اے کاش۔ اے کاش۔ ڈاکٹر دانش کے نام

مُحترم ڈاکٹر ظہور احمد دانش صاحب السلامُ علیکم

میں جب بھی آپکے کالمز دیکھتا ہُوں تب اُنہیں پڑھنے کے بعد میرے اندر بھی انقلاب کی ایک تحریک برپا ہُوتی ہے اور میں سوچتا ہُوں۔ کہ اُن کالموں پر کُچھ نہ کُچھ تبصرہ بھی ضرور کروں،، لیکن آپکے کالم اتنے جامع مفصل اور جاندار ہُوتے ہیں۔ کہ جہاں کوئی سوال پیدا ہُوتا ہے۔ وہیں مفصل جواب بھی کالم میں ہی موجود ہُوتا ہے۔ پھر اپنی کم مائیگی کا احساس بھی کُچھ نہ لکھنے کا مشورہ دیتا ہے ،، کہ صاحب عَلم اور صاحَب الرائے اشخاص کے سامنے بولنا مجھ جیسے کم علم انسان کو زیب نہیں دیتا۔

آپ بجا فرماتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم اور بحیثیت فرد اپنی ذمہ داریوں سے مُنہ چھپائے کَسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ جو آکر نہ صرف ہماری زُباں ، ہمارے الفاظوں ، اور ہماری سُوچ کو آزاد کرادے بلکہ ہمارے جسموں پر پڑی غلامی کی بیڑیاں بھی تُوڑ ڈالے۔ جَس قوم کو اغیار نے عالمی سازشوں کے ذریعہ سے بجلی گیس پٹرول بھوک بے روزگاری جیسے مسائل میں اُنہی کے حُکمرانوں کے ہاتھوں مبتلا کرا رکھا ہُو۔ وہ قُوم بھلا انقلاب کی داعی کب بن سکے گی یہاں تو اب یہی صدا سنائی دیتی ہے کہ بجلی کب آئے گی ، گیس کب ملے گی ، آٹا کب دستیاب ہوگا، روزگار کب کھلیں گے ہڑتالوں کا چلن کب ختم ہُوگا۔

مگر یہاں تُو کِسی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ صدر صاحب کو جو استشناء حاصِل ہے وہ آخر کیوں حاصِل ہے جبکہ فاروقِ اعظم (رضی اللہ تعالی عنہُ) جنکی حکومت عرب سے افریقہ اور شام سے ہند تک قائم تھی اُنہوں نے بھی اپنے لئے کوئی استشناء حاصِل نہیں کیا۔ تُو کب وہ صبح نمودار ہوگی کہ غیر ملکی بنکوں میں جمع کرپٹ سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور جنرلوں کی وہ دُولت جو غریب پاکستانیوں کے جسموں کا خُون بیچ کر حاصِل کی گئی تھی واپس لائی جاسکے گی اور سوئس بنکوں میں جمع پیسہ آخر کب واپس آئے گا۔۔؟

کب وہ دِن آئے گا کہ نوجوان ہاتھ میں ڈ،گریاں لئے نوکریوں کے لئے دھکے کھاتے نظر نہیں آئیں گے، کب وہ شام آئے گی جب غریبوں کے بچے خالی پیٹ نہیں سُوئیں گے۔ کب غریبوں کا استحصال ختم ہُوگا، کب تعلیم کے میدان میں امیر و غریب کے درمیان امتیاز رَوا نہیں رکھا جائے گا۔ کب نوکریاں سفارش کے بجائے میرٹ پر دِی جائیں گی۔ کب وہ دِن آئے گا جب سیاست صرف امیروں کا کھیل نہیں ہُوگا۔۔۔؟ اور کب وہ چمکتی دُوپہر نمودار ہُوگی جب اس قوم کے بچے ننگے بدن ٹریفک سگنل پر بھیک مانگتے نظر نہیں آئیں گے۔

ایسے ہی ہزاروں سوالات ہیں جو ذہن میں صبح و شام کیڑوں کی مانند رینگتے رہتے ہیں مگر کوئی ایسا نہیں جو ان سوالات کا تشفی بخش جواب دے پائے۔

لیکن ڈاکٹر صاحب مجھے اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ ایسے ماحول میں کہ جب چہار جانب اندھیرے کے سِوا کُچھ نظر نہیں آتا۔ اُس وقت آپ جیسے صاحبانِ علم حضرات کی تحریریں اور تقریریں اِس گُھٹا ٹُوپ اندھیرے میں کسی جگنو کی مانند ہی سہی لیکن روشنی کی اُمید ضرور پیدا ہُوتی ہے۔ اور سانسوں کی ٹُوٹتی ہُوئی لے پھر اُمید سحر پیدا ہُونے سے بحال ہُونے لگتی ہے۔

اے کاش ہم عِلم کی روشنی سے دُور نہ ہُوئے ہُوتے تو آج یہ دِن دیکھنا نصیب نہ ہُوتا۔ اور آج اقوام عالم ہمارے حالات دیکھ کر نہ ہماری بیچارگی دیکھ کر ہم پر ترس کھاتی اور نہ ہمارے اعمال دیکھ کر ہمارا مذاق اُڑا پاتی۔۔۔۔!

اے کاش ہم قران کے تارِک نہ ہُوتے۔

اے کاش ہم فرمانِ مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے عامِل ہُوتے۔

اے کاش ہم نے اپنے اسلاف کے کارناموں کو بُھلایا نہ ہوتا۔

اے کاش ہمیں اپنے نبی ﷺ کا یہ فرمان ہمیشہ یاد رِہتاکہ،، بَلغو عنی ولو آیۃ،، پُہنچادو میری طرف سے اگرچہ ایک بات ہُو۔

اے کاش اب بھی ہم اس خوابِ غفلت سے جاگ جائیں۔

اے کاش۔۔۔ اےکاش۔۔۔ اے کاش۔۔۔
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1060436 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More