جب سے ایک امریکی نجومی نے یہ
انکشاف کیا ہے کہ 2020ءتک پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا بس تب سے
امریکہ اور اسرائیل کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں مذہب اسلام اور
مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا تب سے امریکہ کا مشن نمبر ون ہے اگر مسلمان
غفلت کی نیند سے جاگ جائیں اور ذرا غور فرمائیں تو پتہ چلے گا کہ امریکہ
ہماری نااہلی اور نا اتفاقی کی وجہ سے کس طرح اپنی منزل کے قریب ہوتا جا
رہا ہے افغانستان اور فلسطین میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کے خون سے بھی جب
ان کی پیاس نہ بجھی تو انہوں نے عراق ،لیباء،مصر،شام اور تیونس کی طرف اپنا
رخ موڑ لیااور اپنی مکارانہ ،منافقانہ پالیسیوں اور چالاکیوں سے ایک خدا ،ایک
رسولﷺ اور ایک کتاب پر یقین رکھنے والے مسلمانوں میں ایسا تعصب پیدا کیا کہ
مسلمان کو ہی مسلمان کا دشمن بنا دیا اور خون ریزی کا ایسا بازار گرم کیا
کہ آج بھی ان ممالک کی گلیوں اور سڑکوں پر خون ہی خون بہتا نظر آتا ہے اور
نہ جانے یہ ناحق خون کب تک ایسے ہی بہتا رہے گا اس کا کوئی اندازہ نہیں۔
پوری دنیا میں اپنے آپ کو انسانیت کا علمبردار کہلوانے والا اور امن کے راگ
الاپنے والا امریکہ اصل میں دنیا کاسب سے بڑا غندہ اور انسانیت کا قاتل ہے
افغانستان،فلسطین ،عراق، شام، لیبیا،مصر ،تیونس کے بعد جب امریکہ نے گلف
ممالک،کویت ،بحرین،عمان، یو۔اے۔ای،اور سعودی عرب میں بھی عراق، لیبیااور
مصر جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی تو تب ہی یہ خدشہ ظاہر ہو رہاتھا کہ
امریکہ کا عرب ممالک کی طرف بڑھتا ہو جُھکاﺅ نہ صر ف تیل کی غرض کے لیے ہے
بلکہ وہ اسلام کے خاتمے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے مکہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس مقامات پر حملہ کرنے کی سازش کر رہا ہے
اورامریکہ کی اسی ناپاک خواہش کا واضع ثبوت امریکی فوجی عہدیداروں کے نصاب
میں شامل مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد نے ثابت کر دیا ہے کیونکہ
امریکی فوجیوں کو کورس میں یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ امریکہ کا دشمن بنیادی
طور پر اسلام ہے اور اس دنیا سے اسلام کے خاتمے کے لیے انسانی ہلاکتوں کی
پرواہ کیئے بغیر نیوکلیر اسلحہ کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے انتہائی
مقدس مقامات مکہ اور مدینہ کو (نعوذباﷲ)نیست و نابود کردینا چاہیے جس سے
اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے گا ۔امریکہ کے فوجی کورس میں مذہبی
نفرت اور تعصب پر مشتمل یہ نصاب ایسے وقت میں شامل کیا گیا ہے جب کہ دہشت
گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلام کو نشانہ بنانے متعد د گوشوں سے کی جانے
والی تنقیدوں پر امریکی حکام بارہا دعویٰ کررہے ہیں کہ ان جنگ مذہب اسلام
کے خلاف نہیں بلکہ اسلامی انتہاپسندوں کے خلاف ہے۔ورجینیا کے جوائنٹ فورس
اسٹاف کالج میں گزشتہ سال جولائی میں اس کورس کی تربیت دیتے ہوئے انسٹرکٹر
لیفٹینٹ کرنل میتھیو ڈولے نے کہا کہ وہ مسلمانوں کے ہر اُس عمل سے نفرت
کرتا ہے جو اُن کے ساتھ منسوب ہے اور مسلمانوں کے ساتھ اس وقت تک میل ملاپ
نہیں کریں گے جب تک آپ مغلوب نہ ہوجائیں اور ڈولے نے یہ بھی کہا کہ جنیوا
کنونشن کی اب کوئی اہمت باقی نہیں رہی جس کا مطلب ہے جہاں کہیں بھی ضرورت
