اپنی زبان کا علم قوموں کی پہچان
اور اُنکی تہذیبوں کا منبع ہو تاہے۔اگر علم اپنی زبا ن میں حاصل کیا جا ئے
تو قوموں کے بچوں کو مشاہدات، تجربات، تحقیقات اور نتائج حاصل کرنے میں دقت
نہیں ہو تی۔ اپنی زبان کا علم حاصل کرنے میں سب سے پہلے اپنی نسل میں اپنے
گزرے ہوئے مشاہیر ، سائنسدان، دانشور، فلسفی ، ڈاکٹر، انجینئر کی ایجا دات
اور اُنکے کارنامے اگلی نسل کی بقا کو محفوظ رکھنے میں اپنی تہذیب و تمدن
اگلی نسل کے ذہنوں میں بیٹھ جا تی ہے۔ اور وہ نسل اپنے مشاہیر سے محبت کرتے
ہیں۔ اور دوسری اقوام کے مقابلے میں اپنے مشاہیر کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
مگر یہاں گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے۔ ہم پاکستان اپنی تہذیب اپنے علم اپنی
پیاری زبان کو کم حیثیت دے رہے ہیں ۔ مجھے تو ڈر سا لگ رہا ہے۔ کہ چند سال
بعد شاید ہماری آنے والی نسل اُردو سے مکمل طور پر بے بہرہ نہ ہو جا ئے ہم
اس وقت مکمل طور پر مغرب زدہ ہو گئے ہیں۔
مغربی لباس پہننا فخر سمجھتے ہیں۔ مغربی کھا نا کھانا پسند کر تے ہیں۔
مغربی چال ڈھال کو اعتدال پسندی کا نام دیا جا تااور اس میں ترقی کا راز
تصور کرتے ہیں۔
آپ اپنے اردگرد دیکھئے اور جا ئزہ لگائیے ۔ غریب سے لیکر مڈل مین اور اونچے
طبقے کے لوگ اپنی اولا دوں کو انگلش میڈیم سکول میں پڑھنا پسند کر تے ہیں۔
ابو کی جگہ ڈیڈی، ماں کی جگہ مادر،بہن کی جگہ سسٹر،بھائی کی جگہ برادر
یقیناآپ روز انہ ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ اینکرزاور تجزیہ
نگاراُردو کم اور انگریزی زبان کا زیا دہ استعمال کر تے ہیں۔ بد قسمتی سے
آج ہما رے ملک میں مغرب کی طرف سے بے دریغ پیسے دے کر ہما رے نصاب کے اندر
بے شما ر تبدیلیاں کر وارہے ہیں۔ آج ہما رے سکول میں سائن بورڈ پر انگلش
میڈیم کا لفظ نہ لکھا ہو اہو تو اُس کو گھٹیا تعلیمی ادارہ تصور کیا جا تا
ہے۔ آج تو با قاعدہ گورنمنٹ کی طرز پر تعلیمی ادارے کے سر براہ کو ہدایا ت
دی جا تی ہیں کہ اپنے سکو لوں کے سائن بو رڈ ز پر فرینڈلی سکول لکھوائیں۔
یعنی اس کا سب سے پہلا اور بڑا نقصان اُستاد اور شاگردکے درمیا ن فرق کو
دور کیا جا ئے۔ مار نہیں پیا رکے بو رڈ آویزاں کیے جائیں۔
آپ کلا س K.Gسے لیکر ہا ئی لیول پنجاب ٹیکسٹ بو رڈ کا نصاب اُٹھا کر
دیکھیںاُس میں ہر لیول پر اُردو زبان کم اور انگریزی زبان کا استعمال زیا
دہ ہو گااور نصاب میں ایسی تبدیلیاں لا ئی جا رہی ہیں جس سے ہما ری نسل نو
اسلام اور اسلامی تہذیب سے دور ہو جا ئے۔ آپ نصاب کی کتابوں کی ورق گردانی
کریںتو اُس میں زیادہ تر غیر اخلا قی مثالیں اور جنسی جبلت کی بو آئے گی۔
مگر ہم ان تما م چیزوں پر ہزاروں روپے خرچ کرکے فخر محسوس کر رہے ہیں۔کہ ہم
ترقی یا فتہ قوم ہیں۔ جو قوم اپنے سنہری ماضی کو بھول جا تی ہے۔ وہ قوم یا
نسل کبھی ترقی نہیں کر سکتی ہم ترقی نہیں بلکہ تنزلی کی طرف جا رہے
ہیں۔معیشت اور معاشرت سے زیا دہ قیمتی چیز اپنی زبان اپنی تہذیب وتمدن ہو
تا ہے۔ آج ہم اپنی نسل کی تباہی میں خود دستخط ثبت کر رہے ہیں۔
آئیے دیکھئے بر صغیر پا ک و ہند کی تا ریخ اُٹھا ئیں دور برطانیہ سے پہلے
اس خطے پر مسلما نوں کی حکو مت تھی انہوں نے اپنی تہذیب کی حفاظت کی مغلیہ
دور اقتدار میں اورنگزیب مغلیہ دور کے عالمگیر سے بہا در شاہ ظفر لیکر اپنی
تہذیب و تمدن کا تحفظ کیا اُردو کی ترقی و ترویج کیلئے اکیڈیمیاں بنا ئی
گئی ۔ مرزا غالب، خواجہ میر درد،مولا نا الطاف حسین، میر حسن، ڈاکٹر علامہ
اقبال خواجہ حسن نظامی، میر تقی میر،اور بہت سے شعراءاور ادیبوں نے اُردو
زبان دانی اور اُس کی اشاعت کیلئے بڑی عرق ریزی سے کام کیا اور اُن لو گوں
نے حکومتی طور پر اُردو زبان کی ترقی کیلئے بہت جدوجہد کی اور اُن کی
مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ آج تک انگریزی کو وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی
جو ہما ری زبان کو حاصل ہے۔مگر مو جودہ 20سالہ دور میں اس خطہ میں اب اُردو
زبان ے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جا رہا ہے۔ آج ہم اپنی زبان کم اور
انگریزی کو زیا دہ پسند کر تے ہیں۔(پی ایل آئی) |