بیرے اور بہرے

گو کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں لیکن وہ لوگ جو رات ایک بجے کے بعد اسلام آباد سے راولپنڈی جاتے ہیں بالخصوص مری روڈ سے وہ جانتے ہوں گے کہ اس وقت بھی کئی لوگ سڑک کے کنارے یا تو چل رہے ہوتے ہیں یا کھڑے کسی نہ کسی سواری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، رات کے اس پہر پبلک ٹرانسپورٹ تو ناپید ہو چکی ہوتی ہے البتہ کوئی خدا ترسی کر کے انہیں بٹھا لے یا ٹیکسی والوں سے مکا مکاہو جائے تو یہ اپنی منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔ ہمارا گھر کو واپسی کا وقت بھی چونکہ یہی ہے اس لئے اکثر اوقات مختلف لوگوں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے ان میں زیادہ تعداد ہوٹلوں میں کام کرنے والے بیروں(ویٹرز)کی ہوتی ہے ۔یہ بیرے بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی تنگ دستی کا شکارہوتے ہیں یہ بڑی بڑی محفلوں اور تقریبات میں خدمات انجام دیتے ہیں اوران محفلوں میں آنے والوں کی آن بان دیکھ کر بری طرح احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ ارشاد ایک تعلیمی ادارے میں درجہ چہارم کا ملازم ہے وہ گھر کے خرچ اخراجات چلانے کے لیے شام کو ہوٹلوں اور کیٹرنگ کا کام کرنے والوں کے ساتھ کام کرتا ہے جہاں سے اسے کھانا بھی مل جاتا ہے اور کچھ پیسے بھی ۔ ارشاد سے ہماری ملاقات چند دن پہلے رات پونے دو بجے کی قریب ہوئی جب وہ اسلام آباد سے پنڈی جانے کے لئے سڑک کنارے کسی سواری کے انتظار میں تھا۔وہ ایک شادی کی تقریب سے لوٹ رہا تھا ہمارے پوچھنے پر وہ پھٹ پڑا۔ حد ہو گئی دس قسم کے جوسز تھے پانچ لاکھ صرف کنوپی کا کرایہ ، کئی اقسام کے کھانے اور نہ جانے کیا کچھ، اور ایک ہم ہیں کہ ان کا بچا کھچا کھاتے ہیں۔ارشاد کا غصہ اپنی جگہ لیکن ہمیں حیرت اس وقت ہوئی جب اس نے بتایا کہ وہ یہاں اکیلا رہتا ہے اور تھیلے میں موجود کھانا وہ پہلے ایک غریب آدمی کے گھر شمس آباد پہنچائے گا اور پھر اپنی رہائش ڈھوک کالا خان جائے گا۔ مجھے اس کے اس جذبہ ایثار نے بہت متاثر کیا، بظاہر تو یہ ایک عام سی بات ہے لیکن رات کے اس پہر نرم بستر پر آرام کرنے والے شاید اس بات کا احساس نہ کر پائیں کہ ایک ایسا شخص جو صبح آٹھ بجے اپنی ڈیوٹی پر پہنچتا ہے اور پھر اٹھارہ گھنٹے کی مسلسل جسمانی مشقت کے بعد جب گھر لوٹتا ہے تو اس کا بدن تھکن سے چور تو ہوتا ہی ہے اس کا دماغ بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہا ہوتا لیکن اگر ایسی حالت میں بھی کوئی شخص کسی غریب آدمی کے بچوں کے کھانے کے لئے پریشان ہے اور اپنی نیند قربان کر کے وہ غریب کے بچوں کو اس لئے کھانا بہنچاتا ہے کہ پتہ نہیں انہوں نے کچھ کھایا ہو گا کہ نہیں۔ آج کے اس خودغرضی کے دور میں ارشاد کا کردار میرے لئے غیر متوقع تھا۔ارشاد جس کے پاس اپنی سواری تک نہیں وہ دوسروں کے دکھ درد اور ان کی مشکلات کے لئے کس قدر کوشاں تھا، ارشاد جانے اور اس کا خدا۔ میں نے ارشاد کو ڈراپ کیا اور خیالات کی دنیا میں واپس اسلام آباد آ گیا ۔ میرے سامنے عوام کی خدمت کے لئے تنخواہیں پانے اور دیگر مراعا ت حاصل کرنے والوں کی ایک فوج کھڑی ہے لیکن عوام کے مسائل ہیں کہ ان میں دن بدن اضافہ ہی اضافہ دیکھنے میں آ رہاہے۔کیوں؟

