ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
پوری ملت اسلامیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قادیانی اپنے کفریہ عقائد کی بنا پر
غیر مسلم ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا: ”قادیانی اسلام اور ملک دونوں
کے غدار ہیں۔“ قادیانیوں کے کفریہ عقائد و عزائم اور علامہ اقبالؒ کے
مذکورہ قول کی روشنی میں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے سابق وزیراعظم
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 7 ستمبر 1974ءکو قادیانیوں کو متفقہ
طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ اس کے بعد 26 اپریل 1984ءکو صدر پاکستان
جنرل ضیا الحق نے تعزیرات پاکستان میں دفعہ 298 بی اور 298 سی کا اضافہ
کرتے ہوئے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے غلط استعمال اور اپنے مذہب (قادیانیت)
کی تبلیغ سے روک دیا۔ بعدازاں پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں (ہائی کورٹس اور
سپریم کورٹ) نے بھی حکومت کے ان فیصلوں کی توثیق کرتے ہوئے نہ صرف
قادیانیوں کو اپنے کفریہ عقائد کی تبلیغ و تشہیر سے منع کر دیا بلکہ اس کی
خلاف ورزی پر سخت سزا بھی مقرر کی۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے
شیزان بیکرز اور ریسٹورنٹس میں جھوٹے مدعی نبوت آنجہانی مرزا قادیانی کی
ایک بڑی تصویر آویزاں ہوتی تھی۔ جس کے نیچے جلی حروف میں ”بفیضانِ نظرحضرت
اقدس مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام“ لکھا ہوتا تھا (نعوذ
باللہ)۔ امتناع قادیانیت آرڈیننس کے نفاذ کے بعد تمام بیکرز اور ریسٹورنٹس
سے یہ تصویر ہٹا دی گئی۔ لیکن شیزان کمپنی بند روڈ لاہور کے اندر واقع جنرل
منیجر کے دفتر میں آج بھی یہ تصویر آویزاں ہے جو قانون نافذ کرنے والے
اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
شیزان کمپنی کا مالک معروف قادیانی چوہدری شاہنواز تھا جس نے اپنی کمپنی کا
نام شیزان اپنے ذاتی نام شاہنواز کے حروف سے نکال کر بنایاتھا۔ 1990ءمیں جب
شیزان کمپنی کا مالک چوہدری شاہ نواز کا انتقال ہوا تو قادیانی اخبار
”روزنامہ الفضل“ نے اس کی موت پر جو تعریفی کلمات کہے، وہ ہر قادیانی نواز
کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں: قادیانی روزنامہ ”الفضل“ لکھتا ہے۔
”احباب جماعت کو نہایت افسوس سے اطلاع دی جاتی ہے کہ مکرم چوہدری شاہ نواز
صاحب 23 مارچ 1990ء کی شب لاہور میں حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے انتقال
فرما گئے۔ آپ کی عمر 85 برس تھی۔ محترم چوہدری شاہ نواز صاحب جماعت احمدیہ
کے مخیر اور مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے احباب میں سے تھے۔
آپ کو روسی زبان میں ترجمہ وطباعت قرآن کریم کا سارا خرچ ادا کرنے کی بھی
توفیق ملی۔ چنانچہ حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ نے جلسہ سالانہ
1983ءکے دوسرے روز 27 دسمبر کو خطاب فرماتے ہوئے محترم چوہدری شاہ نوازصاحب
کا ذکر فرمایا۔
”روسی زبان میں ہم ابھی تک ترجمہ قرآن شائع نہیں کر سکے تھے، اس کے اخراجات
بھی بہت زیادہ اٹھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے محترم چوہدری شاہ نواز صاحب کے دل
میں یہ تحریک ڈالی، انہوں نے کہاکہ وہ روسی زبان میں ترجمہ و نظر ثانی کے
سارے اخراجات ادا کریں گے اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں مزید نیکی کی توفیق
دی .... ایک نیکی دوسری نیکی کو جنم دیتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ
میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں روسی زبان میں قرآن کریم کی طباعت کے بھی
سارے اخراجات ادا کروں گا“ (الفضل 14 جنوری 1984ئ)
اسی طرح خطاب جلسہ سالانہ لندن 1987ءکے موقع پر فرمایا ”مکرم چوہدری شاہ
نواز صاحب کو رشین قرآن کریم کا خرچ پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔“ حضور نے
مزید فرمایا:
”جاپانی زبان کے متعلق چوہدری شاہ نواز صاحب کے بچوں نے اپنے باپ کے علاوہ
یہ پیش کش کی ہے اور اس سلسلے میں بہت سی رقم جمع بھی کروا چکے ہیں۔“ (ضمیمہ
قادیانی ماہنامہ ”خالد“ اکتوبر 1987ئ۔ ص6کالم 2)
قادیانی ”روزنامہ الفضل“ شیزان کے مالک چوہدری شاہنواز کا تعارف کرواتے
ہوئے لکھتا ہے:
”آپ پاکستان کے نمایاں صنعت کاروں میں سے تھے۔ آپ نے نہایت کامیاب تجارتی
ادارے قائم کیے۔ ان میں شاہ نواز لمیٹڈ، شیزان انٹرنیشنل، شاہ تاج شوگر ملز
اور شاہ نواز ٹیکسٹائل ملز شامل ہیں۔“ (روزنامہ الفضل ربوہ، 26مارچ 1990ئ)
