اس نوجوان کے چہرے پرمحصور کن
وتازگی ہر وقت موجود رہتی۔ اس کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی کہ کوئی اس کی
تاب نہ لاسکتا تھا۔ اس کابانک پن اور اس کی جوانی عام نوجوانوں سے ہٹ کرتھی۔
اس کے روشن چہرے سے ایک پر کشش مسکراہٹ ہر آنے جانے والوں کو اپنے حصار میں
مبتلا کردیتی۔ وہ بالکل میرے پاس والے گھر میں رہتا تھا۔ استفسار پر معلوم
ہوا کہ وہ اپنے گاﺅں سے راولپنڈی شہر پڑھنے کے لئے آیا ہے ۔ آتے جاتے کبھی
کبھار اس سے بات چیت بھی ہوجاتی۔ جس طرح کی صورت ، اسی طرح کی سیرت بھی
پائی تھی۔ بلاکا خوش مزاج اور جس جوش سے دوسروں کی مدد کوبڑھتا، لگتا تھا
کہ وہ نیکی میں دیر کرنے کا ہر گز قائل نہیں۔ میں نے جب بھی اسے دیکھا
دوسروں کا بوجھ بانٹتے ہوئے ہی نظر آیا۔اس کے حسن اخلاق اور جذبہ خدمت کا
ہر کوئی معترف ہوگیا تھا۔
پھر اچانک وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔چونکہ وہ چپکے سے ہر کسی کے دل میں جا
بسا تھا، اس لئے اس کی عدم موجودگی کو سب نے محسوس کیا۔ اس کے ایک رشتہ دار
نے بتایا کہ وہ تو فوج میں بھرتی ہوگیا ہے۔ ایک شخص نے کہا: بھئی یہ تو اس
نے اچانک ہی قدم اٹھایا ہے ہمیں تو اس نے اپنے اس عزم کی ہوا بھی نہیں لگنے
دی۔ دوسرے نے کہا اس کا قد کاٹھ اور بھرپور جوانی فوج کی ہی امانت ہے۔ وہی
وہ کامیاب ہوگا۔ فوج میں شمولیت پر ہرکوئی اپنی رائے دے رہا تھا مگر میں ان
کی سرگوشیوں کے دوران ہی اس نوجوان کی نظروں کا تصور کرکے کہیں دور جانکلا
تھا۔ اب پر اس کی آنکھوںمیں موجود چمک اور اس کے سراپے میں موجود بے کلی کی
حقیقت کھلنا شروع ہوگئی تھی۔ وہ تو کسی اور ہی منزل کا مسافر تھا۔ فوج میں
شمولیت اختیار کرنا تومحض اس منزل کی طرف پہلا قدم تھا۔ میں نے پوچھا: وہ
کون سی رجمنٹ میں گیا ہے۔ جواب ملا پنجاب رجمنٹ۔
قارئین! پنجاب رجمنٹ پاک فوج کی سب سے سینئر رجمنٹ ہے ۔ بہادری کا سب سے
بڑا اعزاز”نشانِ حیدر“ حاصل کرنے والے 10میں سے چار دلیروں کا تعلق اسی
رجمنٹ سے ہے۔جن میں کیپٹن سرور شہید، میجر طفیل محمد شہید، میجر عزیز بھٹی
شہید اور لانس نائیک محفوظ شہید شامل ہیں جنہوں نے مختلف محاذوں پر دفاع
وطن کا فریضہ انجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور اپنی بہادری کے وہ
انمٹ نشان چھوڑے جن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج بھی ہمارے افسر اور جوان
پاکستان کے دشمنوں کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے میں مصروف ہیں۔ وہ
قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھ کر ہماری آزادی کو دوام بخش رہے ہیں۔ پاک فوج
جہاں بیرونی سرحدوں کا دفاع کررہی ہے اسی طرح گزشتہ ایک دہائی سے وطن عزیز
کے اندر ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے بھی برسرپیکار ہے۔ دہشت
