گلابوں کی سرزمیں یا قبرستان۔۔۔۔؟

سیاچن کا مطلب گلابوں کی سرزمین ہے مگر اس میں آج تک کوئی گلاب نہیں اُگا۔یہ ایک ایسا محاز ہے جہاں کوئی جنگ نہیں ہورہی نہ ہوسکتی ہے۔لیکن ابتک یہاں ہمارے 3 ہزار سے زائد جواں فوجی اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔سیاچن کی گیاری میں پیش آنے والا الم ناک سانحہ جس میں افسران سمیت 124 فوجی اور 11 عام شہری ایک بڑے برفانی توڈے کی لپیٹ میں آگئے پاکستان کی تاریح میں حادثے تو بے شمار ہوئے مگر پاکستانی قوم ان غم زدہ خاندانوں کے دُکھ میں برابر کے شریک اور اُمید لگائے بیٹھی ہے کہ کیا معلوم کہیں کوئی معجزہ رونما ہو جائے مگر کانٹوں سے خشبو اور برف سے گرمی نہیں لی جا سکتی بلاشبہ یہ عسکری تاریح کا بد ترین سانحہ ہے اور ہماری آنکھیں خون کے سرخ سمندر بہا رہی ہیں لیکن حقیقت سے پردہ پوشی ممکن نہیں۔

گیاری سیکٹرمیں ہفتہ 7 اپریل صبح6 بجے 1 کلو میٹر چوڑا اور 80 فٹ موٹاایک برفانی توڈا بٹالین ہیڈ کوارٹر پر گرا اس کیمپ میں کرنل،میجر،کپتان سمیت 135 جوان برف کے جہنم میں نذر ہو گئے۔

سیاچن کے اس حادثے کا آغاز دراصل بھارت نے 1984 میں کیا تھا پھر پاکستان کو بھی دفاع حکمت عملی تحت اپنی فوج سیاچن میں اُتارنی پڑی سیاچن کو دنیا کا سب سے مہنگا ترین اور بلند ترین محاز کہا جاتا ہے۔

پاکستانی فوج اس محاز پر روزانہ ڈیڑھ کروڑروپے،ماہانہ45 کڑوڑ اور سالانہ 5 ارب روپے خرچ کرتا ہے جبکہ بھارت روزانہ 5 کروڑ،ماہانہ ڈیڑھ ارب اور سالانہ 20 ارب روپے خرچ کرتا ہے مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جانی نقصان بھی بھارت کو ہی کئی گناہ زیادہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔1984 سے لیکر ابتک ہم نے 3 ہزار فوجی جبکہ بھارت نے 5 ہزار فوجیوں کی قیمتی جانوں کا نقصان برداشت کیا۔یہاں تک کہ سیاچن میں اب بھی پاکستان کے 4 ہزار 4 سوجبکہ بھارت کے 7 ہزار فوجی جوان موجود ہیں۔

سیاچن دنیا کی دوسری بڑی وادی گلیشئرہے اس کی لمبائی 77 کلو میٹر،چوڑائی 4.8 کلو میٹر جبکہ اونچائی 6166 فٹ ہے اس کے شمال میں قراقرام کا پہاڑی سلسلہ جو پاکستان و چین کی سرحد کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور مشرق میں مقبوضہ کشمیر اور جنوب مغرب میں سالتورورینج واقع ہے یہ گلیشئر درمیان سے ہموار جبکہ اس کے کنارے پھٹے ہوئے ہیں یہ ایک طویل مستطیل شکل کا گلیشئر ہے جو جنوب مشرق سے شمال مشرق کی طرف آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہے شمال مغرب میں کے۔ٹو کی چوٹی اور مغرب میں بالتورو گلیئیشرہے جو سیاچن سے چھوٹا ہے۔سیاچن کی دائیں حد کے ساتھ کنٹرول آف لائن گزرتی ہے اور یہاں سے نکلنے والے دریا نوبرا اور شیوک ہیں نوبرا وادی لداخ کی طرف جبکہ شیوخ کھیلو کے پاس دریائے سندھ سے ملتا ہے ۔