شیزان کی مصنوعات استعمال کرنے والوں کے لیے یہ بات لمحہ فکریہ ہے جب
قادیانی مسلمانوں پر پھبتی کستے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قرآن (تذکرہ، مجموعہ
وحی الہامات مرزا قادیانی) کی اشاعت کی رقم مسلمانوں کی جیب سے آئی ہے جو
بڑے شوق سے ہماری مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ
مسلمانوں اور قادیانیوں کے قرآن علیحدہ علیحدہ ہیں۔ مسلمانوں کا قرآن وہ ہے
جوحضور خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوا۔ اس کی حفاظت کا ذمہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ دشمنانِ اسلام کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود
اس میں آج تک معمولی زیرزبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوسکی جبکہ قادیانیوں کا
قرآن ”تذکرہ“ ہے جوجھوٹے مدعی نبوت آنجہانی مرزا قادیانی کی نام نہاد وحیوں
اور الہامات پرمبنی ہے۔ مرزا قادیانی کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کے قرآن کا
ایک حصہ اس پر دوبارہ نازل ہوا۔ قادیانی کمپنی کے مالک شاہنواز نے جو قرآن
روسی یا جاپانی زبان میں شائع کروا کر تقسیم کیا، وہ قادیانیوں کا قرآن
”تذکرہ“ ہے۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 7ستمبر 1974ءکو ملک کی منتخب
پارلیمنٹ نے (مسلمانوں اور قادیانیوں کا تفصیلی موقف سننے کے بعد)
قادیانیوں کو ان کے عقائد کی بنا پر متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔
قادیانی آئین پاکستان کی اس شق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں بلکہ ان کا
دعویٰ یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور باقی لوگ (اہل اسلام) غیر مسلم ہیں
کیونکہ وہ ایک نئے نبی (مرزا قادیانی) کی نبوت کے منکر ہیں۔ دراصل ان کا یہ
دعویٰ ہی فساد کا باعث بنتا اور فتنے کے دروازے کھولتا ہے۔ جو شخص پاکستان
کے آئین کو تسلیم نہیں کرتا، اس کے تحت متعین کی گئی اپنی حیثیت کو نہیں
مانتا، اصولی طور پر وہ آئین کے اندر دیے گئے اپنے حقوق کا مطالبہ بھی نہیں
کرسکتا۔
قادیانیوں کو پاکستان میں ہر قسم کے کاروبارکی مکمل اجازت اور آزادی ہے۔
لیکن وہ اس آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کاروبارکی تشہیر کرتے
وقت شعائر اسلامی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں جو آئین و قانون کی خلاف
ورزی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی توہین کے بھی مترادف ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں افطار کے وقت مسلمانوں کی اکثریت ٹی وی کے
سامنے اذان کا انتظار کر رہی ہوتی ہے تو عین افطار کے وقت قادیانی کمپنی
شیزان کے طرف سے ”روزہ کھولنے کی دعا“ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس سے عام
مسلمان، قادیانیوں کے دجل کا شکار ہو کر شیزان کمپنی کو بھی مسلمانوں کا ہی
ایک ادارہ سمجھتا ہے اور پھر اس کی مصنوعات کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔
اور جب اسے اس کے بائیکاٹ کا کہا جاتا ہے تو وہ تذبذب اور شبہات کا شکار ہو
جاتا ہے۔
اسرائیل میں قادیانی جماعت کی موجودگی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قادیانی
مذہبی نہیں بلکہ ایک خالص سیاسی جماعت ہے۔ یہودی دوسرا بنیا ہے جو کبھی
خسارے کا سودا نہیں کرتا۔ اسرائیل نے قادیانیوں کو اپنے نظریاتی ملک میں جو
مذہبی آزادی دے رکھی ہے، وہ اس کے اصول اور قواعد و ضوابط کے صریحاً خلاف
ہے۔ قادیانی جماعت یہودی ٹکڑوں پر پلنے والا استعماری پٹھو ہے۔ مصدقہ
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج میں کئی سو قادیانی شامل ہیں جو فلسطینی
مسلمانوں پر ظلم و تشدد میں پیش پیش رہتے ہیں۔ قادیانیوں اور اسرائیل کے
باہمی تعلقات اور روابط کا اندازہ قومی اخبارات میں 22 فروری 1985ءکے
”یروشلم پوسٹ“ کے حوالے سے چھپنے والی تصویر سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں
دو قادیانی مبلغوں کو اسرائیلی صدر کے ساتھ نہایت مودب انداز میں ملاقات
کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر میں اسرائیل میں سبکدوش ہونے والے
قادیانی سربراہ شیخ شریف امینی نئے سربراہ شیخ محمد حمید کا اسرائیل کے صدر
سے تعارف کروا رہے ہیں۔ اس موقع پر شیخ شریف نے قادیانیوں کو اسرائیل میں
مکمل مذہبی آزادی دینے پر اسرائیلی حکومت کی تعریف کی اور ان کا شکریہ ادا
کیا۔ یہ تصویر قادیانیوں کی اسلام دشمنی اور یہود دوستی کا منہ بولتا ثبوت
