کتاب کو انسان کی بہترین دوست
کہا گیا ہے۔سیکھنے کا عمل تو انسان کی جبلت میں روز ازل ہی سے موجود ہے۔ایک
انسان دنیا میں آیا اس نے دنیا کو دیکھا ،سمجھا اور پھر اسے سیکھ لیا ۔ جب
اس کی زباں سے آشنائی ہوئی تو اس نے لکھنے کا عمل بھی سیکھ لیا۔ اس لکھنے
کے فن کو انسان نے مختلف چیزوں پر آزمایا۔کبھی لکڑی کے تختوں پر تو کبھی
درختوں کی چھال پر ،کبھی کپڑوں پر تو کبھی درختوں کے پتوں پر قلم چلائی گئی۔
یہ سب چیزیں کتاب کی ابتدائی شکل کے طور پر دنیا میں موجود تھیں۔ اور انسان
اسی وقت سے کتاب سے مستفید ہورہاہے۔ کاغذ ایجاد ہوا،چھاپےخانےبنے تو ایک
انقلاب آگیااور ہر طرف کتاب کا دور دورہ ہوگیا۔بہت بڑے عالموں اورفاضلوں کی
بھر کے تجربے اور علم کا نچوڑکتابی شکل میں محفوظ ہوگیا۔
اور پھر ان کتابوں سے ایک عالم نے فیض اٹھایا۔بہت بڑے بڑے ناموں والےادیب ،
شاعر ،نقاد، سائنسدان،تاریخ دان، معیشت دان، سیاستدان، مذہبی رہنمائوں سمیت
سب کے سب کتاب سے فائدہ اٹھا نے والے لوگ تھے۔ان تمام لوگوں نے اپنے اپنے
شعبے میں درکار مہارتیں کتابوںسے سیکھیں جو ان سے پہلے لوگ لکھ گئے تھے۔اور
پھر دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔کتاب اس دن سے آج کے دن تک ہمارے ساتھ چلی
آرہی ہے۔مگراب کتاب کی شکل اور اہمیت تھوڑی بدل چکی ہے۔
یہ دور عظیم سائنسی ایجادات کا دور ہے۔ہر شعبے اور ہر ادارے اور محکمے میں
تمام مسائل حل کرنے کیلئے طرح طرح کی مشینیں موجودہیں۔نوجوان نسل کیلئے بھی
اسی طرح کی بے شمار مشینیں ایجاد کی گئیںجو یقینا فائدہ مند ہیںمگر دیکھا
جارہا ہےکہ آج کا نوجوان ان مشینوں کے ساتھ یوں گھل مل گیا ہے کہ وہ کتاب
سے دور ہو چکا ہے۔یو ںتو لازما سکولوں،کالجوں میں کتابوں ہی سے پڑھایا
جاتاہےلیکن نصابی کتابوں کے علاوہ دیگر معلوماتی کتابیں جیسا کہ ُُمعلومات
عامہ“ ُُبیت بازی“ مشہور شعرائ کے کلام اور افسانے ناول وغیرہ آج کا نوجوان
ان کتابوں سے کافی دور نکل گیا ہے۔
اس کا شدید احساس تب ہوتا ہے جب آپ مارکیٹوں میں موجود کتابوں کی حالت زار
دیکھتے ہیں۔عظیم اردو شاعر مرزا غالب کا پورے کا پورا دیوان “دیوان غالب“
آپکو کسی سڑک پر کسی فٹ پاتھ پر ٢٠،٣٠روپے کا مل جاتا ہے تو پھر کتا ب کی
اہمیت کہاں باقی رہ گئی ہے۔
یہاں کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ علم تو علم ہوتا ہے چاہے وہ کتاب سے حاصل کیا
جائے یا کہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے۔تو گزارش ہےکہ انٹر نیٹ ایک وسیع دنیا
ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے انسان کا ذہن بکھرا ہوتا ہے اور وہ یکسوئی کے
ساتھ کسی چیز کا مطالعہ کم ہی کر پاتا ہے۔ اور اس میں آپکو تضاد بھی دکھائی
دیتا ہے آج آپ کسی چیز کے بارے میں جو دیکھتے یا پڑھتے ہیں کل اس کے مخالف
بھی ہو سکتا ہےتو انسان کیلئے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا صحیح ہے
اور کیا غلط۔ ایک اچھے اور بااعتماد مصنف کی کتاب کبھی بھی آپ کے ذہن کے
ساتھ نہیں کھیلے گی۔۔۔ |