا باعث بنے گا اور غریب عوام کو روزگار فراہم ہوگا تو قوم اِن کو
محسن مانے گی پھر نہ تو امریکی امداد کی ضرورت رہے گی نہ اس کی بندش کی فکر۔
قومیں وہیں زندہ رہتی ہیں جو اپنی خود داری کی حفاظت کرتی ہیں اور سہاروں
پر جانے کی بجائے اپنے قوت بازو پر بھروسہ کرتی ہیں۔ پاکستان کے ذمہ دار
پاکستانی ہیں کوئی اور یا امریکہ نہیں اور پاکستانی صرف پاکستان کے ذمہ دار
ہیں امریکہ یا کسی اور کے نہیں۔ |