ہے۔ مزید برآں اسرائیلی صدر شیمون پیریز (Shimon Peres) نے ستمبر 2007ءمیں
اسرائیل کے شہر کبابیر (Kababir) میں واقع قادیانی عبارت گاہ کا دورہ کیا۔
اس موقع پر اسرائیلی صدر نے قادیانی جماعت کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے
انہیں بین الاقوامی طور پر ہر ممکن امداد اور تعاون کا یقین دلایا۔ لیکن
حیران کن بات یہ ہے کہ اسرائیل میں مسلمانوں کی کسی کمپنی کو کاروبار کی
اجازت نہیں جبکہ حیفا میں شیزان کمپنی کا سب سے بڑا پلانٹ ہے۔ اس طرح انہیں
نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں کاروبارکرنے کی کھلی اجازت ہے بلکہ اپنی مصنوعات کی
تشہیر کی بھی مکمل آزادی ہے۔ یہ بات مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
شیزان کمپنی سادہ لوح مسلمان دکاندار کو شیزان کی مصنوعات رکھنے پر دوسری
کمپنیوں کے مقابلہ میں مفت ایمپٹی یا زیادہ منافع دینے کا اعلان کرتی ہے۔
جس سے دکاندار لالچ میں آکر نہ صرف اپنی دکان پر شیزان کی تمام مصنوعات
رکھتا ہے بلکہ اپنی دکان کو پینٹ کروا کر شیزان کی تشہیر کا ذریعہ بنا دیتا
ہے۔ ایسے میں اگر آپ کسی کاروبار سے وابستہ یا دکاندار ہیں تو آپ کی دینی
غیرت و حمیت کا تقاضا ہے کہ آپ ہر قسم کے لین دین اور خرید و فروخت میں
قادیانیوں کی تمام تر مصنوعات بالخصوص شیزان وغیرہ کا مکمل بائیکاٹ کریں۔
شیزان گستاخان رسول ﷺ مرزائیوں کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کی آمدنی کا ایک
کثیر حصہ دارالکفر ربوہ جاتا ہے۔ مسلمان اپنی کم علمی کی بنا پر اس کے
مشروبات اور دیگر مصنوعات خرید کر کم از کم 30 پیسے فی روپیہ ربوہ فنڈ میں
جمع کرواتے ہیں اور اس طرح اپنے آقاو مولا حضور خاتم النبیین حضرت محمد
مصطفےٰ ﷺ ، دین اسلام اور وطن عزیز پاکستان کی مخالفت کے بھیانک جرم میں
شریک ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ شیزان کی تمام اشیا حرام کی حیثیت رکھتی ہیں۔
معروف سابق قادیانی مرزا محمد حسین نے ہولناک انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ
شیزان کمپنی کے مالک شاہنواز قادیانی کی خصوصی ہدایت پر اس کی تمام مصنوعات
میں ربوہ کے نام نہاد بہشتی مقبرہ کی ناپاک مٹی بطور تبرک استعمال ہوتی ہے۔
لہٰذا شیزان کی تمام تر مصنوعات اور اس کے دیگر اداروں شیزان ریسٹورنٹ اور
شیزان بیکرز کا مکمل بائیکاٹ ہر غیور مسلمان عاشق رسول ﷺ کا دینی و ملی فرض
ہے۔ اس کے علاوہ شاہ تاج شوگر مل کی تیار کردہ چینی، OCS کورئیر سروس،
ذائقہ بناسپتی گھی، BETA پائپ، شان آٹا، یونیورسل سٹیبلائزر، کمبائنڈ
فیبرکس لمیٹڈ، قائداعظم لاء کالج، بوبی شوز لبرٹی لاہور، NETS کالج وغیرہ
بھی قادیانیوں کے ادارے ہیں۔ یہ ہر سال قادیانی جماعت کو کروڑوں روپے چندہ
دیتے ہیں جو اسلام کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر آپ کی نظر میں
کوئی دوسری قادیانی کمپنی یا آپ کے شہر میں کوئی دکان ہے تو اس کا بھی
بائیکاٹ کیجیے۔ یہ آپ کی دینی غیرت و حمیت کا اوّلین تقاضا ہے۔ یاد رکھیں!
ہر نفع و نقصان کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر آپ کی وجہ سے قادیانیوں کو
منافع اور فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی اسلام دشمن
سرگرمیوں میں مالی طور پر بالواسطہ آپ بھی شامل ہو رہے ہیں۔ یہ چیز آپ کی
آخرت کو برباد کر دے گی۔ لہٰذا اس سے اجتناب کریں۔
تمام مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ اگر آپ کے محلہ یا علاقہ میں کسی
دکاندار نے شیزان کی مصنوعات رکھی ہوں تو اسے نہایت محبت اور احترام سے
شیزان کے بائیکاٹ کے لیے تیار کریں۔ اسے قادیانیوں کے کفریہ اور گستاخانہ
عقائد سمجھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتائیں کہ شیزان کمپنی کے مالکان اس سے
حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک کثیر حصہ قادیانی فنڈ میں جمع کرواتے ہیں
جومسلمانوں کو مرتد کرنے، تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے اور اسلام کو نقصان
پہنچانے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ شیزان کی
مصنوعات رکھنے والے مسلمان دکاندار کے ساتھ کسی قسم کا کوئی سخت رویہ یا
تلخ کلامی اختیار نہ کریں۔ اسے مسلسل پیار اورخوش اخلاقی کے ساتھ حضور نبی
کریمﷺ کی محبت اوردینی غیرت وحمیت کے واقعات سناکر دلی اور شعوری طور پر
شیزان کے بائیکاٹ کے لیے تیار کریں۔ آپ کی تھوڑی سی محنت اور توجہ سے
دکاندار شیزان کا بائیکاٹ شروع کر دے گا۔ (ان شاءاللہ)!
