سعودی عرب کے مقدس شہروں مکہ
مکرمہ کی مسجد الحرام اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی کو حرمین شریفین کہا
جاتا ہے۔ مسجد الحرام کے درمیان بیت اللہ واقع ہے جس کی طرف رُخ کرکے دنیا
بھر کے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔ خانہ کعبہ دنیا کی سب سے بڑی عبادت گاہ
ہے جہاں حج کی سعادت کے لیئے ساری دنیا سے بیک وقت سب سے زیادہ انسان جمع
ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا جبکہ مدینہ
منورہ میں قائم مسجد نبوی اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ان مقدس عبادت
گاہوں کے خلاف سازشیں صدیوں پہلے بھی ہو رہی تھیں آج بھی ہو رہی ہیں۔ اُس
وقت بھی یہود و نصاریٰ حرمین شریفین کو منہدم کرنے کے درپے تھے آج بھی ایسے
ہی ناپاک ارادے ظاہر کر رہے ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ ابرہہ نامی ایک
عیسائی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے تقریباً دو ماہ
پہلے خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لیئے حملہ آور ہوا تھا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ
نے اُسکے مقابلے کے لیئے ابابلیوں (پرندوں) کی فوج بھیج دی جنہوں نے ابرہہ
اور اُسکے لشکر پر سنگ باری کرکے اُسے رہتی دنیا کے لیئے نشان عبرت بنا دیا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ ابرہہ نے یمن کے دارالسلطنت صنعاءمیں ایک بہت شاندار
اور عالی شان گرجا گھر بنا رکھا تھا اور چاہتا تھا کہ عرب کے لوگ خانہ کعبہ
کی بجائے اُسکے گرجا گھر کو اپنی عبادت کا مرکز بنائیں۔ جب یہ ممکن نہ ہو
سکا تو اس نے نعوذ باللہ خانہ کعبہ کو تباہ کرنے کی ٹھان لی اور ہاتھیوں کی
فوج لے کر آیا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ہول در ہول بھیج دیئے
جنہوں نے ایسی کنکریاں برسائیں کہ ابرہہ اپنے لشکر سمیت نیست و نابود ہو
گیا۔یہاں تک کہ ابرہہ سمیت اس کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہ بچ سکا اور
ہاتھیوں سمیت اِن کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا ناپاک ارادہ صرف
مذہبی جنون میں ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کی پشت پر کھڑی اس وقت کی عیسائی
دنیا کو بحر احمر کی بحری گزرگاہ پر مکمل تسلط درکار تھا کیوں کہ اس زمانے
میں جس قوت کے ہاتھ میں بحری گزرگاہیں ہوتی تھیں وہی عالمی اقتصادیات کی
حکمرانی کرتی تھی۔ اسلام سے قبل چوں کہ خانہ کعبہ عربوں کا ثقافتی اور
مذہبی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اقتصادی چیمبر آف کامرس بھی تھا اس
لیئے منہدم کرنے کے لیئے بڑے جواز کے طور پر ابرہہ نے پہلے یمن میں قائم
گرجا گھر کو خود ہی تباہ کیا اور پھر اسکا الزام عربوں پر لگا کر اسلام سے
پہلے بیت اللہ کو مٹانے کا ناپاک ارادہ ظاہر کیا لیکن وہ بیت اللہ کو تباہ
کر سکا اور نہ ہی اسلام کو مٹا سکا ۔ دنیا کے پرامن ترین مذہب اسلام اور
مسلمانوں کی عبادت گاہ خانہ کعبہ کو مٹانے کے لیئے یہود و نصاریٰ آج ایک
بار پھر ابرہہ کی تاریخ دھرانے کے لیئے سرگرداں ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کو
مذہبی رواداری کا سبق سکھانے والا ملک امریکا اپنے فوجیوں کو باقاعدہ تربیت
دیتا ہے کہ اُسکے اصل دشمن دہشت گرد نہیں بلکہ اسلام ہے جس سے حتمی جنگ کے
لیئے انہیں ہر وقت تیار ہونا ہوگا اور اس مقصد کے حصول کے لیئے وہ مکہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ پر ایٹمی حملے کرنے سمیت خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کو
منہدم کرنے کا ناپاک ارادہ بھی ظاہر کر چکا ہے۔
اس خفیہ کورس کا انکشاف گزشتہ ماہ ہی ہو گیا تھا مگر اسکی تفصیلات باہر نہ
آ سکیں لیکن صرف ایک ماہ بعد ہی اسکا ڈراپ سین بھی ہو گیا اور اس سارے
معاملے کا انکشاف کرنے والی ایک امریکی ویب سائٹ کے مطابق اس تربیتی کورس
میں شرکت کرنے والے فوجی افسران اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے ہیں جنہیں
باقاعدگی سے یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ عنقریب مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن
جنگ ہو سکتی ہے اور اس جنگ میں (نعوذ باللہ) دُنیا کے پرامن ترین شہروں مکہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ پر ایٹمی حملوں سمیت مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہوں
خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کو بھی نیست و نابود کر دیا جائیگا۔ پوری دنیا کے