گردی کی جنگ اس حوالے سے انتہائی پیچیدہ ہے کہ اس میں آپ دوست اور دشمن کی
پہچان نہیں کرسکتے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہی یہ دہشت گرد اسلام کے داعی
اور اصل پیروکار ہونے کا تو دعویٰ کرتے ہیں مگرعملی طور پر فساد بپا کرنے
میں بھی مصروف ہیں۔ وہ اپنے ہی تراشے ’اسلام ‘ پر عمل کرنے والوں کو اپنا
ساتھی اور باقی سب کو کافر تصور کرتے ہیں اور اقلیت میں رہ کر اکثریت پر
قابو پانا چاہتے ہیں۔ بم دھماکوں، خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے
مسلمانوں کا ہی خون بہا رہے ہیں۔ انہوں نے اسلام کے قلعے پاکستان کو ہلا
کررکھ دیا ہے۔ اللہ اکبر کا نعرہ لگانے والی اور سبز ہلالی پرچم بلند کی
امین فوج ان کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ اس گروہ نے پاکستان کے خوبصورت شمالی
علاقوں کو موت کی وادی میں تبدیل کرکے رکھ دیا اور کچھ ہی عرصے بعد حکومت
کی رٹ کو للکارنا شروع کردیا۔ سیاسی پارٹیاں ان کے آگے بے بس ہوگئیں۔ سول
انتظامیہ کو انہوں نے عضو معطل بنا دیا۔ ان حالات میں پاک فوج کو وہاں ذمہ
داریاں سونپی گئیں۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں اس خوبصورت نوجوان نے پاک فوج میں شمولیت اختیار
کی تھی۔ اس کا نام محمد عدنا ن تھا ۔ پنجاب رجمنٹل سنٹر مردان سے فوجی
تربیت مکمل کرنے کے بعد جب سپاہی اس کے نام کا حصہ بنا تو وہ پھولے نہیں
سما رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس نے اپنے لئے جو رستہ چنا ہے وہ خطرات سے
بھرپور ہے۔ دوران تربیت ہی اسے اور اس کے ساتھیوں کو معلوم ہوچکا تھا کہ
میدانِ جنگ ہی ان کا پہلا پڑاﺅ ہوگا۔ وہ میدان جنگ جہاں دشمن اپنوں کے روپ
میں ان پر وار کرے گا۔ جہاں ان کے ذہنوں کو طرح طرح کے اندیشوں میں مبتلا
کیا جائے گا۔ جہاں براہ راست جنگ کے ساتھ ساتھ انہیں اعصابی و نفسیاتی جنگ
کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ وطن عزیز کی خدمت کے جس جذبے کو لے کر وہ پاک فوج
کا حصہ بنے تھے، اس کے تحت وہ اس طرح کے کسی بھی طوفان سے ٹکرا جانے
کابھرپور عزم رکھتے تھے۔
سپاہی محمد عدنان کو69 پنجاب رجمنٹ میں تعینات کیا گیا جو اورکزئی ایجنسی
میں دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما تھی۔ دہشت گردگھات لگا کر حملہ کرتے اور
وادی کی بھول بھلیوں میں غائب ہوجاتے۔ یونٹ کے افسروں اور جوانوں نے وہاں
سے دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے دہشت گردوں کو کیفر
کردار تک پہنچایا ۔ انہوںنے دہشت گردی کے بہت سے نیٹ ورک توڑے جس پر دہشت
گرد سٹپٹا کررہ گئے تھے اور جوابی حملوں کے لئے پرتول رہے تھے۔ یونٹ نے بہت
سے علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کرکے وہاں اپنی چوکیاں قائم کرلیں تھیں
جہاں اس کے جوان ہر وقت مستعد اور ہوشیار رہتے۔ یہ 21دسمبر کی صبح کا واقعہ