ہمارے بعض مسلمان بھائی شیزان کمپنی میں کام کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہم
مسلمان ہیں اورقادیانیوں کو غیر مسلم سمجھتے ہیں۔ اس لیے انہیں وہاں کام
کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ آج کل روزگار وغیرہ نہیں ملتا۔ شیزان کمپنی
میں کام کرنے والے ہمارے مسلمان بھائیوںکو یاد رکھنا چاہےے کہ رازق اللہ
تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے وسیع و عریض خزانوں میں کسی چیزکی کمی نہیں۔ ساری
دنیا شیزان کمپنی میں کام نہیں کرتی۔ یاد رکھیے جو شخص حضور خاتم النبین
حضرت محمد مصطفیﷺ کی عزت و ناموس کے لیے گستاخان رسول کے خلاف اپنی ملازمت
کی قربانی دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر اپنے رزق کے تمام دروازے کھول دیتا
ہے۔ اللہ تعالیٰ اُسے کبھی رسوا نہیں کرتے۔ اسے زندگی بھر تنگدستی آتی ہے
نہ مفلسی۔
بخاری اور مسلم شریف کی ایک حدیث ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا اچھے اور برُے
دوست کی مثال ایسی ہے جیسے مشک فروخت کرنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی
طرح ہے۔ مشک والا یا تو تجھے یونہی مشک دے دے گا یا تُو اس سے خریدے گا اور
یا کم از کم پاکیزہ خوشبو ہی سونگھ لے گا اور بھٹی پھونکنے والا یا تو تیرے
کپڑے جلا دے گا یا بری بُو تو تجھے سونگھنی ہی پڑے گی۔ یعنی گستاخان رسول
قادیانیوں سے معمولی سا بھی تعلق ہلاکت ایمان کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
لاکھ احتیاط کے باوجود بھی کوئی شخص ان کی نحوست اور لعنت کے مہلک اثرات سے
نہیں بچ سکتا۔ اس لیے ان سے قطع تعلقی بے حد لازم ہے۔ شیزان کمپنی میں کام
کرنے والے مسلمان بھائیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے قیمتی ایمان پر
پڑنے والے قادیانی اثرات سے خود کو کبھی نہیں بچا سکتے۔
بعض حضرات سوال کرتے ہیں کہ آپ لوگ شیزان کابائیکاٹ کرتے ہیں کہ یہ
قادیانیوں کی ملکیت ہے لیکن آپ پیپسی یا کوکا کولا وغیرہ کی مخالفت نہیں
کرتے جبکہ یہ یہودیوں کی ملکیت ہے۔ ان حضرات کو معلوم ہوناچاہےے کہ یہودی
اور عیسائی وغیرہ اپنے کفر کو کفرکے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن قادیانی اپنے
کفر کو اسلام کہہ کر پیش کرتے ہیں۔ وہ خود کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر
کہتے ہیں۔ اُن کاموقف ہے چونکہ مسلمان مرزا قادیانی کو نبی نہیں مانتے، اس
لیے وہ کافر ہیں۔ یہودی اور عیسائی خود جھوٹے ہیں لیکن ان کے نبی حضرت
موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی
ہیں۔ اس کے برعکس قادیانی خود بھی جھوٹے اور اس کاانگریزی نبی آنجہانی مرزا
قادیانی بھی جھوٹاہے۔ ہم پیپسی اور کوکاکولا کے بھی خلاف ہیں کیونکہ اس کی
آمدنی بھی یہودیوں کو جاتی ہےں جواسلام دشمنی میں استعمال ہوتی ہے۔
ہمارے علم کے مطابق شیزان کے قادیانی مالکان نے اپنے ریسورنٹس اوربیکرز کو
فرنچائزڈ کیا ہوا ہے۔ اس میں 10 فیصد حصص ”مسلمانوں“ کے لیے بھی مختص کیے
ہیں تاکہ اس سازش کے ذریعے بھرپور پروپیگنڈا کیا جا سکے کہ شیزان مسلمانوں
نے خرید لی ہے، لہٰذا اس کابائیکاٹ نہ کیاجائے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو
معلوم ہے کہ شیزان کے 10فیصد منافع یا حصص میں شامل تمام لوگ کٹر اور متعصب
قادیانی ہیں۔ان اشخاص کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) منیر نواز (2) محمود نواز (3) امت الحی خالد (4) سی ایم خالد
(5) محمد نعیم (6) محمد نواز تشنہ (7) محمد آصف
یہ ہیں وہ لوگ جن کے بارے میں پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ شیزان کمپنی
مسلمانوں نے خرید لی ہے۔ ہمارا چیلنج ہے کہ اگر ان اشخاص میں سے کوئی ایک
بھی مسلمان ہو تو ہم منہ مانگا جرمانہ اور سزا بھگتنے کو تیار ہیں۔
قادیانی کمپنی کی مکاری، دھوکہ دہی اور دجل ملاحظہ کیجیے کہ انہوں نے محمد
خالد نامی ایک مسلمان شخص کو کمپنی کے ایک فیصد حصص فروخت کرکے اسے شیزان
کا چیف ایگزیکٹو بنا دیا۔ پھر پورے شد و مد سے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ
شیزان کمپنی مسلمانوں نے خرید لی ہے اور اس کا قادیانیوں سے کوئی تعلق
نہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جن مسلمانوں نے شیزان کمپنی خریدی ہے، وہ تمام
قومی اخبارات میں ایک اشتہار کے ذریعے اس کی وضاحت کرتے کہ ہمارا قادیانیوں
سے کوئی تعلق نہیں۔ کمپنی کے مالکان یا اس کے منافع میں کوئی قادیانی شامل
نہیں ہے۔ مزید برآں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے صحافی حضرات کو خرید و فروخت
کی وہ تمام دستاویزات پیش کرتے جس سے ثابت ہوتا کہ انہوں نے شیزان کمپنی
خرید لی ہے تاکہ دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا۔ جبکہ حال ہی میں لاہور بار
ایسوسی ایشن نے اپنے ایک اجلاس میں ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے بار کی
کنٹین پر شیزان کی مصنوعات پر پابندی عائد کی تو قادیانی ایوانوں میں
بھونچال آگیا۔ قادیانی اخبارات و رسائل نے لاہور بار کونسل کے اس فیصلہ کی
