آزاد کشمیر میں تین روز

میرے جیسے مسافروں کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی مرکزی عاملہ کے اجلاس میں شرکت کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ مختلف علاقوں کی روایات دیکھنے ،ان کے مسائل سے براہ راست آگاہ ہونے اوران کے معاملات کا جائزہ لینے کا موقع مل جاتاہے۔کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے کہ”مشکلیں پڑی مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں“ کے مصداق ہمیں وہاں ڈھائے جانے والے بھارتی فوج کے مظالم محسوس ہی نہیں ہوتے، کہ شہادت،اغوا اور تشدد کی خبریں اب معمول ہیں، اور مصروف زندگی میں اب ہر کوئی آگے دیکھتا ہے پیچھے کسی کی نظر نہیں جاتی، کہ تیز رفتار قافلوں کی اڑائی ہوئی دھول میں بھلا دکھائی بھی کیا دے گا۔

آزاد کشمیر کی خوبصورت وادی راولا کورٹ دنیا میں جنت سے کم نہیں، اس کا ایک ایک منظر دل میں اترجاتا ہے، بنجوسہ ہو یا تولی پیر ، دیکھیں تو بس دیکھتے ہی جائیں، منظرد ایک سے بڑھ کر ایک منظر دلکش۔ لوگ ملنسار اور گرم جوش، ہوش مند اورباخبر، اپنے مقصد پر کاربند اور نظریات پر یکسو۔ مناظر کو دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت پر حیران رہ جائیں، وہاں کے باسیوں کی باتیں سنیں تو دلوں میں بڑھکتی آگ کے شعلے سمیٹے اور چھپائے ہوئے۔ پہاڑوں کا سبزہ ، موسم کی خنکی ، وادیوں کے حسن کو دوبالا کرتے سفید بادلوں کے ٹکڑے، سبز پہاڑوں کے عقب سے اٹھتی کالی گھٹائیں، چھم چھم برستی بارش، بارش کے بعد وادیوں میں شور مچاتے جھرنے، سردیوں میں سبزے پر سفید چادر بچھادینے والی برفباری بھی کشمیریوں کے دلوں میں لگی آگ کو ٹھنڈا نہیں کرسکتے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ کشمیریوں کے جذبات شعلوں کی مانند ان کی باتوں سے لپکتے ہیں،یقینا اس کے پیچھے وہ قربانیاں ہیں جو انہوں نے اپنی آزادی کے لئے دے رکھی ہیں اور ابھی دے رہے ہیں۔ پی ایف یوجے کی مرکزی عاملہ کی آزادجموں کشمیر کے صدر سردار یعقوب سے ملاقات ہوئی، سپیکر سے ملے(ان دونوں حضرات کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے)، مسلم کانفرنس کے سردارعثمان عتیق سے ملنے کا موقع ملا، جماعت اسلامی کے سردار اعجاز افضل خان سے نشست ہوئی، آزادجموں کشمیرپیپلز پارٹی (یاد رہے کہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی نہیں)کے سربراہ سردار خالدابراہیم سے سننے سنانے کا موقع ملا، ان میں سے کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ تھا، جس نے کشمیریوں کی قربانیوں کا ذکر نہ کیا ہو، ان کشمیریوں کو یاد نہ کیا ہو جب زندہ انسانوں کی کھالیں کھینچی گئیں، مگر انہوں نے غلامی قبول کرنے سے انکار کردیا۔

مذکورہ بالا تمام لوگ (ماسوائے حکومتی پارٹی کے ، کہ ان کی مجبوریاں اور ہوتی ہیں) تمام قائدین نے پاکستان کی بھارت نواز پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی، ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو ہی اپنا وطن سمجھتے ہیں، کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ہی الحاق چاہتے ہیں، پاکستان کے احسانات کے بھی معترف ہیں، مگر آخر بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازع فریق تو ہم ہی ہیں،ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے سے قبل ہمیں بھی اعتماد میں لینا چاہیئے۔ بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں، اس کے ساتھ تجارت کریں، اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دیں ، مگر یہ سب کچھ کشمیریوں کی قربانیوں کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے، ہمارے لاکھوں شہیدوں کے لہو کی فروخت ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔

کشمیریوں کے جذبات میں کرب ہے، وہ پاکستان کی محبت ، یہاں کے لوگوں کے پیار ، پاکستانی حکومتوں اور عوام کی طرف سے تعاون پر جہاں خوش ہیں وہاں ان کے دل کرچی کرچی بھی ہیں، کیوں نہ ہوں کہ اپنوں کے دیئے گئے زخم زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں، دشمن سے تو کسی بہتری کی توقع ہی کیا ، مگر جب اپنے جڑیں کاٹنے لگ جائیں تو پھر دشمنوں سے کیا گلہ؟ پاکستان کو کشمیر میں ٹورازم پر توجہ دے کراپنے اور کشمیریوں کے زرمبادلہ میں اضافہ کا سوچنا چاہیے، نہ کہ شہدا کے بڑے بڑے قبرستانوں کے وارثوں کے زخموں پر نمک چھڑک کر ان کی تکلیفوں اور کرب میں اضافہ کرنا چاہیئے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472210 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.