خواتینِ مغرب ’’ان کو آزاد کون کرتا ہے؟‘‘

امریکی انتظامیہ نے ابھی حال میں جن تیرہ لوگوں کو حریت کےقومی صدارتی اعزاز سے نوازنے کا فیصلہ کیا ان میں ایک میڈیلین البرائٹ بھی ہے ۔ یہ وہی بدنام ِ زمانہ خاتون ہےجس نے عراق پر معاشی پابندیوں کے حوالے سے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں یہ تسلیم کیا تھا کہ عراق پر پابندی لگانا ایک مشکل فیصلہ تھا (اس لئے کہ اس کے نتیجے میں پانچ لاکھ بچوں کو ادویات کی غیر فراہمی کے باعث جان گنوانی پڑی)اور ہم اسکی قیمت جانتے تھے لیکن اس قیمت کو ادا کرنا واجبی تھا "۔ البرائٹ اسٹیٹ سکریٹری کی حیثیت سے عراق پر معاشی پابندیاں عائد کرنے میں پیش پیش تھیں ۔ اس سےقبل جب وہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر تھیں تو اس وقت انہوں نے اپنے ایک سفاکانہ بیان میں کہا تھا" آئندہ نسلوں کو جنگ سے بچانے کیلئے مخالفین کو زندہ رہنے کے تمام وسائل سے مرھوم کرنے کی ایک نئی حکمت عملی اپنائی جانی چاہئے ۔؁۱۹۹۳ کے اندر جو کچھ اس نے کہا ؁۱۹۹۷ کے بعد اس پر عملدرآمد کر کے دکھلادیا ۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ میڈیلین کو جنگ کے مصائب کا علم نہیں تھا ۔ اس نے بچپن میں دوسری جنگ ِ عظیم کو دیکھا جبکہ نہ صرف اس کے وطن چیکوسلواکیہ پر بلکہ اس کے اپنے گھر پر بھی جرمن قوم نے قبضہ کر لیا تھا ۔ اس وقت وہ اپنے سفارتکار والد کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم تھی۔ جنگ عظیم کی تباہ کاریوں پر بنی ایک دستاویزی فلم میں البرائٹ نے جنگ کے دوران بچوں کی حالتِ زار کونہایت پر سوز انداز میں بیان کیا تھا لیکن آگے چل کر موصوفہ نہ صرف بچوں کی بلکہ ان ماوں کی بھی دشمن بن گئی جن کے بچے جان بچانے والی دوائیوں سے تک محروم کر دئِیےگئے ۔ فی الحال میڈیلین اقوام متحدہ کے پسماندہ ممالک میں خواتین کو قانونی تحفظ عطا کرنے کی خاطر کام کرنےوالے کمیشن کی مشترکہ چیرمین ہیں۔ جس عورت نے لاکھوں خاندانوں کو اجاڑا ہے کیا وہ اس عہدے کی مستحق ہے ؟ ایک انصاف پسند شخص اس سوال کا مثبت جواب کبھی بھی نہیں دے سکتا لیکن مغرب کا معیا رِحق عدل کے بجائے ظلم پر مبنی ہے ،اسی لئے البرائٹ کو؁۲۰۰۶ میں یوروپ کا معروف مینشین ایوارڈ سے نوازہ گیا۔ مغربی دنیا میں قومی اور عالمی اعزاز اسی طرح کے لوگوں کی خاطر مختص ہیں ۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جن کے ذریعہ اہلِ مغرب اپنے اصلی چہرے کی نمائش کرتے رہتےہیں ۔

صدر اوبامہ نے میڈیلین کو اعزاز سے نوازنے کا جواز فراہم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کا اعتراف ہے وہ عرصۂ دراز تک جمہوریت اور انسانی حقوق کی علمبردار رہی ہیں ۔امریکی صدر کے مطابق انہوں نے دنیا کو رہنے کیلئے ایک بہتر مقام بنایا ہے اور یہ ایک بڑی مہم تھی جسے البرائٹ نے سر کرتے ہوئے امن عالم کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ ۔ ایک طرف میڈیلین کے جنگی جرائم ہیں اور دوسری جانب ان کی پذیرائی اس بات کی غماز ہے کہ امریکہ کے نزدیک آزادی و انسانی حقوق کے معنیٰ کیا ہیں اور وہ امن عالم سے کیا مراد لیتے ہیں ؟میڈیلین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ’’ جہنم میں ان خواتین کیلئے ایک خاص جگہ ہے جو دوسری خواتین کی مدد نہیں کرتیں‘‘ میڈیلین نے عراقی خواتین کے ساتھ جوظالمانہ سلوک کیا ہےاس کے باعث وہ کسی قومی اعزاز کی نہیں بلکہ جہنم کے مذکورہ گوشے میں خصوصی مقام کی مستحق قرار پاتی ہیں ۔

امریکی انتظا میہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ساری دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے چکر میں ان لوگوں نے خود اپنے ملک کو جہنم زار بنارکھا ہے۔خیالی دشمنوں کا مقابلہ کرتے کرتے وہ خود اپنے دشمن بن گئے ہیں امریکہ کی موجودہ صورتحال گویا خمار باہ بنکوی کے اس شعر کی مصداق ہو گئی ہے
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زما نہ ، نئی روشنی ہے

اگر کسی کو مذکورہ دعویٰ پر یقین نہ آتا ہوتو وہ گزشتہ دنوں نیویارک کے روشسٹر نامی علاقے میں رونما ہونے والے ایک اندوہناک واقعہ کی تفصیل معلوم کر لے ۔ یہ ایک ایسی وحشیانہ سفاکی کا مظاہرہ تھاجس کا تصور کسی جنگل میں بھی نہیں کیا جاسکتا ۔بوبی کگلر نامی ایک ۳۱ سالہ خاتون کو روشسٹر شہر کی عدالت میں پیش کیا گیا اس پرآ گ زنی اور اپنے چار بچوں کو زندہ جلانے کا الزام ہے۔ یہ آ گ دو منزلہ رہائش گاہ کی عمارت میں رات ایک بجے لگی اور آ گ بجھانے والے دستے کے سربراہ جان کا فیلڈ کے مطابق یہ حادثاتی طور پر نہیں لگی بلکہ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔ اس آ گ میں بوبی کے چار بیٹے گیج ریوئے،کریگ کگلر، کندی کگلر،کیدن کگلر جن کی عمریں بالترتیب ۱۴،۱۳،۱۲ ۱ور ۶ سال تھی جل کر ہلاک ہوگئے ۔ان کے علاوہ آ گ بجھانے والوں نےبوبی کے ۲ سالہ بیٹے ٹائرن جیکسن سمیت اسے بچا لیا۔ان کاایک خاندانی دوست اور دو نوجوان جوعمارت کی چھت پر سو رہے تھے کود کر بھاگ گئے ۔

یہ واقعہ بذات، خود مرض نہیں بلکہ اس بیماری کی ایک علامت ہے جس سے آج امریکی معاشرہ دوچار ہے ۔ پسماندہ ممالک میں غربت و افلاس سے دوچاروالدہ کے اپنی اولاد کو ہلاک کر کے خودکشی کر لینے کے واقعات کبھی کبھار منظرِ عام پر آجاتے ہیں لیکن ۳۱ سالہ بوبی کا شاندار گھر اس کی خوشحالی کا جیتا جاگتا ثبوت تھا۔بوبی کے مسائل مالی نہیں بلکہ نفسیاتی نوعیت کےتھے۔ ۱۷ سال کی عمر میں وہ گیج کی ماں بن گئی اور نام سے اندازہ ہوتا ہے کہ گیج کے باپ کا خاندانی نام ریوے تھا ، سب سے چھوٹے بیٹے کے والد کا خاندانی نام جیکسن ہے اور درمیان کے تین بچوں کے ساتھ خود بوبی کا اپناخاندانی نام لگا ہوا ہے ۔ناموں پر غور کرنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ بوبی نے اپنی نصف عمر کن مشکلات میں گزاری ہوگی اور بالآخر وہ اپنے آپ سے اس قدر مایوس ہوگئی کہ اس نے اپنے تمام بیٹوں کو ہلاک کرکے خودکشی کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنا جہان اجاڑ دیا ۔

کسی ایسے معاشرے میں جہاں ایک بڑی تعداد تنہا ماؤں کی پائی جاتی ہے ۔ جہاں مرد خواتین کو اپنی خواہشاتِ نفس کا شکار بنا کر اسے تنہا چھوڑ دیتے ہیں ۔ جہاں مرد اپنی پدرانہ ذمہ داریوں سے منہ چراتے ہیں وہاں اگر بوبی جیسی عورت اس طرح کی سفاکی کا اظہار کردے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے ۔لیکن اس مایوسی اور سفاکی قیمت ان معصوم بچوں کو بھی چکانی پڑتی ہے جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا ۔میڈلین البرائٹ اگر اقوام ِ متحدہ میں بیٹھ کر ساری دنیا کی پسماندہ خواتین کو ان کے قانونی حقوق بحال کرنے کے بجائے خود اپنے ملک میں پھیلی ہوئی بے شمار بوبی جیسی خواتین کی جانب توجہ دیں تو یہ قوم کی بہت بڑی خدمت ہوگی اس لئے کہ یہ کوئی معمولی عذاب نہیں ہے جس میں ایک ماں اپنی اس اولادکو اپنے ہاتھوں سے آ گ کے الاو ٔ میں جھونک دے جن کی پرورش اس نے اپنے خونِ جگر سے کی ہو ۔

ایک طرف امریکی معاشرت کے یہ سنگین مسائل ہیں اور دوسری جانب امریکی سیاست کی وہ مجبوریاں جنھوں نے صدر وابامہ کو ہم جنس شادی کا حامی بنا دیا ہے ۔ امریکہ کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی صدر کی جانب سے اس ٖغیر فطری حرکت کی ببانگِ دہل حمایت کی گئی ہو ۔براک اوبامہ نے کمال بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ ان کی بیٹیوں نے انہیں اس مسئلہ کو سمجھنے مدد کی ۔اس طرح کی غیر فطری فیصلے بوبی جیسی خواتین کے مسائل میں مزید اضافہ کا سبب بنیں گے ۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں تعدد ازدوج ممنوع ہے مرد کسی مرد سے بیاہ رچا کر اپنی ازدوجی ذمہ داریوں سے جان چھڑا لے گا ۔خواتین کو خواتین سے شادی رچانے کی ترغیب دی جائیگی لیکن چونکہ جنسی بے راہ روی کے نتیجے میں مردوزن کا اختلاط جاری رہے گا اس لئے حرام اولاد وجود میں آتی رہیں گی اور ان کی کفالت کی ساری ذمہ داری خواتین ہی کے سر منڈھتی رہیگی جس کے نتیجے میں بوبی کگلر جیسی خواتین خودکشی کرتی رہیں گی مگر میڈیلین البرائٹ جیسی خواتین کو قومی اعزاز سے نوازہ جاتا رہے گا ۔

مغرب کے اخلاقی انحطاط کا ایک اور ثبوت فرانس میں کا معاشرہ ہے جہاں سابق صدر نکولس سرکوزی عرصۂ دراز تک خاتون اول کے ساتھ بغیر نکاح کئے زندگی گزارتا رہااور اسے اپنے ساتھ غیر ملکی دوروں پر بھی لے جاتا رہا لیکن آگے چل کر اسے محسوس ہوا کہ شاید اس کا یہ رویہ انتخابات پر منفی نتائج مرتب کرے گا اس لئے اس نے کیتھولک چرچ میں جاکر نکاح کر لیا ۔سرکوزی کےخلاف ابتداء میں ڈومنیق اسٹراس کاہن کا نام بڑے زور شور کے ساتھ سامنے آیا وہ آئی ایم ایف کا سربراہ تھا ۔ اول تو اس شخص پر نیویارک کے ایک ہوٹل میں صفائی کرنے والی ملازمہ پر دست درازی کا الزام لگا اور پھر فرانس کی ایک مصنفہ ٹرسٹان بنون نے عصمت دری کا الزام لگایا۔ آگے چل کر اسےبردہ فروشی کے ایک بین الاقوامی ریکٹ میں ملوث پایا گیا ۔ فرانس کے قانون میں عصمت فروشی کی قانوناً اجازت ہے اور ہر شخص اپنے لئےدولت کے عوض جسم خرید سکتا ہے لیکن کسی اور کی خاطر یہ نہیں کر سکتا ۔ایسا کرنے کی سزا ۲۰ سال قید اور بھاری جرمانہ۔ کاہن اس عجیب و غریب منافقانہ قانون کی زد میں آ گیا۔ اس کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ جنسی بے راہ روی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے صرف اخلاقی غلطی قرار دیتا ہے مگر کوئی جرم تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس نے امریکی ملازمہ پر ہتک عزت کا دعویٰ بھی کر دیا ہے ۔

کاہن کے میدان سے ہٹ جانے پر سوشلسٹ پارٹی نے فرانسوا اولاند کو اپنا امیدوار بنایا جو بالآخر کامیاب بھی ہوگیا ۔ کچھ لوگوں نے سرکوزی کی ناکامی کو اس کی ازدواجی زندگی کے حوالے سے فرانسیسیوں کی ناراضگی پر محمول کیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ محض خوش تھی اس لئے کہ نو منتخبہ صدر بھی نکاح کے بغیر عرصہ تک معروف سوشلسٹ رہنما سیگولن رویال کے ساتھ بغیر نکاح کے زندگی گزارتے رہے اور چار بچوں کی پیدائش کے بعد ان دونوں نے علٰحیدگی اختیار کرلی ۔رویال نے فرانس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدرات کی امیدواری حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اولاند نے اسے ناکام کر دیا ۔آج کل فرانسو اولاند۴۲ سالہ فیلیری ٹرائیرولر کے ساتھ بغیر نکاح کے زندگی بسرکر رہے ہیں جن کی دو بار طلاق ہو چکی ہے اور وہ نوجوان بچوں کی ماں ہے ۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ اولاند نے اپنی کیبنٹ میں تو ۵۰ فیصد خواتین کو شامل کرلیا لیکن اپنے گھر کے اندر فیلیری کو شریک حیات بنانے کی ضرورت نہیں محسوس کی ۔اس لئے فرانس کی خاتون ِ اول ایک بیوی کو حاصل احترام و عزت سے محروم ہے ۔

یہ برائی فرانس میں اس قدر عام ہے کہ ۵۰ فیصد سے زیادہ جوڑے رشتہ ازدواج کی ضرورت سے انکار کرتے ہیں ۔مغرب میں خواتین کی حالتِ زار پر شہناز نبی کی نظم ’معصوم بھیڑیں‘ حرف بحرف صادق آتی ہے
اک چراگاہ
سو چراگاہیں
کون ان ریوڑوں سے گھبرائے
پڑ گئیں کم زمینیں اپنی تو
کچھ سفر کچھ حضر کا شغل رہے
کچھ نئی بستیوں سے ربط بڑھے
ان کو آزاد کون کرتا ہے
یہ بہت مطمئن ہیں تھوڑے میں
اک ذرا سا گھما پھرا لاؤ
کچھ ادھر کچھ اُدھر چرا لاؤ
بھیڑیں معصوم
بے ضرر سی ہیں
جس طرف ہانک دو
چلی جائیں

مغربی تہذیب نے فی الحال اپنے آپ کو قانونِ فطرت کے خلاف ایک عجیب و غریب جنگ میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ایک جانب وہاں ہم جنسوں کے ازدواجی حقوق پر ہنگامہ برپا رہتا ہے ۔ اس پر جی بھر کے سیاست کی جاتی جو عمل فطرت کے عین خلاف ہے اسے جائز قرار دیا جاتا ہے وہیں دوسری جانب زن و شو کے درمیان نکاح کا مقدس رشتہ کوبے معنی قرار دے کر اسے پامال کیا جاتا ہے ۔ ایک طرف حجاب کی ملامت کی جاتی ہے اور دوسری جانب بے حیائی و عریانیت کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اقوامِ مغرب فی زمانہ برضا و رغبت قوم ِ لوط پر برسنے والے عذاب کاا نتظار کر رہی ہیں ۔ جب ان سے حضرت لوط ؑ کے الفاظ میں یہ کہا جاتا ہے کہ ’’کیا تم آنکھوں دیکھتے بدکاری کرتے ہو؟ تو ان کا جواب ہوتا ہے ’’نکال دو لوطؑ کے گھر والوں کو اپنی بستی سے، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں‘‘
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226625 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.