شدید مذمت کی اور اس کی آڑ میں مغربی ممالک سے اپیل کی گئی کہ آئین پاکستان
میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے والی ترمیم کو ختم کرنے کے
سلسلے میں حکومت پاکستان پر بھرپور دباﺅ ڈالا جائے۔ سب اہم بات یہ کہ اس سے
اگلے روز قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا مسرور نے شیزان کمپنی کے موجودہ
سربراہ محمود نواز سے فون پر اس قرار داد کی مذمت کرتے ہوئے نہ صرف انہیں
ضروری ہدایات دیں بلکہ دنیا بھر کے تمام قادیانیوں کو حکم دیا کہ وہ شیزان
کی مصنوعات کے علاوہ کسی اور کمپنی کی مصنوعات استعمال نہ کریں۔ ان شواہد
کی موجودگی میں کون آنکھیں بند کرکے یہ کہہ سکتا ہے کہ شیزان کمپنی
قادیانیوں کی ملکیت نہیں ہے۔
چند سال پہلے جب شیزان کے بائیکاٹ کی بھرپور تحریک چلی تو شیزان بیکرز کے
چند ذمہ دار دفتر ختم نبوت آئے اور انہوں نے کہاکہ آپ بے شک شیزان کے
مشروبات اور ریسٹورنٹس کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلائیں لیکن شیزان بیکرز کے
خلاف تحریک نہ چلائےں کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم نے انہیں بڑے احترام سے عرض
کیا کہ لاہور اور کراچی میں درجنوں جگہ شیزان بیکرز ہیں۔ آپ ہمیں ان
مسلمانوں کے نام بتا دیں جنہوں نے قادیانیوں سے شیزان بیکرز وغیرہ خریدی
ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی اور کو نہیں جانتے ہیں لیکن ہم مسلمان ہیں۔ ہم
نے عرض کیا کہ آپ کا اس بیکری میں کتنا حصہ ہے؟ کہنے لگے کہ 10 فیصد۔ ہم نے
پوچھا کہ باقی 90 فیصد کس کا منافع ہے؟ تو کھسیانے ہوکرکہنے لگے کہ
شاہنوازفیملی کا۔ ہم نے کہا کہ وہ تو قادیانی ہیں تو جواب میں کہنے لگے ہم
مسلمان ہیں۔ ہم نے کہا کہ 10 فیصد دودھ 90 فیصد پیشاب میں ڈال دینا کہاں کی
عقلمندی ہے؟ اس پر وہ چپ ہو کر کہنے لگے کہ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم
مسلمان ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ جھوٹے مدعی نبوت آنجہانی مرزا قادیانی کو
کیاسمجھتے ہیں؟ کہنے لگے: آپ اس بحث میں نہ پڑیں۔ ہم نے عرض کیا کہ اصل
مسئلہ تو یہی ہے۔ پھر ہم نے ان سے عرض کیا کہ کیا آپ شیزان بیکرز پر آویزاں
شیزان کامونو گرام تبدیل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے۔ پھرہم
نے اُن سے عرض کیا کہ کیا آپ شیزان بیکرز پر یہ کتبہ لگا سکتے ہیں ”الحمد
للہ ہم مسلمان ہیں، ہمارا قادیانی مذہب سے کوئی تعلق نہیں“۔ کہنے لگے کہ یہ
ناممکن ہے۔ پھرہم نے عرض کیا کہ کیا آپ شیزان بیکرز پر یہ کتبہ آویزاں کر
سکتے ہیں ”ہم قادیانیوں کو پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق غیر مسلم
سمجھتے ہیں“۔ کہنے لگے، ہم ایسا بھی نہیں کر سکتے۔ آخر میں ہم نے اِن سے
عرض کیا کہ یہ سب چیزیں آپ کی حیثیت کو مشکوک بناتی ہیں۔ جس پر وہ بڑے جزبز
ہوکر چلے گئے۔ شیزان بیکرز کے مالکان کا دجل دیکھیے کہ انہوں نے خود کو
مسلمان ظاہر کرنے کے لیے بیکریوں کے باہر بڑے بڑے کتبے آویزاں کیے ہوئے ہیں
جن پر ”انا خاتم النبیین لا نبی بعدی“ لکھا ہوا ہے تاکہ عام لوگوں کو فریب
دیا جائے کہ ہم بھی مسلمان ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس حدیث کے نیچے ترجمہ
غلط لکھا گیا ہے۔ جب گاہکوں نے اس غلط ترجمہ کی نشاندہی کی تو انہوں نے
فوراً ترجمہ کے اوپر کاغذ چسپاں کر دیا۔ آپ کسی بھی بیکرز پر قادیانیوں کا
یہ دجل اور دھوکہ دہی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
قادیانی کمپنی شیزان کے بائیکاٹ کے سلسلہ میں یاد رکھنا چاہیے کہ قادیانی
اسلامی شعائر کو مسخ کر کے اسلام کا مذاق اڑاتے اور مار آستین بن کر
مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو منتشر کرنے کے درپے ہیں۔ وہ اسلام کا لبادہ
اوڑھ کر مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکا ڈالتے اور تمام عالم اسلام اور ملت
اسلامیہ کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ ہر سطح پر مسلمانوں
کو جانی و مالی ہر طرح کا نقصان پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ ان
وجوہات کی بنا پر اسلام ان کے ساتھ سخت سے سخت معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔
رواداری کی اجازت ان کافروں سے ہے جو محارب اور موذی نہ ہوں۔ قادیانی اپنی
شرانگیزیوں کے باعث اس زمرے میں نہیں آتے۔ اسلامی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس
فتنہ کے مکمل قلع قمع کے لیے ضروری اقدامات کرے اور اگر حکومت یہ فریضہ
انجام نہ دے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ان کا مکمل سماجی و معاشی مقاطعہ
اور بائیکاٹ کریں۔ اگر وہ اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے ان کے بائیکاٹ ایسے
ہلکے سے اقدام سے بھی کوتاہی کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ
کے مجرم ہوں گے۔
بائیکاٹ کے سلسلہ میں سیرت کی کتابوں سے ہمیں ایک ایسا اہم واقعہ ملتا ہے
کہ خود حضور نبی کریم ﷺ نے تین کبار صحابہؓ (حضرت کعب بن مالکؓ، ہلال بن
امیہؓ اور حضرت مرارہ بن ربیع ؓ) کی لغزش کی پاداش میں ان کے بائیکاٹ کا
حکم دیا۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے ان کی برات کا اعلان
نہیں ہو گیا۔ اگر صحابہ کرامؓ کا بائیکاٹ ہو سکتا ہے تو مرتدین اور
گستاخانِ رسول قادیانیوں کا بائیکاٹ کیوں نہیں؟
حضرت اُم حبیبہؓ امہات المومنین میں سے تھیں۔ آپؓ کا نام رملہؓ تھا۔
ابوسفیان کی بیٹی تھیں۔ آپؓ کا پہلا نکاح عبید اللہ بن جحش سے ہوا۔ دونوں
نے بعثت کے ابتدائی دور میں اکٹھے اسلام قبول کیا۔ پھر حبشہ کی طرف ہجرت
کی۔ وہاں جا کر خاوند مرتد ہو گیا اور اسی حالت ارتداد میں انتقال کیا۔
حضرت اُم حبیبہؓ نے یہ بیوگی کا زمانہ حبشہ ہی میں گزارا۔ حضور ﷺ نے وہیں
نکاح کا پیام بھیجا اور حبشہ کے بادشاہ کی معرفت نکاح ہوا۔ نکاح کے بعد
مدینہ طیبہ تشریف لائیں۔ صلح کے زمانہ میں ان کے باپ ابو سفیان مدینہ طیبہ
آئے کہ حضور ﷺ سے صلح کی مضبوطی کے لیے گفتگو کرنا تھی۔ بیٹی سے ملنے گئے،
وہاں بستر بچھا ہوا تھا، اس پر بیٹھنے لگے تو حضرت اُمُّ حبیبہؓ نے نہ صرف
ناگواری کا اظہار کیا بلکہ وہ بستر الٹ دیا۔ باپ کو تعجب ہوا کہ بجائے بستر
بچھانے کے اس بچھے ہوئے کو بھی الٹ دیا۔ پوچھا کہ یہ بستر میرے قابل نہیں
تھا، اس لیے لپیٹ دیا یا میں بستر کے قابل نہیں تھا؟ حضرت ام حبیبہؓ نے
فرمایا کہ یہ اللہ کے پاک اور پیارے رسول ﷺ کا بستر ہے اور تم بوجہ مشرک
ہونے کے ناپاک ہو۔ اس پر کیسے بٹھا سکتی ہوں؟ باپ کو اس بات سے بہت رنج ہوا
اور کہا کہ تم مجھ سے جدا ہونے کے بعد بری عادتوں میں مبتلا ہو گئیں۔ مگر
اُمُّ حبیبہؓ کے دل میں حضور ﷺ کی جو عظمت تھی، اس کے لحاظ سے وہ کب اس کو
گوارا کر سکتی تھیں کہ کوئی ناپاک مشرک باپ ہو یا غیر ہو، حضور ﷺ کے بستر
پر بیٹھ سکے۔
ہمیں تنہائی میں بیٹھ کر اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچنا چاہیے کہ کیا ہم
بھی گستاخانِ رسول قادیانیوں کے ساتھ یہی رویہ اختیار کرتے ہیں یا اس کے
برعکس؟ جو لوگ قادیانیوں سے بائیکاٹ کو ظلم کہتے ہیں، ان کے ساتھ خوش
اخلاقی سے پیش آنے اور ہمیں رواداری اور برداشت کا درس دیتے ہیں، انہیں
سوچنا چاہیے کہ کیا وہ ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ سے زیادہ خوش اخلاق، رحم
دل اور اسلام دوست ہیں۔ اگر ہم قادیانیوں کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہیں تو یہ
عین اسلام کے مطابق ہے اور اگر خدانخواستہ ہم گستاخانِ رسول قادیانیوں کو
اپنے بستروں، صوفوں یا کرسیوں پر بٹھاتے ہیں یا ان کی مصنوعات استعمال کرتے
ہیں تو یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمارے دل و دماغ اسلامی غیرت و حمیت سے
خالی ہو چکے ہیں، ذلت اور بے غیرتی پوری طرح ہماری روح میں اتر چکی ہے۔
صاحبزادہ فیض الحسن شاہؒ نے کیا خوب فرمایا تھا: ”جو شخص حضور نبی کریم
علیہ الصلوٰة والسلام کی عزت و ناموس کی حفاظت نہیں کرتا، وہ اپنی ماں اور
بہن کی عزت و آبرو کی بھی حفاظت نہیں کر سکتا۔“ غور کیجیے کہ کہیں ہمارا
شمار ایسے لوگوں میں تو نہیں؟
”حدود و قصاص کا قائم کرنا حکومت کا کام ہے، رعایا کا کام نہیں لیکن اگر
معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہو جائے اور کچھ افراد جرائم و معاصی کا ارتکاب کرنے
لگ جائیں تو ان کو درست اور سیدھا کرنے کے لیے اور معاشرہ کو برائیوں سے
پاک و صاف رکھنے کے لیے جرائم پیشہ افراد سے قطع تعلقی (بائیکاٹ) کرنا، ان
کے ساتھ میل جول، لین دین ترک کر دینا، ان سے رشتہ ناتا نہ کرنا، ان کی
تقریباتِ شادی غمی میں شریک نہ ہونا، ان کو اپنی تقریبات میں شامل نہ کرنا
نہایت ہی پرُامن، بے ضرر اور موثر طرزِ عمل ہے۔ آج سے تقریباً نصف صدی پہلے
تک ہر زمانہ کے مسلمان اسی بائیکاٹ کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کرتے چلے آئے
ہیں۔ چنانچہ شرح مشکوٰة میں ہے کہ صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد والے ہر زمانہ
کے ایمان والوں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے
مخالفوں، دشمنوں کے ساتھ بائیکاٹ کرتے رہے حالانکہ ان ایمانداروں کو دنیاوی
طور پر ان مخالفین کی احتیاج بھی ہوتی تھی لیکن وہ مسلمان خدا تعالیٰ کی
رضا کو اس پر ترجیح دیتے ہوئے بائیکاٹ کرتے تھے۔ (شرح مشکوٰة، جلد 10 ص
290)
یہ بائیکاٹ قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے بلکہ سید عالم ﷺ نے عملی طور پر
بھی اس کو نافذ فرمایا۔ جب غزوہ خیبر میں آپ ﷺ نے یہودیوں کا محاصرہ کیا
اور یہودی قلعہ میں محصور ہو گئے اور کئی دن گزر گئے تو ایک یہودی آیا اور
اس نے کہا اے ابو القاسم! اگر آپ مہینہ بھر ان کا محاصرہ رکھیں تو ان کو
پروا نہیں کیونکہ ان کے قلعہ کے نیچے پانی ہے، وہ رات کے وقت قلعہ سے اترتے
ہیں اور پانی پی کر واپس چلے جاتے ہیں، اگر آپ ان کا پانی بند کر دیں تو
جلد کامیابی ہو گی۔ اس پر سید دو عالم ﷺ نے ان کا پانی بند کر دیا تو وہ
مجبور ہو کر قلعہ سے اتر آئے۔ (زادالمعاد علی الزرقانی، ج نمبر 4 ص 205)
تحفظ ختم نبوت کے کام میں کڑوی باتوں اور ذلت آمیز طعنوں سے بھی آزمائش
ہوتی ہے۔ اس پر صبر کرتے ہوئے کام جاری و ساری رکھنا چاہیے۔ کسی ملامت کرنے
والے کی ملامت سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ یقینا اللہ تعالیٰ غیب سے مدد فرماتے
ہیں۔ جو لوگ تحفظِ ختم نبوت کا کام کرنے والے کارکنوں کی دل شکنی کرتے
ہوئے، ان سے مذاق اور ٹھٹھا کرتے ہیں کہ قادیانی کافر ہونے کے باوجود
مسلمانوں سے کئی درجہ بہتر ہیں، ان کا اخلاق بڑا اچھا ہوتا ہے، وہ بڑے
مہمان نواز اور پڑھے لکھے ہوتے ہیں، وہ وہی کلمہ پڑھتے ہیں جو ہم پڑھتے
ہیں، لہٰذا ہمیں ان کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ مزید برآں جب انھیں قادیانی
مصنوعات بالخصوص شیزان کے بائیکاٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے تو وہ کارکنانِ
ختم نبوت کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیوں جی! کیا شیزان بوتل میں
قادیانی داخل ہو گیا ہے جو ہم اسے پینا چھوڑ دیں اور ان کی دوسری مصنوعات
کا استعمال بھی چھوڑ دیں؟ مفتیان کرام کا کہنا ہے: ”جس شخص نے کہا کہ
قادیانی، مسلمانوں سے اچھے ہیں، وہ خود قادیانیوں سے بدتر کافر ہوگیا،
مرزائیوں کی حیثیت ذمیوں کی نہیں، بلکہ محارب کافروں کی ہے اور محاربین سے
کسی قسم کا تعلق رکھنا شرعاً جائز نہیں۔“
گستاخان رسول قادیانیوں کے خلاف کام کرنے والوں کی مخالفت یا ممانعت کرنے
والوں کے لیے حدیث مبارکہ میں سخت وعید آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: ”جو لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا تمسخر اڑاتے ہیں،
قیامت کے روز ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور ان سے کہا
جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جاﺅ، وہ جب ان کے قریب آئیں گے تو دروازے بند
کر دیے جائیں گے، پھر دوبارہ کھول دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا جنت
میں داخل ہو جاﺅ، وہ جب ان کے قریب آئیں گے تو پھر بند کر دیے جائیں گے،
پھر تیسری مرتبہ کھول دیے جائیں گے اور انھیں کہا جائے گا، جنت میں داخل ہو
جاﺅ لیکن وہ ان کی طرف نہیں آئیں گے، اللہ جل شانہ ان سے فرمائیں گے تم وہ
لوگ ہو جو میرے بندوں کا مذاق اڑاتے تھے، تمہارا حساب سب سے اخیر میں ہوگا،
وہ گرمی میں کھڑے رہیں گے یہاں تک کہ پسینہ میں غرق ہو جائیں گے اور آواز
دیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس جگہ سے نجات دے دیجیے، خواہ ہمیں
نارِ جہنم میں بھیج دیں، حالانکہ انھیں دوزخ کے عذاب کا خوب علم ہوگا لیکن
انھیں اس وقت آگ میں داخل ہونا، اس ذلت کے عذاب سے زیادہ آسان معلوم ہوگا۔“
امام مسلمؒ مرفوع حدیث نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے
کہ ”ہر شخص کو اسی کیفیت پر اٹھایا جائے گا جس پر وہ مرا ہوگا۔“ جو لوگ
عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، فتنہ قادیانیت کی سرکوبی، گستاخانِ رسول ﷺ سے جہاد
اور اسلام مخالف مختلف فتنوں کی شرانگیزیوں کے خلاف جدوجہد کرتے کرتے اس
دنیائے فانی سے کوچ کر جاتے ہیں، قیامت کے دن وہ اس مقدس مشن میں مصروفیت
کی حالت میں اٹھائے جائیں گے۔ اس کے برعکس ایسے لوگ جو گستاخانِ رسول ﷺ
قادیانیوں کے مشروبات پینے، ان کے ریسٹورنٹس میں کھانا کھانے یا ان کے
بیکرز سے سامان خریدنے کی حالت میں آخرت کو سدھار گئے تو وہ اسی حالت میں
اٹھائے جائیں گے.... آپ خود فیصلہ کریں کہ ان میں خوش قسمت کون ہے اور
بدقسمت کون؟ مجاہد ختم نبوت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ جب اُسے موت
آتی ہے تو اس کے ہونٹوں پر تبسم ہوتا ہے جبکہ گستاخ رسول اور اس سے تعلق
رکھنے والوں کے چہرے لعنت الٰہی کے سبب مسخ ہو جاتے ہیں۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ ہمارے شیزان نہ پینے یا ان کے ریسٹورنٹس سے کھانا نہ
کھانے یا ان کے بیکرز سے سامان نہ خریدنے سے قادیانی کمپنی کو کیا فرق پڑتا
ہے؟ ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ آلوسیؒ نے اپنی تفسیر روح
المعانی میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کو پیغامِ حق
سنایا اور راہ مستقیم دکھائی تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ
السلام کے دلائل و براہین سے لاجواب ہو کر اس کو جو ندامت اور ذلت ہوئی، اس
سے وہ سخت غضبناک ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دہکتی آگ میں جلانے
کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا اس کے لیے ایک وسیع و عریض جگہ مخصوص کی گئی اور اس
میں مسلسل کئی روز تک آگ دہکائی گئی جس کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے اور اس
کے اثر سے قرب و جوار کی اشیا تک جھلسنے لگیں۔ آگ کی شعلہ سامانی کا یہ
عالم تھا کہ چڑیوں نے ادھر سے گزرنا چھوڑ دیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ
السلام کو منجنیق میں ڈال کر پھینک دیا گیا۔ کہتے ہیں اس وقت ایک بلبل دور
دراز ایک چشمہ سے اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لے کر آتی اور اوپر اڑتی
