احساس

اللہ تعالیٰ نے اپنی دلچسپ مخلوق انسان کو مختلف مزاج ، ذہنی،فکری ،جسمانی وعملی استعداداور استطاعت عطا کی ہے۔ پھرانسان والدین ، سکول، گلی محلہ سے لیکر معاشرے سے بہت کچھ سیکھتا اور اختیار کرتا ہے ۔میرے آپ کے مشاہدے کی بات ہے کہ بعض لوگ اپنی طبیعت،مزاج کے سبب اچھے خاصے خوشگوار ماحول ، مسرتوں بھری محفل میں بھی کسی نہ کسی طرح افسردگی اور مایوسی کا پہلوتلاش کرنے میں برسرپیکار نظر آئیں گے۔

جبکہ دوسری جانب دنیا وآخرت سے بے فکر ایسی ہستیاں بھی ملیں گی جنہیں بات بے بات اورہرحال میں قہقے لگانے ہی سے اپنی منفرد شخصیت اور دوسروں سے ممتاز نظر آنے کی دُھن سوار رہتی ہے۔ایسے ہی بعض لوگ اپنی شکل وصورت بنا ،یا بگاڑ کر،کچھ لوگ عجیب وغریب لباس کا سہارا لے کراپنے آپ کو نمایاں ظاہر کرتے ہیں۔ ایسی طبعیت اور مزاج کے لوگ بھی ہیں کہ سامنے پڑے جنازے اور جائے عبرت قبرستان میں بھی لطیفے سناتے اور ہنستے نظر آئیں گے۔

عبداللہ آج بہت زیادہ پریشان ،اُداس اور غمگین تھا۔ اُسے اپنے کئے پر پچھتاوا تھا۔ واقعے سنانے سے پہلے
عبداللہ صاحب کا تعارف ہو جائے تو زیادہ بہترہوگا۔

عبداللہ کا مقصد بس ویسے ہی بلاوجہ کسی کو غصہ دلانا ۔۔۔۔ اور پھرکچھ نہ کچھ سُن کر لُطف اندوز ہونا حتیٰ کہ کئی بار تواُسے گالیاں سُننے کے ساتھ ساتھ مار پیٹ بھی برداشت کرنی پڑتی لیکن سب اُس کی اس خوبی کے معترف تھے کہ ایک تو وہ اپنا مشن ختم ہونے تک مدِمقابل کوایک لمحے کے لئے بھی کچھ اور سوچنے کا موقع نہ دیتا۔ خود بے حد سنجیدہ اور معصوم صورت بنائے رکھتا ۔۔۔۔۔۔کہ جیسے اُس نے تو کچھ کیا ہی نہیں۔ دوسری خوبی یہ تھی کہ پھر چاہے کوئی اُسے گالیاں دے یا تھپڑمارے ۔ وہ ہر نتیجہ کوخندہ پیشانی سے برداشت کرتا۔

عبداللہ کوان حرکات کی وجہ سے اکثر ماربھی پڑی لیکن کئی بار ایسا بھی ہوا کہ گالیاں دینے اور ناراض ہونے والے کو خود سے احساس ہوجاتا کہ یہ تو صرف مذاق تھاتووہاں موجود باقی لوگوں کی طرح عبداللہ کی شرارت کا شکار خود بھی ہنسنے لگتا۔ اب آتے ہیں اصل واقعے کی طرف کہ آخر بات کیا تھی؟ ہوا کچھ یوں کہ۔۔۔۔اس بار عبداللہ کا شکار باباجی بن گئے۔

عبداللہ اور مبشر دو نوں دوست کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں نماز کا وقت ہونے پر ایک مسجد میں گئے ۔ وضوکرنے کیلئے بیٹھے ہی تھے۔ کہ ایک بابا جی بھی اس دوران وضوکے لئے اُن کے پاس آکر بیٹھ گئے۔
عبداللہ: ایک بات پوچھنی ہے بابا جی ۔
بابا جی: پوچھو کیا بات ہے؟
عبداللہ: بابا جی مجھے ڈر لگ رہا ہے۔
بابا جی: کیوں ؟
عبداللہ: کہیں آپ ناراض نہ ہو جائیں۔
بابا جی: بیٹا ڈرنے کی کوئی بات نہیں تم پوچھو کیا بات ہے؟
عبداللہ: اِدھراُدھر اس انداز سے دیکھتا ہے کہ کہیں کوئی اور ہماری باتیں تو نہیں سُن رہا ۔
بابا جی: اب کی باربھرپور توجہ کرتے ہوئے تھوڑا جُھک کر اپنی گردن کو جنبش دے کرکان مزید قریب لاتے ہیں۔
عبداللہ : دراصل بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔چھوڑو ۔۔بابا جی۔۔۔ رہنے دیں مجھے شرم آتی ہے۔

بابا جی اب اور زیادہ متجسس ہورہے تھے کہ آخرکیا بات ہے؟۔۔۔۔ جس کے پوچھنے سے یہ اتنا شرما اور ڈر رہا ہے۔

اب عبداللہ آہستہ آہستہ اپنے مقصدکے قریب ہوتا جا رہاتھا ۔۔۔۔۔ بابا جی بضدتھے کہ جیسے اُنھوں نے دل ہی دل میں عہدکرلیا ہو کہ اس سے یہ بات توضرور پوچھ کر رہوں گا۔ اس لئے اب بابا جی کے چہرہ پر غصہ کے آثار نمودار ہونا شروع ہوچُکے تھے۔جوکہ عبداللہ کے لئے خوش آئند بات تھی۔ کیونکہ اُس کی محنت رنگ لارہی تھی۔