تاریخ کے اوراق پلٹنے پر سیاچن پر بھارت کا کوئی اعتراض نظر نہیں آتا ۔1948 ء میں کشمیر میں جنگ بندی کے بعد جنوری 1949 ء میں کراچی میں ایک معاہدہ کی رو سے کشمیر میں جنگ بندی کی لائن کا تعین کیا گیا مگر باوجود پوائنٹ PTNJ9842 تک لائن لگانے کے سیاچن گلیئشیر تک رسائی ناممکن ہونے کے سبب وہاں کسی کنٹرول یا عارضی سرحدی خط کی نشاندہی نہ ہوسکی چنانچہ یہ علاقہ بغیر کسی نشاندہی کے ہی رہ گیا۔پھر 1953 ء میں پاک چین کمیشن نے پوائنٹ 9842 سے سرحدی خط کھینچ کر درہ قراقرام کے پاس چینی سرحد سے ملا دیا اور اسے لائن آف کنٹرول مان لیا اور سیاچن کا علاقہ پاکستانی حدود میں آگیا جس پر بھارت کوکو ئی اعتراض نہ تھا جس کی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک سیاچن کو پاکستان کا حصہ مانتے تھے تب ' سراڈون ڈکسن' نے جو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں پاکستان اور بھارتدونوں کے مشترکہ نمائندے تھے،نے اپنی سالانہ رپورٹ میں سیاچن کو پاکستانی حصہ قرار دے دیاپھر اس رپورٹ کے بعد بھارتی مصنف ' بی این کینال' نے اپنی کتاب ' مسئلہ کشمیر' میں اسی رپورٹ کو دوبارہ شائع کیا۔پھر ایک مصنف ' راوی را کھیر' نے اپنی دو مشہور کتابوں The Fourth Round اور India vs Pakistan میں سیاچن کو پاکستانی حصہ دیکھایا ہے۔اسی طرح 1980 ء اور 1981 ءمیں شائع ہونے والے انگلش ورلڈ اٹلس اور امریکی ورلڈ اٹلس میں سیاچن کو پاکستانی حصہ قرار دیا گیا اور کوہ پیمائی کے رسالوں میں رہنمائی کیلئے سیاچن کو جانے والا رستہ پاکستان ہی سے بتایا گیا ختہ کہ دنیا بھر سے آنے والے کوہ پیما ان علاقوں میں جانے سے پہلے حکومت پاکستان سے اجازت طلب کرتے تھے 30 سال قبل سیاچن کی تاریخ کا دورہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1957ء میں برطانوی کوہ پیما، 1958ء میں اطالوی اور امریکی ،1961ء آسٹرلین،74,75,76 ء میں 3 جاپانی ٹیمیں اور 82ء میں جاپانی کوہ پیما حکومت پاکستان کی اجازت سے ہی سیاچن کئے تھے۔

1984ء میں شاید کسی خوف و خطر کے باعث بھارت نے اس پر قبضہ کر لیا اور کہا اگر ہم ایسا نہ کرتے تو پاکستان اس پر مسلط ہو جاتا جبکہ اس موقف کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہ تھا حالانکہ ماہرین کے نزدیک زیادہ اخراجات نقل و حمل پر خرچ ہوتے ہیں اور پھر بھارت کے پاس اس محاز پر پہنچنے کا واحد رستہ ہیلی کاپٹر ہی ہیں اسی وجہ سے بھارت کو سیاچن پر قبضہ کر کے اپنی غلطی کا احساس بھی ہے نجانے پھر کس مشورے پر بھارت عمل پیرا ہو کر اس بھاری نقصان کو برداشت کرتا رہا جبکہ پاکستان اور بھارت اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہاں فوج کی موجودگی نہ صرف مالی وسائل کا زیاں ہے بلکہ قیمتی انسانی جانیں بھی داؤ پر لگی ہوئی ہیں اسی وجہ سے بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی 1989ء سیاچن ڈی ملٹرائزیشن کے ایک سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے مگر 3 تکنیکی امور پر بحث چلنے کی وجہ سے اس مسئلے کا حل نہ ہو سکا کہ فوج کو کہاں تک واپس لایا جائے۔موجودہ زمینی صورت حال کو دعوؤں کی روشنی میں کیسے پرکھا جائے۔کسیفریق کو سیاچن کے خالی کردہ علاقوں پر دوبارہ قابض ہونے کیسے روکا جائے۔خیر سیاچن پر دوسری بار پھر سمجھوتے کے آثار 1992ء میں پیدا ہوئے لیکن اسوقت کے بھارتی وزیراعظم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہے۔2006 ء میں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سیاچن کے دورے میں یہ کہا کہ ان پہاڑوں کو ' امن کی پہاڑیوں ' میں تبدیل کر دیا جائے جبکہ سیاچن کو امن پارک میں تبدیل کرنے کی تجویز سب سے پہلے بقائے ماحول کے عالمی انجمن آئی یو سی این کے زیر اہتمام 2003ء میں' عالمی محفوظ علاقوں' کے تحفظ کے حوالے سے جنوبی افریقہ میں منعقد پانچویں ورلڈ پارک کانفرنس میں دی گئی اس کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کے سرکاری نمائندوں کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے مندوبین کی کثیر تعداد موجود تھی اور اگر دیکھا جائے تو سیاچن امن پارک کا تصور دنیا کیلئے نیا نہیں صرف 1980 ء سے 2001تک کے عرصے میں 169 بین السرحدی پارکوں کو محفوظ کیا گیا ہے۔بہر حال بھارت کے جنرل وی آررگھون جو سیا چن میں کمانڈنگ جنرل اور بھارت مذاکرات میں بھی شامل رہے ہیں،نے بھی اس جنگ کو پیسے اور انسانوں کا زیاں قرار دیا ہیاور فریقین کو ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے اپنے دعوؤں کا از سر نو جائزہ لینے کو کہا ہے اور انہوں نے علاقے کو خالی کرنے کا مشورہ دیا ہے حالانکہ اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ علاقہ قدرت کے اُن شاہکار میں سے ایک ہے جس کو دیکھنے کیلئے ہر خاص و عام کی آنکھیں بے تاب ہیں ،جہاں کی جڑی بوٹیاں ،بھورا ریچھ اور جنگلی گلاب انتہائی اہمیت کے حامل ہیں قدرت نے سیاچن کے خوبصورت مناظر اس لیے عطا نے کیے تھے کہ ہم برف کے ان پہاڑوں میں گرمی کا خزانہ ڈھونڈتے پھریں بلکہ یہ تو حیاتیاتی تنوع سے مالامال ہے اور ایک منفرد و مکمل ماحولیاتی نظام کا حامل ہے