یہ بیرے اندھے اور گونگے ہیں یہ کیا کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں لیکن خاموش رہتے ہیں، پچھلے کچھ عرصے سے میرے ساتھ سفر کرنے والے ان بیروں کے سینوں میں کیا کچھ چھپا ہے مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا۔یہ بیرے ہمارے اشرافیہ کے ایسے ایسے رازوں کے امین ہیں کہ ہم لوگ اپنے سارے وسائل استعمال کر کے بھی ایسی حقیقتیں آشکار نہیں کر پاتے۔ یہ ہمارے عوامی نمائندوں کی رنگین راتوں کے رازونیاز کے امین بھی ہوتے ہیں اور عوام کے پیسے سے تنخواہیں وصول کرنے والے اعلیٰ افسران کے لچھنوں سے بھی آگاہ، لیکن بے بس ۔ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مخلص اور جب پورا ملک نیند کے مزے لے رہا ہوتا ہے تو یہ امراءکے بگڑی ہوئی اولادوں کے ناز نخرے اٹھا رہے ہوتے ہیں اور بدلے میں چند روپے ٹپ ، بس۔

دوسری طرف وہ بہرے ہیں جن کے فرائض تو بہت ہیں لیکن وہ ان فرائض کی ادائیگی میں دلچسپی نہیں رکھتے ، جن کا مقصد ملک و قوم کی خدمت نہیں بلکہ مال بٹورنا ہوتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ اپنے لیے مال بٹورنے والوں کو وسائل عوام کے خون پسینے کی کمائی سے مہیا کیے جاتے ہیں وہ بڑی بڑی تنخواہیں بھی پاتے ہیں، گھر ، گاڑیاں، ایندھن سمیت فون اور گھریلو اخراجات تک سب کچھ عوام کے پیسے سے حاصل کرنے والے یہ لوگ چاہے وہ عوامی نمائندگان ہوں یا بیوروکریسی یہ بہرے اور اندھے ہوتے ہیں، عوام کی تکالیف اور مشکلات کو نہ دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں ایسے میں ان سے کسی مسئلے کے حل کی امید رکھنا دیوانے کے خواب کے مترادف ہے۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر راتوں کے پچھلے پہر بھاگتی اور چنگھاڑتی گاڑیاں عوامی مسائل کے حل کے لیے نہیں بلکہ اشرافیہ اور ان کی آل اولاد کی عیاشیوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

ملک کے اندر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ بدامنی کو جنم دے رہا ہے دہشت گردی نے بھی ملک کا امن تہہ وبالا کر رکھا ہے ایسے میں دھوکہ دہی، لوٹ کھسوٹ اور بددیانتی غریب کی مجبوری بنتی جا رہی ہے غریب آدمی بھی ایک مخصوص اوقات کار میں کام کے بعد آرام چاہتا ہے لیکن مہنگائی کے باعث وہ اپنے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے میں ناکام ہوتا جا رہا ہے ایسے میں کم وقت میں زیادہ کمانے کی خاطر جھوٹ، فریب ، ناپ تول میں کمی اور نہ جانے کیا کیا معمولات بنتے جا رہے ہیں ۔ عالمی سطح پر ہمارا امیج پہلے ہی بہت خراب ہے روز بروز بڑھتے خبائث کے بعد ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ہماری منزل ہے کیا ؟ اور ہم عوام اور ہماری اشرافیہ اس حدف کے حصول کی خاطر کس قدر مخلص ہیں ؟

قوم اس وقت دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ایک طرف بیرے ہیں جو دن رات انتھک محنت کر کے بھی بمشکل گھر والوں کا پیٹ پال پاتے ہیں اور دوسری طرف وہ بہرے ہیں جن کے پاس تمام وسائل ہوتے ہوئے بھی وہ قوم کے پسے ہوئے طبقات کی سسکیاں اور آہیں نہیں سنتے، ایسے میں جنت نظیر وطن جہنم بنتا جا رہا ہے، ہم اپنی آنے والوں نسلوں کے لئے کیا مثال چھوڑ کر جائیں گے ؟اب ہمیں بیروں اور بہروں سے جان چھڑانی ہو گی اور نئی شروعات کرنی ہوں گی، علم کی، عمل کی، نیکی کی، امن کی، محبت اور بھائی چارے کی-
Azhar Hassan
About the Author: Azhar Hassan Read More Articles by Azhar Hassan: 16 Articles with 14164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.