تمام مسلمانوں کو غیر مہذب اور انسانیت کا دشمن قرار دینے اور اسلام کے
مقدس ترین مقامات کو تباہ کرنے کے لیئے ورغلانے کے شرانگیز نصاف کے منظرعام
پر آنے کے بعد گویا امریکی وزارتِ دفاع حیران و ششدر دکھائی دی لیکن حقیقت
یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں بلکہ ماضی میں بھی اسکے ادارے اور تنظیمیں
اسلام جیسے پُرامن مذہب کے خلاف اس قسم کے پروپیگنڈہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس
سے پہلے ایف بی آئی کے کارکنان کی تربیت کے لیئے جو کورس پڑھایا جاتا تھا
اس میں بھی اسلام کے تئیں نفرت کے جذبات تھے اوراس کورس کے دوران بتایا گیا
تھا کہ مسلمان جو زکوٰة دیتے ہیں وہ دراصل جنگ لڑنے والوں کو فنڈ مہیا کرنے
کا ایک طریقہ ہے جبکہ بعد میں اس کورس کو تبدیل کر دیا گیا۔
امریکی فوجی درسگاہوں کے اسلام مخالف تربیتی نصاب کے منظرعام پر آنے سے
پوری دنیا حیران ہے جبکہ اس کورس کے منظر عام پر آنے کے بعد اس سلسلے میں
عالمی سطح پر ہنگامہ مچنے کے امکانات کے پیش نظر امریکا نے کورس پر فوری
طور پر روک لگا دی ہے لیکن اس کورس میں جو کچھ بھی پڑھایا جاتا رہا وہ
گزشتہ ایک دہائی سے امریکی حکام کے ذریعہ دنیا کو دی جانے والی یقین
دہانیوں کے قطعی خلاف ہے۔ امریکا اب تک یہ دعویٰ کرتا آ رہا ہے کہ اسکی جنگ
اسلام کیخلاف نہیں بلکہ صرف انتہاپسندوں سے ہے لیکن اسکا مکروہ چہرہ ایک
بار پھر بے نقاب ہو گیا ہے۔ امریکی عزائم پر نظر ڈالیں تو اسکے ظلم و ستم
کا محور ہمیشہ مسلمان ہی رہے ہیں اور اس نے مسلم ممالک کو ہی تخت و تاراج
کرنے کی بات کی ہے۔ یہاں تک کہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے نعوذ باللہ خانہ
کعبہ پر حملے کرنے کی بات کہہ ڈالی تھی۔ اسکے علاوہ ری پبلکن اُمیدوار ٹام
ٹین کریڈو بھی اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکا پر ایٹمی حملے کی صورت میں
مکہ اور مدینہ پر جوابی حملوں کی دھمکی دے چکے ہیں جبکہ بارک اوباما بھی اس
رائے کا اظہار کر چکے ہیں کہ اب اگر امریکا پر نائن الیون جیسا حملہ ہوتا
ہے تو اسے خانہ کعبہ پر بمباری کر دینی چاہئے۔ گو اس وقت اوباما صدر نہ تھا
لیکن صدارتی انتخاب کے لیئے پَر تول رہا تھا اور یہ دھمکی اس کی انتخابی
مہم کا حربہ تھی جس کے ذریعے وہ امریکا کے صلیبی صیہونی ٹولے کی حمایت حاصل
کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
قرآن اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے واضح کہتا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے
دوست نہیں ہو سکتے بلکہ کھلے دشمن ہیں۔ اسلام چونکہ اس وقت دنیا میں تیزی
سے پھیلتا ہوا مذہب بن چکا ہے اس لیئے یہود و نصاری اسے مٹانے کی ناپاک
سازشوں میں مصروف ہیں۔ دُنیا کے مقدس ترین شہروں مکہ اور مدینہ پر حملوں
اور خانہ کعبہ کو مٹانے کی سازش ابرہہ بھی کر چکا ہے اور آج بھی ہو رہی ہیں
۔ اسرائیل اس منصوبے پر عمل پیرا ہے کہ کسی طرح بحرِ احمر اُسکے ہاتھوں آ
کر بحرِ یہودی یا بحرِ اسرائیل کہلائے چونکہ بحرِ احمر کے مشرقی کنارے پر
اسلام کے دونوں مراکز مکہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں اس لیئے یہود و نصاریٰ
ایک بار پھر ابرہہ کی تاریخ دھرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہودی لابی ایک منظم
سازش کے تحت حرمین شریفین کے گرد اپنے اڈے قائم کر چکی ہے اور اپنے ناپاک
عزائم کی تکمیل کے لیئے مزید کوشاں ہے۔ امریکا نے روئے ارض پر جہاں بھی
فساد فسق و فجور برپا کیا وہ اسرائیلی مفادات سے ہی منسلک ہے۔ امریکا کی
تین لاکھ فوج عرب عراق جنگ سے سعودی عرب میں تعینات ہے۔ یہ فوج صاف ظاہر ہے
استحصال کے لیئے سعودی عرب میں ہے جب اسرائیل حملہ کرے گا یا کوئی منصوبہ
بنائے گا تو یہ امریکی کرائے کی فوج اس حملہ آور قوت کیخلاف سعودی عرب کی
کوئی مدد نہیں کرے گی بلکہ یہ فوج تو حرمین شریفین پر حملہ آور دجالی قوت
کے طور پر موجود ہے کہ حالات خراب ہوں تو اس علاقے پر قبضہ کر لیا جائے۔
ابرہہ نے جب خانہ کعبہ کو ڈھانے کا ناپاک ارادہ ظاہر کیا تو اس وقت حضور
نبی کریم کے دادا عبدالمطلب نے جواب دیا کہ اسکی حفاظت خدا کریگا۔ آج بھی
ہمارا یہی ایمان ہے کہ خانہ کعبہ کی حفاظت خدا ہی کرے گالیکن یہاں ہمارا
ایمان بھی پرکھا جا رہا ہے۔ ہمارے مقاماتِ مقدسہ پر حملہ کرنا آسان نہیں ہے
بس یہود و نصاریٰ صرف ہمارے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ اس لیئے ضرورت اس امر کی
ہے کہ حالات سے سبق سیکھ کر مستقبل کی پیش بندی کی جائے۔ |