ہے۔ 400 کے قریب دہشت گردوں نے مختلف اطراف سے یونٹ کی پوسٹوں پر حملہ
کردیا۔ سپاہی عدنان کی پوسٹ بھی حملے کی زد میں آگئی۔ انہوں نے اپنے مورچے
میں مستعدی سے جوابی فائرنگ شروع کردی۔ ان کے پاس مشین گنوں کے علاوہ ہینڈ
گرنیڈز اور راکٹ لانچر بھی موجود تھے۔ مگر وہ پاک فوج کے جوانوں کی مستعدی
اور دلیری کے سامنے بے بس نظر آرہے تھے۔ شدید مزاحمت کے بعد ان کے حملے کی
شدت میں بھی اضافہ ہوگیا۔ دہشت گردوں نے مورچوں کو تاک تاک کر نشانہ بنانا
شروع کردیا۔ اسی دوران گولیوں کی ایک بوچھاڑ سپاہی عدنان کے سینے کو چیرتی
ہوئی گزر گئی۔ شدید زخمی ہونے کے باوجود اس نے مزاحمت جاری رکھی ۔وہ خون کی
آخری بوند تک دہشت گردوں کے خلاف ڈٹا رہا اور آخر کار زخموں کی تاب نہ لاتے
ہوئے وہ منزل حاصل کرلی جس کی وہ تمنا رکھتا تھا۔ جس وقت اس دلیر سپاہی نے
جان جان آفرین کے سپرد کی اس وقت اس کی عمر20سال تھی۔
شہادت کی خبر اس کے آبائی گاﺅں پہنچی تو اس کے والد امیرخان کی زبان پر
الحمداللہ کے الفاظ تھے۔ وہ بھی پاک فوج سے بطور نائیک کلرک ریٹائر ہوئے
تھے اور اپنے بیٹے کی شہادت صبرو شکر کا مجسمہ بنے ہوئے تھے۔ شہیدکا گاﺅں
راولپنڈی سے 70کلومیٹر فاصلے پر کڑائی کے نام سے جانا جاتا ہے۔مشہور قصبہ
چکری سے اس کا فاصلہ تقریباََ 30کلومیٹر ہے۔ اس چھوٹے سے گاﺅں کے لوگوں کا
ذریعہ معاش تو زمینداری ہے لیکن حسب روایت اکثر گھرانوں کے چشم و چراغ پاک
فوج سے وابستہ ہیں۔ اس طرح دفاع وطن میں اس علاقے کے بیٹوں کا کردار سب سے
نمایاں رہا ہے۔ گاﺅں کے ساتھ ہی ایک قبرستان ہے جہاںقومی پرچم میں ملبوس
شہید کے جسدِ خاکی کو لایا گیا تو پاک فوج کے ایک چاق چوبند دستے نے اسے
سلامی پیش کی۔ شہید کے نمازِ جنازہ میں لوگوں کا ایک جمِ غفیر امڈ آیا تھا۔
ہوا کے پرکیف جھونکوں نے شہید کے گاﺅں کو حصار میں لے رکھاتھا اور ہر کوئی
شہادت کے لہو کی مہک کو محسوس کررہا تھا۔ اس موقع پر شہید کے والد نے جو
مختصر سی تقریر کی اس نے فضا کو اور بھی گرما دیا ۔ جواں سال بیٹے کی جدائی
کے باوجود ان کا حوصلہ بلند اور وطن کی محبت سے سرشار تھا۔ اس بلند ہمت باپ
نے کہا: ”مجھے بیٹے کی جدائی کا دکھ ضرور ہے مگر مجھے اس کی وطن کے لئے
شہادت اور بھی اچھی لگی“۔ اس دوران شہید کے جسدِ خاکی کو وطن کی مٹی میں
اتاردیا گیا۔شہید کی آخری آرمگاہ پر سبز ہلالی پرچم جس سرشاری اور شان سے
لہرا رہا ہے وہ اس گاﺅں ، اس شہر اور اس ملک میں بسنے والے ہر شخص کے لئے
باعث فخر ہے اور ہم سب کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ سپاہی محمد عدنان جیسے
ایسے کئی جوانوں نے اس کی سربلندی کے لئے جو خدمات دیں ہیں، ہم بھی ان کے
نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے وطن کی آزادی اور وقار کے لئے کسی بھی قربانی سے
دریغ نہیں کریں گے۔ |