پشتو زبان کا ایک مقو لہ ہے کہ
”نو کری دہ پلار ھم خا نہ وی،، یعنی ملازمت باپ کی بھی اچھی نہیں
ہوتی۔ملازمت آ خر ملازمت ہی تو ہو تی ہے۔کچھ اچھا ئیاں اور کچھ
برائیاں،کبھی نرمی کبھی گرمی ملازمت کا خاصہ ہوا کرتی ہے۔ لیکن ایک بے
روزگار شخص سے ملازمت کی قدر پو چھئے تو وہ ملازمت کے حصول کو زند گی کا
واحد مقصد اور بہت بڑی تمنا قرار دے گا۔لیکن ملازمت کرنے والوں سے پو چھئے
تو وہ ملازمت کی ہزاروں برائیاں ایک ہی سانس میں سنا دے گا۔خصوصاً اگر وہ
کسی پرائیویٹ ادارے کا ملازم ہو۔کیونکہ ہمارے ہا ں عمو ما دوقسم کی
ملازمتیں پائی جاتی ہیں۔سرکاری ملازمت اور پرائیویٹ اداروں کی ملازمت۔جہاں
تک سرکاری ملازمت کا تعلق ہے اس میں تو مزے ہی مزے ہیں۔کام کرو یا نہ کرو ۔تنخواہ
اور الاؤئسنسز کھرے،ریٹا ئرمنٹ کے وقت ایک معقول پنشن اس کے علا وہ ،البتہ
اتنا ضرور ہے کہ سرکاری ملازمت کا حصول آجکل جو ئے شیر لانے کے مترادف
ہے۔پاکستان بننے کے بعد دو تین عشروں تک سرکاری ملازمت بغیر کسی سفارش کے
میرٹ پر مل جاتی تھی۔بعد ازیں سفارش کا سلسلہ شروع ہوا اور کسی ایم پی
اے،ایم این اے یا اثر و رسوخ والے شخص کی سفارش پر سرکاری ملازمت مل ہی
جاتی تھی مگر اب تو وہ سلسلہ بھی تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ اب تو سرکاری
ملازمت کے ہر پوسٹ کے دام مقرر کئے جاتے ہیں اور قا ئد اعظم کے تصویر وں کا
نذ را نہ پیش کئے بغیر نو کری ملنا محال ہے۔لہذا ان دگر گو ں حالات میں اگر
کسی کو سرکاری ملا زمت ملتی ہے یا پہلے سے سرکاری ملازمت کر رہے ہیں تو ان
کو اللہ تعا لٰی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چا ہئیے۔۔۔۔۔
اب آیئے دوسری قسم کی ملازمت یعنی پرائیویٹ اداروں کی ملازمت کی طرف،اگرچہ
پاکستان میں اس وقت لاکھو ں کی تعداد میں نو جوان ہا تھو ں میں ڈ گر یاں
لئے ہو ئے ملازمت کی تلا ش میں ما رے ما رے پھر رہے ہیں اور پرا ئیویٹ
اداروں میں ملازمت حا صل کرنا بھی آسان کام نہیںرہا۔
مگر اس صورت حال سے پرا ئیویٹ اداروں کے ما لکان خوب فا ئدہ اٹھا رہے
ہیں۔وہ اس طر ح کہ وہ اونے پونے دامو ں پڑھے لکھے لوگوں کی خدمات خرید لیتے
ہیں۔مگر جن بدقسمت(خوش قسمت تو وہ ہیں جو سرکار کی ملازمت کر رہے ہیں)لوگوں
کا وسیلہ روزگارنجی اداروں میں ملازمت ہے۔ان لوگوں کا حال نہا یت قابل رحم
ہے۔ان کو جو تنخواہ ملتی ہے وہ سرکاری ملا زمین کے مقابلے میں کئی گنا کم
ہوتی ہے۔کام ان سے تین گنا زیادہ لیا جاتا ہے۔ان کے عزت نفس کا کو ئی خیال
نہیں رکھا جاتا۔ان کو جاب سیکیو ریٹی حاصل نہیں ہوتی۔
وہ اپنا حق مانگنے کا حق بھی استعمال نہیں کر سکتے۔کسی ملازم کا کو ئی
تنقیدی جملہ اگر ادارے کے مالک کے کانو ں میں پہنچ جائے تو بہ یک قلم جنبش
اس کی ملازمت ختم کی جاتی ہے۔پرا ئیویٹ ملازمین کو اس وقت تک ملازمت پر بر
قرار رکھا جااہے جب تک وہ مالک کے لئے سود مند ہے۔ بیماری یا کسی نا گزیر
وجو ہات کی بناءپر وہ ایک دن بھی اگر اپنی خدمات پیش نہ کر سکے تو اس کی
تنخواہ کاٹ دی جاتی ہے۔
یہ پرا ئیویٹ ملازمین عمو ما نجی تعلیمی اداروں، دکا نوں،ہو ٹلوں،ورکشاپوں
یا چھوٹے چھو ٹے کا ر خا نوں میں کام کر تے ہیں۔
بڑے بڑ ے کارخانوں میں کام کرنے والے مز دوروں کے بھی اگر چہ ا یام بڑے تلخ
ہو تے ہیں مگر ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے ذوا لفقار علی بھٹو (مر حوم) نے
ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ جس کا نام ای او بی آئی ہے۔جو ابھی تک قائم ہے۔اس
ادارے کے قانون کے مطابق جو کوئی بھی شخص کم ازکم پا نچ سال ملازمت کسی ر
جسٹرڈ ادارے میں مکمل کر لے اور اس کی عمر ساٹھ سال کو پہنچ جائے تو وہ کم
از کم پنشن ،جو کہ آ جکل تین ہزار روپے ما ہوار ہے، کا حقدار بن جاتاہے۔جسے
عمو ما ضعیف ا لعمر ی یا بڑ ھا پا پنشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مگر ضعیف ا لعمر مزدوروں کے ساتھ ہو نے والی زیا دتی ملا حظہ کیجئے کہ
پچھلے سال تمام سر کاری ملازمین کے پنشن میں پندرہ تا بیس فی صد اضافہ کیا
گیا تھا مگر ان ضعیف ا لعمر مز دوروں کے پنشن میں کو ئی اضافہ نہیں کیا گیا
تھا۔اس وقت ای اہ بی آئی کے پاس ار بوں روپے پڑے ہو ئے ہیں جوضعیف ا لعمری
پنشن میں ا ضافہ کرنے کی بجا ئے نام نہا د عوامی نما ئیندوں کے جیبوں اور
بنکو ں میں جا رہے ہیں پرائیویٹ اداروں میں کام کر نے وا لے ملا زمین کا اس
وقت کوئی پو چھنے وا لا نہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں،حکو مت کو چا ہئیے
کہ وہ پرا یﺅیٹ اداروں کے ملا زمین کے لئے با قا عدہ ایک ریگو لیٹری
اتھارٹی قائم کرے جو ان کے مفا دات کا تحفظ یقینی بنا ئے۔اور ان کو ان کے
حقوق دلوائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ |