شہر سے دور مضافاتی علاقہ میں
واقع ایک ایسے شہر کا ذکر کرنے جارہا ہوں جہاں کا حسن دیدنی ، نظم وضبط
مثالی ، صفائی ستھرائی اور نظافت لائق تحسین ، فن ِ تعمیر کے شاہکار اس شہر
کے نگران سے لے کر دربان تک سب ہی مجسمہ عجز ووفا ہیں ۔ وہاں کے باسی اور
باشندگان متقفہ طور پر جنگل میں منگل کا سماں پیش کرنے والے اس آباد خانے
کو ہر طرح سے سیراب کرنا جانتے ہیں ، جدید سہولیات سے آراستہ اور عصر ِ
حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ اس خوبصورت شہر میں انسان بنائے جاتے ہیں ۔ جی
ہاں انسان ۔۔۔! واقعہ تو یہ ہے کہ اس مصرِ علم کا بلا مبالغہ ہر علمی وعملی
اقدام ہی بجائے خود ایک لائق تحسین اور قابل قدر مشن ہے ۔ مشتے از نمونہ
خروار چندایک کا سرسری تذکرہ کیے دیتا ہوں۔
حفاظ عربک اور حفاظ انگلش کورسز: اس کورس میںننھے منے حافظ بچوں کو دنیا کی
دو انٹر نیشنل زبانوں سے روشناس کروایا جاتا ہے ، یہ ننھے منے بچے دو سالوں
میں کمال مہار ت سے عربی اور انگلش میں تقریریں کرنے کے ساتھ ساتھ کافی حد
تک انگلش وعربی بولنے ، سمجھنے اور لکھنے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں ۔ چند
روز قبل میں نے youtube.com پر درس قرآن ڈاٹ کام کی طرف سے اپ لوڈکی جانے
والی ویڈیوز دیکھیں (www.darsequran.com/jamiat ur rasheed)اسے دیکھ کر میں
حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا ، ان بچوں کی صلاحیت ، سپیکنگ پاور ، باڈی
لینگویج، آواز کا زیرو بم ، خود اعتمادی ہر ایک چیز ہی قابل دید ہے ۔
کلیة الشریعة : اس میں دنیاوی اداروں سے آنے والے گریجویٹ طلباءکو چار سال
کے قلیل عرصے میں عالم دین کا مکمل کورس کروایا جاتا ہے اور دین متین سے
روشناس کروایا جاتا ہے ۔
ایم بی اے ، بی بی اے ، خطابت کورس قرآنی عربی کورس ، صحافت کورس ، کالم
نگاری کورس ، تخصصات کے مختلف شعبے اور اس کے علاوہ بہت کچھ۔ بلا مبالغہ اس
علمی شہر کا ہر اقدام قابل تقلید اور اپنی مثال آپ ہے۔
اسی ادارے کے تحت ”حلال فاؤنڈیشن “ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ یہ پاکستانی
عوام کے لیے کسی بہت بڑی خوشخبری سے کم نہیں ۔ کیونکہ باہر ممالک سے درآمد
شدہ اشیاءخوردونوش جو پیک آتی ہیں ان شیاءکی اجزائے ترکیبی کی حقیقت جانے
بغیر اس کے حلال وحرام کا فیصلہ ظاہر ہے کہ نہیں کیا جا سکتا ۔ اب یہ پتہ
کیسے لگایا جائے ؟اس حقیقت تک رسائی کیسے حاصل کی جائے ؟ کس چیز کو حلال
اورکس کا حرام ہونا سب کو بتایا جائے ؟ یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا تھا جب اس
کے لیے پوری ایک ٹیم متعین کی جائے جو ان تما م اجزاءکے اصل ، اس سے بننے
والی چیزوں ، دوران ِ صنعت پیش آنے والے مراحل ومسائل سے آگاہ ہو ۔ اس پر
وطن عزیز میں اب تک کوئی قابل ذکر کوشش سامنے نہیں تھی ، پورا ملک اندھیرے
میںتھا کہ آیا اس میں کسی حرام شئی کی آمیزش تو نہیں ؟ اس مشکل اور پیجیدہ
کا م کا بیڑہ اٹھانے والے ان خیرا خواہان امت کو اﷲ جزائے خیر عطا فرمائے ۔
ارشادِ باری تعالٰی ہے :”اے لوگوں جو چیزیں زمین میں موجود ہیں اس میں سے
حلال پاک چیزوں کو کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو ،یقینا وہ تمہارا
کھلا دشمن ہے“۔(البقرة:168)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکا مفہوم
ہے ”حلال کی طلب میں تھکا ہوا بندہ اللہ تعالٰی کو محبوب ہوتا ہے “(جامع
الصغیر:1/28)عصرِ حاضر میں حلال غذا کا حصول امتِ مسلمہ کا ایک پیچیدہ اور
سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے ،کفار کی طرف سے دیگر عالمی سازشوں کے علاوہ یہ بھی
ایک عالمگیر سازش ہے کہ امتِ مسلمہ کے غذائی نظام کو فاسد و نجس کرکے اس کی
روحانی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جائے تاکہ یہ لوگ اللہ کی مدد و نصرت سے
محروم ہو جائیں اور مسلمان ہمارے ہاتھوں کھلونا بنے رہیں ایک حدیث شریف کا
مفہوم ہے کہ انسان کی غذاء پاک نہ ہو تو اس کی دعائیں کیسے قبول
ہونگیں،شاید یہی وجہ ہے کہ مقاماتِ مقدسہ ،حرمین شریفین سمیت جہاں قبولیت
دعاءکے وعدے ہیں ، وہاں ہر سال، بلکہ سال کے 365دن،24 گھنٹے اللہ کے حضور
اور حضور ﷺ کے پڑوس میں دعائیں مانگتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی امتِ مسلمہ کی
زبوں حالی کسی سے پوشیدہ نہیں ،شاید یہ وجہ تو نہیں کہ بلادِ عرب خصوصا
سعودی عرب بشمولِ حرمین شریفین کے علاقے میں آنے والا گوشت اور دیگر پیک
شدہ کھانے پینے کی چیزیں حلال نہ ہوں؟کیا یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ
برازیل سے آنے والا چکن ،ہالینڈ سے آنے والا گوشت یقینی طور پر حلال ہے؟کیا
قبولیتِ دعاءاور حج کے برکات و اثرات سے محرومی کا ایک بڑا سبب یہ تو نہیں
کہ ہماری غذا حلال نہیں؟ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ حرام کھانے والا جب
حج کے دوران ”لبیک“،”لبیک“ کی صدا لگاتا ہے تو اللہ تعالٰی کی طرف سے آواز
آتی ہے کہ تیری حاضری نا منظور اور تیرا حج مردود ہے۔(البحر المحیط:3/42 )
یقینا اس با رے میں حکمت ومصلحت کی چادر اوڑھ کر خاموشی اختیار کرنے پر
کوئی مسلمان رضا مند نہیں ، محنت مزدوری کر کے حلال کمانے والا مسلمان کبھی
یہ گوارہ نہیں کرے گا کہ ان پاک پیسوں سے ناپاک اشیاءخریدی جائیںبلکہ اس
نازک مسئلہ پر ہر مسلمان تحقیق کا طالب ہے ۔ اس تحقیقاتی ادارے کے قیام سے
مسلم امہ خصوصا پاکستانی عوام کے کندھوں سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے ۔
کیونکہ بیرون ملک سے آنے والی مختلف قسم کی اشیاءصرف وخوردونوش کی تحقیق
اور اجزائے ترکیبی تلاش کرنا اور اسلامی معاییر پر انہیں پرکھنا ایک بہت
بڑا مسئلہ ہے جو اس ادارے کے وجود میں آنے سے انشاءاﷲ ممکنہ حد تک حل
ہوجائے گا۔
حلال فاؤنڈیشن کو بنے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوتھا کہ لگے ہاتھو ں حلال آگاہی
مہم کے شعو ر کو امت میں پیدا ر کرنے کے لیے اور امت ِ محمدیہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے ایک ایک فرد مرد ، عورت ، بچے ،بوڑھے اور جوان کے حلق سے
