دے دے بابا اللہ کے نام پہ

میں اتنا کاہل و سست کیوں ہوگیا ہو ں ؟کچھ کرنے کو دل ہی نہیں کرتا سبھی کچھ تو سلامت ہے ۔کھاتاہوں ،پیتاہوں ۔لیکن جب معاش کی بات آتی ہے ۔تو نہ جانے کن آسیب نے میرے اعصاب پر گرفت مضبوط کرلی کی ۔منہ بسور کر،بلک بلک کر،ہوں ہوں ،آہ کی سرد آہیں نکال نکال کر سامنے والے کے دل جیتنا کے فن کو جو عملی مظاہر میں کرتا ہوں کوئی ہم سا ہو تو آئے ۔

محترم قارئین ۔کشکو ل ہاتھ میں لیے پھرنا ایک محبوب مشغلہ اور آمدنی کا معقول ذریعہ بنتا چلاجارہاہے ۔کبھی سوچ کے یہ سلو پوئزن کی صورت میں معاشرے کی ساکھ معاشرے کی اساس کو دیمک کی طرح چاٹتا چلا جارہا ہے ۔

اے اسلام سنا ہے پڑھا ہے تو ہرمعاملہ میں انسانیت کا مدگار ہے ذرا ہمیں اس کام [گداگری ]کے بارے میں ،سوال کرنے کے بارے میں تو کچھ بتا۔

میرے محترم قارئین لیجیے اسلام کا یہ پیغام ہے۔

حضور اکرم نورمجسم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:'' جو کوئی صاحب حیثیت ہونے کے باوجود کسی سے سوال کرتا ہے تو گویا وہ انگارے اکھٹے کررہا ہے چہ جائے کہ وہ کم ہوں یا زیادہ۔''(صحیح مسلم ،کتاب الزکاۃ ،الحدیث:١٠٤١،ص٥١٨،مطبوعہ دار ابن حزم)۔ الامان والحفیظ ۔فی زمانہ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ مانگنے کا کلچر عام ہوتا چلا جارہا ہے حالانکہ یہ کشکول لیے مارے مارے پھرنے والے اچھے خاصے تندرست چاہیں تو کما کر اُوروں کو کھلائیں، مگر انہوں نے اپنے وجود کو بیکار قرار دے رکھا ہے، کون محنت کرے مصیبت جھیلے،بے مشقت جو مل جائے تو تکلیف کیوں برداشت کرے۔ ناجائز طور پر سوال کرتے اور بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں اور بہتیرے ایسے ہیں مزدوری تو مزدوری، چھوٹی موٹی تجارت کو ننگ و عار خیال کرتے ۔مذہبی تہوارجیسے جمعۃ المبارک ،عیدین،رمضان المبارک کی ساعتیں ہوتو ہم دیکھتے ہیں کہ بھکاریوں کا کا سیلاب امنڈ آتا ہے ۔یہ تو وہ گروہ ہے کہ جو بھیک تو مانگ رہا ہوتا ہے لیکن خاص مواقع پر یہ شہروں اور ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں سے انھیں زیادہ سے زیاہ بھیک مل سکے اور ایک وہ گروہ کہ جو ہمیں عموما عام عوامی گزرگاہوں پر ملتا ہے ۔بس اسٹاپ،اسکول وکالج ،تفریحی مقامات ہوں یا کوئی اور جگہ یہ دکھائی دیتے ہیں ۔بھیک مانگنا کہ حقیقۃً ایسوں کے لیے بے عزتی و ذلت کامقام ہے۔
اے خاصہ خاصانِ رسل وقتِ دعاہے
امت پہ تیری عجب وقت پڑاہے

افسوس صد افسوس کہ وہ اسے مایہی عزت جانتے ہیں اور بہتوں نے تو بھیک مانگنا اپنا پیشہ ہی بنا رکھا ہے، گھر میں ہزاروں روپے ہیں سود کا لین دین کرتے زراعت وغیرہ کرتے ہیں مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے، اُن سے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشہ ہے۔ واہ صاحب واہ! کیا ہم اپنا پیشہ چھوڑ دیں۔ حالانکہ ایسوں کو سوال حرام ہے اور جسے اُن کی حالت معلوم ہو، اُسے جائز نہیں کہ ان کو دے۔کیونکہ اگر ہم کچھ لمحے غور و فکر سے کام لیں تو ہم جان جائیں گئے کہ یہ معاشرے کا مفلوج حصّہ ہیں کہ جس سے معاشرے کا اک متحرک طبقہ جو اپنی صلاحیتوں کی بدولت کارہائے نمایاں سرانجام دے سکتا تھا کاہلی اور سستی اور بغیر محنت کے مل جانے پر اکتفا کر کے ملک و ملّت کے لیے بوجھ بنتا چلا رہا ہے ۔یادرکھیں ! ان حالات میں وہ بے چارے ،تنگدستی کے مارے جو حقیقتاً ہماری توجہ کے مصداق ہیں محروم رہ جاتے ہیں ۔یہاں یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ اب ہم جو احادیث آپ کے ذوق مطالعہ کی نظریں کریں گئے یہ ہر سائل کے متعلق نہیں وگرنہ تو پھر ہم زکوۃ و صدقات ،عطیات کسے دیں گئے؟ ۔ بات بات پر مانگنے کے لیے دست دراز ہوجانا ،چھوٹی چھوٹی ضرورتوں پر آنسو بہانے والے ،مانگ مانگ کر جمع کرنے والے ،غربت و تنگدستی کا رونارو کر شکوے کرنے والے ،مال و زر ہونے کے باوجود مال کی کمی کے خوف سے ہر دوسرے کے سامنے آہ وفغاں کرکے پیسے بٹورنے والے ہوشیار ہوجائیں۔

آؤ ہم بیساکھیاں بانٹنا چھوڑیں ،ایک طاقتور ،غیور ،باہمت ،باجرات ،خوددار معاشرے کے قیام کی کوشش کرتے ہیں ۔اپنے حصے کا چراغ روشن کیجیے ۔کسی کے انتظار میں رہے تو کوءی آپ کو بھی انتظار کی نظروں سے تک رہا ہوگا کہ قبلہ یہ کام کرلیں تو میں بھی کرلوں گا۔مثل نہیں مثال بنیں -
چیرمین ورلڈ اسلامک ریوولیوشن
دوٹھلہ ڈبسی نکیال آزاد کشمیر
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 594029 views i am scholar.serve the humainbeing... View More