یہ دِن تو، ظاہر ہے، دیکھنا ہی تھا

انٹیلی جنس کمیونٹی کا سامنا کرنا تو بہت دور کی بات ہے، دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی انٹیلی کمیونٹیز مل کر بھی پاکستان کی ایک سوشل کمیونٹی کی نیٹ ورکنگ کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اِس کمیونٹی کا کمال یہ ہے کہ آبادی میں اضافے کی اطلاع اِسے ایسی تیزی سے ملتی ہے کہ متعلقہ گھر والے بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ اور ابھی وہ سنبھلے بھی نہیں ہوتے کہ ڈھول کی تھاپ سُنائی دینے لگتی ہے!

ہم لیاری کے اُن زندہ دِل انسانوں کی بات نہیں کر رہے جو چھوٹی گدھا گاڑیوں میں سوار ہوکر ڈھول اور ڈبّے کی تھاپ پر شہر کی سڑکیں ٹاپتے پھرتے ہیں۔ ہمارا اِشارہ اُس کمیونٹی کی طرف ہے جس کے وابستگان ڈھول بجا بجاکر شہریوں کا بینڈ بجاتے ہیں یعنی ٹھمکتے ہوئے، ٹھنکتے ہوئے آتے ہیں اور کچھ نہ کچھ لے کر ٹلتے ہیں! اگر آپ دوستوں میں یا اہل خانہ کے ساتھ کہیں بیٹھے ہوں اور کوئی خواجہ سرا آ دھمکے تو فوراً پانچ دس روپے دیکر ٹالتے اور جان چھڑاتے ہیں! ایسے موقع پر اور کوئی حربہ سُوجھتا ہی نہیں۔ جب کوئی خواجہ سرا تالی پیٹتا ہے تو صرف مچھر زد میں نہیں آتے بلکہ ہماری جیب بھی پچک جاتی ہے!

زمانے کا انقلاب دیکھیے کہ تالی پیٹنے والوں نے اب اپنی روش بدلی ہے اور ایسی بدلی ہے کہ بے اختیار (اپنا) سَر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ اب تک ہم جن کے ناز و انداز دیکھتے آئے ہیں وہ وقت کے پہیے کو اُلٹا گھمانے پر تُل گئے ہیں۔ کل تک تو یہ ہوتا تھا کہ کہیں کوئی خواجہ سرا دکھائی دیتا تھا تو ساتھ ہی غمزہ و عشوہ و ادا بھی جلوہ فرما ہوتے تھے۔ اگر کسی بس میں کوئی خواجہ سرا چڑھ جاتا تو لوگ ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ اور وہ جس کسی کے پاس بیٹھتا وہ کھنچا کھنچا رہتا۔ گزشتہ دنوں خواجہ سرا کمیونٹی نے یہ شکایت کچھ اِس انداز سے دور کی کہ لوگ جگر تھام کر رہ گئے۔ کراچی میں منگھوپیر روڈ پر حبیب بینک (سائٹ) کے نزدیک ایک بس میں چار خواجہ سرا سوار ہوئے اور اسلحے کے زور پر مسافروں کو لوٹ لیا!

جس نے بھی خبر سُنی اُسے یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ یقین اِس لیے نہیں آیا کہ جن کی آمدنی پہلے ہی قابل رشک ہے اُنہیں کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ لوٹ مار کرکے خود کو قابل شک بناتے؟ خواجہ سراؤں کو ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اُن کا تو پورا وجود چلتا پھرتا ہتھیار ہے! وہ تو محض تالی بجاکر قدر دانوں کا مال ہی نہیں، دِل بھی لوٹ لیتے ہیں!

اگر کوئی پیار سے پھل یا کھانے پینے کی کوئی اور چیز دے تو بچوں کو اچھا لگتا ہے مگر جناب! اسکول کے باہر ٹھیلوں سے پھل اور دوسری چیزیں چراکر کھانے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ یہی حال اب ہمارے پورے معاشرے کا ہوگیا ہے۔ اگر کوئی چیز آسانی سے مِل رہی ہو تو لطف نہیں دیتی۔ کسی بھی چیز میں تھوڑا بہت مزا پیدا کرنے کے لیے لوٹ مار کے ذریعے حصول کو ترجیح دی جاتی ہے! معاشرے کا یہ رنگ خواجہ سراؤں کے دل و دماغ پر بھی چڑھ گیا ہے۔ لوگوں کا پیار سے جیب ڈھیلی کرنا شاید اب اُنہیں اچھا نہیں لگ رہا!