اترنے والے ایک ایک لقمے اور ایک ایک گھونٹ کو حرام کی آمیزش سے پاک رکھنے
کا بلند پایاں عزم لے کر اسی کارواں کے ایک مسافر ” مفتی سید عارف علی شاہ
صاحب“ نے اس موضوع پرا یک قابل قدر تالیف ”حلال وحرام کے شرعی معیارات “ کے
عنوان سے کتابی صورت میںیکجا فرمائی ۔ اندازِ بیان ایسا سہل اور مسحور کن
ہے کہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا انسان اس سے باآسانی استفادہ کر
سکتا ہے۔خصوصا ً وہ کمپنیاں اور ڈیلرز حضرات جو کہ باہر ممالک سے اشیاءصرف
وخور دونوش درآمد کرتے ہیں ۔ ان حضرات کے لیے مصنف کی یہ کاوش کسی نعمتِ
عظمیٰ سے کم نہیں۔ان کی یہ تالیف اس وجہ سے بھی موثوق اور مستند ہے کہ مصنف
اسی غرض سے ساو ¿تھ افریقہ کا دو ماہ کا سفر بھی کر چکے ہیں ۔ دو ماہ کے
قیام کے دوان وہاں کے ماہرین سے فوڈ ، اس میںشامل اجزاء، کیمیکلز ،
فلیورزاور اس کے تمام ingredients سے متعلق مکمل معلومات اور اس موضوع پر
خصوصی تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا م کا عملی تجربہ بھی رکھتے ہیں
اور حلال فاو ¿نڈیشن پاکستان کے رکن بھی ہیں ۔
محترم مولف نے انتہائی عرق ریزی اور کمال مہارت کے ساتھ سہل اور سلیس انداز
میں کتاب کو چار ابواب پر تقسیم کیا ہے ۔ کتاب کے پہلے باب میں حلال وحرام
کے شرعی معیارات کا بیان ہے ، دوسرے باب میں حلال ذبیحہ کے شرعی معیار کے
بارے میں بحث کی گئی ہے ، تیسرے باب میں حلال فوڈ سے متعلق چند اہم مسائل
پر بحث کی گئی ہے ۔ ان مسائل میں انقلابِ ماہیت ، جیلیٹین ، الکحل ، القلیل
کالمعدوم (نجاست کی وہ تھوڑی مقدار جو شریعت میںمعاف ہے) ۔چوتھے بات میں
دنیا کے مختلف ملکوں میں حلال کی تصدیق کرنے والے چند مشہور اداروں کا
تعارف ، طریقہ ¿ کار ،ان کے معاییر (standers)پر تبصرہ وغیرہ شامل ہے۔ ان
ممالک میں امریکہ ، جرمنی ، کینیڈا ، ہالینڈ ، ملائیشیا ، انڈونیشیا ،
جنوبی افریقہ اور پاکستان کے اداروں کا تعارف اور ان کے بارے میں تبصرہ
شامل ہے ۔(کتاب میں موجود کمپوزنگ کی غلطیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس امید
کے ساتھ کہ آئندہ ایڈیشن میں ان غلطیوں کی اصلاح کر لی جائے گی)
یقینا اس شہر کا انتظام کرنے والے اور اس علمی شہر کے نظام کو غور وخوص،
تدبر اور دوراندیشی کے ساتھ چلانے والی ہستیاں مبارکباد اور لائق داد
وتحسین کی مستحق ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ ان کی کی مساعی جمیلہ کو شرف ِ قبولیت سے
ہمکنار فرماتے ہوئے مزید ترقی وپزیرائی کی راہوں کو ہموار فرمائے ۔ اٰمین ۔
اس علمی شہر کا نام شاید آپ کے ذہنوں میں آگیاہوگا جہاں سے علم وہدایت کے
چشمے پھوٹتے ہیں ، جہاں انسان بنائے جاتے ہیں اور انشاءاﷲ وہ دن ضرور آئے
گا کہ اس شہر کے علمی چشموں سے سیراب ہونے والے سرخیل دنیا کے گوشے گوشے
میں اس فیض کو عام کریں گے ۔ جی ہاں ۔۔۔! میری مراد اس علمی شہر سے
” جامعة الرشید “ ہے جو کراچی کے مضافات احسن آباد میں واقع ہے۔ |