ہو شہری آبادیوں پر جنگ شروع کرنے کا امکان ایک بار پھر کھل جاتاہے ڈولے نے
مزید کہا کہ ٹوکیو،ہیر و شیما اور ناگاساکی پر تباہ کن حملہ کیا گیا تھا
ویسا ہی حملہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر بھی کیا جا سکتا ہے۔کرنل
میتھیوڈولے کے اس لیکچر کی ایک نقل wired.com کے ڈینجر روم بلاگ میں آن
لائن بھی موجود ہے۔فوجی خدمات کے ریکارڈ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق
ڈولے کا تقرر مئی 1994میں سیکنڈ لیفٹنیٹ کی حشیت سے عمل میں آیا تھا اور وہ
اس دوران جرمنی ، بوسنیا ،کویت اور عراق کا دورہ بھی کرچکا ہے ۔ اسلام کے
متعلق یہ نفرت انگیز کورس 2004ءسے ہی سکھایا جارہے لیکن اسے اہم نصاب کا
حصہ نہیں بنا یا گیا یہ کورس سال میں پانچ مرتبہ کرایا جاتاہے اور ہر کورس
کے لیے صر ف بیس اُن خصوصی طلبہ کو ہی منتخب کیا جاتا ہے جن کے اندر پہلے
ہی اسلام کے خلاف تھوڑی بہت نفرت پائی جاتی ہے یہ سارا معاملہ سائٹ کے
ذریعہ منظر عام پر آتے ہی پینٹگان نے کورس معطل کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن
اس سے پہلے وہ اس سارے معاملے سے اپنی لاعلمی ظاہر کر رہے ہیں وہ لوگ جو
اپنے ملک میں بیٹھ کر دوسر ے ممالک میں ڈرون حملے کروا سکتے ہیں تو یہ کیسے
ممکن ہوسکتا ہے کہ ان کو اس بات کی خبر نہ ہو کہ سالوں سے ان کے سکولوں میں
کیسی تعلیم دی جارہی ہے ۔اب جب کہ ڈیمپسی نے اس واقعہ پر اپنے ردعمل میں
دعویٰ کیا ہے کہ نا رفولک ، ورجینیا کے فوجی کالج کا یہ تربیتی کورس مذہبی
آزادی اور تہذیبی شعور کے لیے امریکی ستائش کے برخلاف ہے۔ڈیمپسی کو یہ
اعتراف کرنا پڑا کہ یہ کورس مکمل طور پرناقابل اعتراض اور خود امریکی اقدار
کے خلاف ہے اور اکیڈمی کی سطح پر بھی درست نہیں لیکن اب ڈیمپسی کا دعوی ٰ
کوئی معنی ٰ نہیں رکھتا کیونکہ برسوں تک سینکڑوں امریکی فوجی عہدیداروں کے
دلوں میں کورس کے ذریعہ اسلام کے خلاف نفرت کا بیج بودیاگیاہے۔امریکہ ،مشرق
وسطیٰ ،شمالی افریقہ اور جنوبی مشرقی ایشیا میں مسلمانوں کا اتحادی ہے اس
لیے امریکہ کو چاہیے کہ وہ تمام اسلامی ممالک کو اس بات کی یقین دہانی
کرائے کہ ایسے پرتشدد نظریات کے حامل نصاب کو حکومتی حمایت حاصل نہیں ہے
اور عالمی برادری کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اوبامہ حکومت کو مجبور کرے
کہ وہ اُمت مسلمہ سے اس معاملے پر معذرت کرے۔پیار محبت ،امن، دوستی کا
پرچار کرنے والے امریکہ کا اصلی چہر ہ اب بالکل بے نقاب ہو چکا ہے اور
یقینا اس سے امریکہ نے اپنی باقی رہی سہی اخلاقی قد ر بھی کھو دی ہے ۔
امریکہ اس خوش فہمی میں مبتلانہ رہے کہ وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر
حملہ کرنے اپنے ناک پاک امقصد میں کامیاب ہو سکتاہے کیونکہ یہ وہ مقدس
مقامات ہیں جو پوری اُمت مسلمہ کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں اور کسی
میں اتنی ہمت نہیں کہ کوئی بھی ان مقدس مقامات کی طرف میلی آنکھ اُ ٹھا کر
بھی دیکھ سکے۔ اگر امریکہ اپنے ناپا ک ارادے ترک نہیں کرتا او ر بے گناہ
مسلمانوں کے قتل عام سے بعض نہیں رہتا توپھر امریکہ یاد رکھے کہ یہ اُس کی
آخری غلطی ہوگی کیونکہ اس سے پوری دنیا میں ایک ایسی جنگ برپا ہوجائے گی جس
کا اختتام پھر روز قیامت ہی ہوگا۔
نہ گھبراﺅ مسلمانوں خدا کی شان باقی ہے، ابھی اسلام زندہ ہے ابھی قرآن باقی
ہے
یہ کافر کیا سمجھتے ہیں جو اپنے دل میں ہنستے ہیں، ابھی تو کربلا کا آخری
میدان باقی ہے |