ہوئی آگ پر وہ قطرہ گراتی تاکہ آگ بجھ جائے۔ کسی نے پوچھا، اے بلبل: بھلا
تمھاری اس کوشش سے کبھی آگ بجھ سکتی ہے؟ بلبل نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ
”میری اس حقیر کوشش سے آگ بجھے یا نہ بجھے، میں تو فقط دوستی کا حق ادا کر
رہی ہوں تاکہ میرا نام آگ بجھانے والوں میں شامل ہو، آگ لگانے والوں میں
نہیں۔“ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام پر
اپنی سوزش کا اثر نہ کرے اور ناری عناصر کا مجموعہ ہوتے ہوئے بھی میرے نبی
کے حق میں سلامتی کے ساتھ سرد پڑ جائے۔ آگ اسی وقت حضرت ابراہیم علیہ
السلام کے حق میں ”برد و سلام“ بن گئی اور دشمن ان کو کسی قسم کا کوئی
نقصان نہ پہنچا سکا۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے چاہنے والوں کی
کس طرح مدد کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام دہکتی آگ میں سالم و
محفوظ دشمن کے نرغہ سے نکل گئے۔ سچ ہے کہ دشمن اگر قوی است، نگہباں قوی
تراست........اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ باطل کی طاغوتی طاقتوں کے
بالمقابل استقامت کا پہاڑ بن جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی غیبی
امداد کی جاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو غلام سمجھ کر مصر کے بازار میں
فروخت کیا جا رہا تھا تو ان کے خریداروں میں ایسے ایسے امیر و کبیر لوگ بھی
شامل تھے جن کے خزانوں کی چابیاں اونٹوں پر لادی ہوئی تھیں۔ ان خریداروں
میں ایک کمزور اور غریب بڑھیا بھی شامل تھی جس کے پاس صرف سوت کی ایک
معمولی اٹی تھی جس کی قیمت ایک آدھ درہم سے زائد نہ تھی۔ کسی نے بڑھیا سے
پوچھا۔ بی بی! تم اس معمولی سی چیز سے حضرت یوسف علیہ السلام کو آخر کیسے
خریدو گی؟ غریب بڑھیا نے بڑا ایمان افروز جواب دیا، بیٹا: درست ہے کہ میں
بڑے بڑے امیر لوگوں کی موجودگی میں شاید حضرت یوسف علیہ السلام کو نہ خرید
سکوں لیکن میں صرف حضرت یوسف کے خریداروں کی فہرست میں اپنا نام درج کروانے
آئی ہوں تاکہ بارگاہ خداوندی میں مقبول ہو سکوں۔
یہ عقیدت بھی عجب شے ہے کہ اکثر
مفلس کو بنا دیتی ہے یوسف کا خریدار
ہم اعتراف کرتے ہیں کہ حضور خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و
ناموس کے تحفظ اور منکرین ختم نبوت کی سرکوبی کے معاملہ میں ہم مجاہد اوّل
تحفظِ ختم نبوت سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ، جنگ یمامہ کے شہدا اور غازیوں کی
جوتیوں کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتے، ہم تحریک ختم نبوت 1953ءکے شہدا اور
غازیوں کی قربانیوں کے بھی پاسنگ نہیں۔ ہم تو قادیانی مصنوعات کا بائیکاٹ
کرکے صرف بارگاہِ خداوندی میں (اس بڑھیا کی طرح) تحفظِ ختم نبوت کا کام
کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں تاکہ قیامت کے دن
منکرین ختم نبوت کے خلاف جہاد کرنے والوں میں ہمارا شمار ہو جائے اور ہم
شفاعت محمدیe کے حق دار بن جائیں۔
آخر میں قادیانیوں کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بنچ کے ایک تاریخی
فیصلہ کا درج ذیل اقتباس ان لوگوں کی آنکھوں پر بندھی مالی مفادات کی پٹی
کھول دینے کے لیے کافی ہے جو قادیانی مصنوعات کے بائیکاٹ کو ”بیرونی مصلحت“
کے تحت مناسب نہیں سمجھتے۔
” ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو، لازم ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ
اپنے بچوں، خاندان، والدین اور دنیا کی ہر محبوب ترین شے سے بڑھ کر پیار
کرے۔“ (صحیح بخاری) کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھہرا
سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا دل آزار مواد جیسا کہ مرزا قادیانی نے تخلیق کیا ہے
سننے، پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے؟........ اگر کسی
قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا اعلانیہ اظہار
کرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک
اور ”رشدی“ (یعنی رسوائے زمانہ گستاخ رسول ملعون سلمان رشدی جس نے شیطانی
آیات نامی کتاب میں حضور ﷺ کی شان میں بے حد توہین کی) تخلیق کرنے کے
مترادف ہوگا۔ کیا اس صورت میں انتظامیہ اس کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ
کی ضمانت دے سکتی ہے اور اگر دے سکتی ہے تو کس قیمت پر؟ رد عمل یہ ہوتا ہے
کہ جب کوئی قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ، بیج یا پوسٹر پر کلمہ کی نمائش
کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر
اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ اعلانیہ رسول اکرم ﷺ کے
نام نامی کی گستاخی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے
ساتھ ساتھ مرزا قادیانی کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے جس سے مسلمانوں
کا مشتعل ہونا اور طیش میں آنا ایک فطری بات ہے اور یہ چیز نقض امن عامہ کا
موجب بن سکتی ہے، جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کے جان و مال کا نقصان ہو سکتا
ہے۔“ (ظہیر الدین بنام سرکار1993 SCMR 1718ئ) |