لیکن صد افسوس کہ پچھلے 28 برسوں سے اس کے حیاتیاتی نظام میں خلل اندازی جاری ہے اور انسانی سرگرمیوں کے باعث یہاں روزانہ ایک ہزار کلو گرام کوڑا کرکٹ اور فضلہ پیدا ہوتا ہے جسے برف میں دبا دیا جاتا ہے یا آبی زخائر میں بہا دیا جاتا ہے جبکہ منفی درجہ حرارت کے باعث یہ کوڑا تحلیل نہیں ہوتا اسی وجہسے ہمیشہ کیلئے یہ کوڑا اس ماحول کا حصہ بن جاتا ہے اور شاید کبھی یہ بھی سوچا نہ گیا کہ اگر اس کوڑے کی یومیہ مقدار ایک ہزار کلو گرام ہے تو پچھلے 28 برسوں میں یہ مقدار کتنی ہوگئی گویا اس کے نْصان کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے کیونکہ اب تک دونوں ممالک بارود اور کیمکل شامل اس کوڑے کا ایک عظیم پہاڑ برف کے اندر دفن کر چکے ہیں اسی طرح آبی زحائر میں بہا دیا گیا کوڑا ندی نالوں اور دریاؤں سے ہوتا بالآخر دریائے سندھ میں شامل ہو کر ایک عظیم آبی وسیلے کو آلودہ کر دیتا ہے اور دوسری طرف محکمہ موسمیات کے مطابق ملک کے شمالی پہاڑی سلسلوں میں برفانی توڈے عموماًمئی اور جون میں گرتے ہیں-

چونکہ موسم گرما کی وجہ سے برف کا پگھلاؤ شروع ہو جاتا ہے اور پانی کا دراڑوں میں چلے جانے کے باعث کم زور چٹانوں کی شکستگی تودوں کے گرنے کا سبب بنتا ہے لیکن اپریل کے شروع میں توڈے کا گرنا سمجھ سے باہر ہے اور ماہرین کے مطابق گیاری سیکٹر میں ہونے والا سانحے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے اس بار برف باری معمول سے 25 فی صد زیادہ ہوئی تھی اور اس کی مقدار پہاڑوں پر زیادہ ہونے کی وجہ سے برف کے وزن میں اضافہ ہوتا گیا جو اس توڈے کے گرنے کا سبب بنا اور ماہرین کے مطابق آئندہ بھی ایسے واقعات رونما ہونے کا خطرہ موجود ہےلہذا وجہ کوئی بھی ہو ایسا محاز جو صرف اور صرف جانوں کا زیاں ہو وہ محاز ' محاز' نہیں بلکہ قبرستان کہلاتا ہے-

انسانی جانوں کا یوں زیاں پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کیلئے لمحہ فکریہ ہے نہ کہ ' تارے زمین پر'
اور ' گھر میرا چاند پر' جیسے سہانے خواب دیکھیں جائیں جتنی جلد تعبیر پوچھ لی جائے اتنی ہی بہتر ہے -
Usman Butt
About the Author: Usman Butt Read More Articles by Usman Butt: 6 Articles with 5756 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.