زیادہ پرانی بات نہیں کہ پڑوسی
ملک کی برسرِ اقتدار جماعت کانگرس کی خاتون سربراہ نے پاک بھارت جنگ کے
امکان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہمیں پاکستان سے جنگ کی کوئی ضرورت
نہیں کیونکہ ہم نے کیبل کے ذریعے بھارتی ثقافت پاکستان کے گھر گھر میں
پہنچادی ہے۔“ یہ بیان دیتے وقت موصوفہ کا انداز ایسے فاتح کا سا تھا جو
اپنے حریف کو پچھاڑنے کے بعد تماشائیوں کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھ رہا
ہو۔
پروفیسر غلام احمد مرحوم کا تعلق ضلع جہلم کے ایک ہندو گھرانے سے تھا۔ اللہ
رب العزت نے جب انہیں ایمان کی دولت سے نوازا تو انہوں نے اپنے آپ کو قرآن
و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ ان کے قبولِ ایمان کی
داستان ”من الظلمات الی النور“ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد
ان کا خاندان بھارت منتقل ہوگیا مگر خود انہوں نے دارالکفر پر دارالایمان
کو ترجیح دی۔ پروفیسر صاحب (مرحوم) کے بھائی اپنے بھتیجوں وغیرہ سے ملنے
پاکستان آئے۔ واپس روانہ ہوتے وقت کہنے لگے کہ ہم لوگ بلاوجہ پاکستان کو
دشمن سمجھتے ہیں اور ڈرتے ہیں۔ میں یہاں کے لوگوں سے ملا، ان کا رہن سہن
دیکھا، شادی بیاہ کی تقریبات کا جائزہ لیا، غم کے مواقع کا مشاہدہ کیا تو
معلوم ہوا کہ ہمارا خوف بالکل بے جا اور بے بنیاد ہے۔ یہاں کی تو ہر شے پر
بھارتی تہذیب کی گہری چھاپ لگی ہوئی ہے۔
ان دنوں ایک معروف ٹیلی ویژن چینل دوستی کے نام پر بھارتی ثقافت کو ترویج
دے رہا ہے۔ گذشتہ ماہ موسیقی کے مقابلے کے نام پر ایک طوفان بدتمیزی برپا
کیا گیا۔ نئی نسل کے نمائندوں کو جو آنے والے وقتوں میں ملک و ملت کے معمار
کی حیثیت رکھتے ہیں، نوع بنوع ترغیبات کے ذریعے شکار کیا گیا۔ اس مہم کے
سرکردہ افراد سے اتنا پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ثقافت اور کلچر کے نام
پر یہ سب جو ہنگامہ برپا کیا جارہا ہے کیا یہی ہماری تہذیب ہے؟ زیادہ دور
جانے کی ضرورت نہیں، دو چار دہائیاں پہلے کے حالات کا جائزہ لیجئے، جن
گھروں سے صبح و شام قرآن کریم کی تلاوت کی آوازیں آیا کرتی تھیں وہاں سے آج
گانے بجانے کا بے ہنگم شور سنائی دیتا ہے۔
معاملہ صرف موسیقی کا نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے تحت
مختلف عنوانات کے ذریعے بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے، دلنشین تعبیرات کے
جال میں نوجوان نسل کو پھانسا جارہا ہے۔ کرکٹ کو ہی دیکھ لیجئے جو کھیل سے
آگے بڑھ کر جنگ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ گذشتہ سال عالمی کپ کے صرف ایک
میچ کے موقع پر ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ کرکٹ کے نشے میں مدہوش قوم
کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی ایک امتی آٹھ برس سے عالمی
امن کے نام نہاد داعی امریکہ بہادر کے قید خانوں میں کسی ابن قاسم کی راہ
تک رہی ہے۔ ذرا سوچیے! کل قیامت کے دن جب نبی کریم ﷺ کی یہ بے گناہ امتی
عافیہ صدیقی ہمارے گریبان پکڑ کر استغاثہ دائر کرے گی تو ہم کیا جواب دیں
گے؟
یہ ارض پاک اسلام کے نام پر حاصل کی گئی۔ ہمارے بڑوں نے دو قومی نظریہ کی
بنیاد پر قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر کے اس وطن کی بنیاد رکھی تھی۔
چونسٹھ (64) برس ہونے کو ہیں مگر ہم ہنوز منزل سے دور ہیں۔ جس تہذیب سے
آئندہ نسلوں کو محفوظ کرنے کیلئے علیحدہ وطن حاصل کیا گیا تھا ہم نے اسے ہی
اپنا لیا۔ اپنی درخشاں روایات کو بھول کر غیروں کی بے ہودہ ثقافت کو سینے
سے لگا لیا۔ ہم ایسی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں جس سے خلاصی بہت دشوار ہے۔
ہم ایسی راہوں کا انتخاب کر رہے ہیں جن پر چلنے والوں کو سوائے آبلہ پائی
کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
اس بھیانک کھیل کے لئے میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کو ذریعہ بنایا جا
رہا ہے۔ وہ اسٹوڈیو جن میں چند دن پہلے ربیع الاول سرور دوعالم ﷺ کے ذکر کی
محافل سجائی گئی تھیں، عشق و محبت کے بلند و بالا دعوے کیے جارہے تھے، جس
جگہ آقائے نامدار کے حضور عقیدت کے پھول پیش کےے جارہے تھے، آج عین اسی
اسٹوڈیو میں رقص و سرور اور گانے بجانے کی محفلیں برپا کی جارہی ہیں۔ ٹیلی
ویژن چینلوں کے ذمہ داران سے ایک سلگتا سوال ہے کہ کیا ہوا قہ آپ کا نبی
اکرم ﷺ سے عشق؟ عشق و وفا کے دعوے اتنی جلدی بھول گئے؟ یا وہ سب بھی محض
تفریحی اور موسمی سرگرمی تھی؟ عشق تو ایسا نہیں ہوتا۔ عشق تو وہ جادو ہے جو
سر چڑھ کر بولتا ہے:
دل میں اگر حضور ہو، سرخم ترا ضرور ہو
جس کا نہ کچھ ظہور ہو، وہ عشق عشق ہی نہیں |