مرزا تنقید بیگ نے یہ خبر سُنی تو اُن کے منہ سے بے ساختہ سرد آہ نکل گئی۔ ہم نے سبب پوچھا تو فرمایا۔ ”آج معلوم ہوا کہ احساس کمتری کیا ہوتا ہے۔ جن پر یکسر ناکارہ و بے فیض ہونے کا گمان کیا جاتا ہے وہ اب اٹکھیلیوں اور انگڑائیوں کی سطح سے بلند ہوکر لوٹ مار کے ذریعے دوسروں کی جیب خالی کرانے سے بھی گریز نہیں کر رہے اور ایک ہم ہیں کہ آج تک ہر مہینے کی دس تاریخ کو پوری تنخواہ کو بیگم کے ہاتھ میں جانے سے نہیں روک سکے!“

ہم کہا آپ اپنا احساس کمتری بہت آسانی سے ختم کرسکتے ہیں۔ مرزا نے وضاحت چاہی تو ہم نے عرض کیا کہ خواجہ ڈکیت گروپ جوائن کرلیجیے۔ یہ سُن کر مرزا نے ہمیں ایسی خشمگیں نظروں سے دیکھا جیسے شادی ہال کے باہر ڈھول بجانے کے بعد صرف پچاس کا نوٹ پاکر کوئی خواجہ سرا لڑکے والوں کو گھورتا ہے!

مرزا کو اِس بات کا دُکھ ہے کہ جن کے زنان پن کی دُنیا میں دُھوم ہے اُن کے ہاتھوں اصلی تے نارمل مَردوں کو لُٹنا پڑا ہے! علامہ نے فرمایا تھا۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا ہے نہیں
محو حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!

سچ ہی تو ہے۔ مسلح خواجہ سراؤں کو ڈکیتی کرتے دیکھنا ایسا منظر ہے کہ جس کا دہرانا بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں! زمانے کا ایسا ”انقلاب“ سمجھ میں آئے گا تب ہی تو بیان بھی ہو پائے گا!

ہم مرزا کا دُکھ سمجھتے ہیں۔ مگر اب کسی بھی بات کا دُکھ اور افسوس کیوں ہو؟ جس ملک میں نا اہل اقتدار میں ہوں، ڈھنگ سے پڑھنے میں ناکام رہنے والے تدریس پر مامور ہوں، ہر بے ایمان کو پوری ایمانداری سے لُوٹ مار کیلئے تعینات کیا جاچکا ہو، محنت کرنے والوں کے نصیب میں صرف دُکھ اور پریشانی رہ گئی ہو، کام نہ کرنے والا ہر شخص دھڑلّے سے موج اُڑا رہا ہو اور غریبوں پر زندگی حرام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا گیا ہو وہاں اگر خواجہ سراؤں کو ڈکیتی کی شہہ نہیں ملے گی تو اور کیا ملے گا؟

مرزا کے خیال میں یہ بہت ہی شرمندگی کی بات ہے کہ اب پاکستانیوں کو خواجہ سرا بھی لُوٹیں۔ ہم نے عرض کیا کہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے ہر شعبے کے ہر اعلیٰ منصب پر چُن چُن کر اور چھان پھٹک کرکے خواجہ سرا بٹھائے ہیں! اِس روش ہی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ کسی بھی شعبے میں عمدہ کارکردگی پیدا نہیں ہو پارہی۔ نا اہلی ہے کہ جھوم جھوم کر رقص کر رہی ہے اور اِس تماشے کو دیکھ کر نا اہل خواجہ سراؤں کے حصے کی تالیاں بھی ہم ہی پیٹ رہے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524513 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More