بابا جی : بیٹاپوچھو کیابات ہے شرع ( شرعی مسئلہ پوچھنے )میں شرم نہیں کرتے۔
عبداللہ: لیکن شرط یہ ہے کہ آپ نے بالکل صحیح بتاناہے۔
بابا جی: ٹھیک ہے ۔۔۔صحیح بتاؤں گا۔۔پوچھو کیا بات ہے؟
عبداللہ:وہ دراصل بات یہ ہے۔۔۔۔۔میں نے پوچھنایہ تھا ۔۔۔۔۔۔ کہ جماعت کتنے بجے شروع ہوگی؟۔۔۔۔۔اب کی باربابا جی: کاماتھا ٹھنکا
بابا جی: ۔۔۔۔ بیٹا 7:45 pm پر۔
عبداللہ: بابا جی ۔۔۔۔۔۔پکی بات ہے ناں؟
بابا جی : جی بیٹا
عبداللہ: سوچ لیں ۔۔ ۔۔ جی۔
بابا جی: بیٹاپکی بات ہے جماعت 7:45 pm پرہی ہوگی۔
عبداللہ: ۔۔۔۔۔بعد میں کہیں آپ مُکر تونہیں جائیں گے۔

بس پھر کیا تھا۔۔۔ بابا جی خوب تپ گئے۔ وضوکے لئے بیٹھنے والی لکڑی کی پھٹی اُٹھا ئی اور زور سے عبداللہ کو دے ماری ۔ اُلوکے پٹھے، بے حیاء، بے شرم ،بے غیرت انسان میں ،تم سے کوئی بیعانہ ،نقدی لے بیٹھا ہوں۔۔۔۔۔ جو بعد میں مُکر جاؤں گا ۔۔۔الغرض باباجی کوجتنی گالیاں یاد تھیں نان سٹاپ۔۔۔ با آوازبلند عبداللہ کو دیئے جا رہے تھے ۔ اور جب باباجی۔ ۔۔ الف سے آخر تک سارا واقعے نئے آنے والے ہرآدمی کو سُناتے تو وہ آدمی بھی ہنسنے لگتا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی۔۔۔ بابا جی ۔۔۔ اُونچی آواز میں پھرسے وہی سلسلہ شروع کردیتے۔

عبداللہ بیچارا سیدھا سادہ ،معصومیت کا مجسمہ بنا۔۔۔۔۔۔ سب کچھ سُن رہا تھا ۔۔۔۔ اور جسم کے جس حصہ پر لکڑی کی پھٹی لگی اُس جگہ کی مالش کر رہا تھا۔ سارے نمازی بے اختیا ر ہنسنے کے ساتھ ساتھ بابا جی کوسمجھانے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ یہ سلسلہ جماعت شروع ہونے تک جاری رہا۔

نماز کے بعد عبداللہ فوراََ مسجدکے صحن کی طرف لپکا اور باباجی کی جُوتیاں صاف کرکے جیسے ہی باباجی باہر آئے اُن کے پاؤں میں جوتیاں پہنانے کے بعدہاتھ جوڑکراور رورو کر معافی مانگنے لگا۔۔۔۔۔ اور اُس وقت تک معافی مانگتا رہا جب تک بابا جی نے مسکراتے ہوئے اُسے معاف نہ کردیا۔

ایک آدمی نے عبداللہ کے کان میں آہستگی سے کچھ کہا۔ پھراُس کے باربار اشارہ اور اسرار پر۔۔ عبداللہ نے ہمت کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا۔۔۔ بابا جی ۔۔۔۔ ایک بات پوچھنی ہے آپ ناراض تونہیں ہونگے؟
یہ بات سُنتے ہی باباجی سمیت تمام آدمی ایک بار پھر ہنسنے لگے۔

باباجی ۔۔۔بولے۔۔۔بیٹا۔۔ کیابات پوچھنی ہے ؟

عبداللہ :۔۔۔باباجی آخر۔۔آپ اتنازیادہ ناراض کیوں ہوئے۔۔۔۔ بابا جی نے عبداللہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔اور بڑے پیار سے کہا۔۔۔۔۔۔بیٹا جگہ اور مقام کاکچھ تو لحاظ ،خیال رکھنا چاہیے۔

عبداللہ ہر باربڑے فخرسے اپنا کارنامہ سناتا تھا مگرآج پہلی بار عبداللہ کا اسرار تھا ۔ گوکہ یہ سب کچھ لاشعوری طور پر ہوگیا۔۔۔۔ مگر مجھے ایسانہیں کرنا چاہیے تھا۔ کاش ہم سب میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ ہم سے ماضی میں جو بھی انفرادی اور اجتماعی غلطیاں ہوئیں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھااور آئیندہ کے لئے عہدکرلیں کہ پاکستان جو ہم سب کا گھرہے ہم سب اس گھر،کنبہ،قبیلہ کے فرداور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔پاکستان کی ترقی ، خوشحالی اور اسے صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بنانے میں ہم سب نے اپنا اپناکردار ادا کرناہے۔
MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 83694 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.