شميسة خلوي – الجزائر
ترجمہ اشتیاق عالم فلاحی
بسم الله الرحمن الرحيم، وبه نستعين، والحمدُ للِّه ربِّ العالمين، وصلَّى
اللَّه على سَيِّدنا محمَّد خاتمِ النبيِّين، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اییک بار فرمایا تھا: «إِنَّ المُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ
بَعْضُهُ بَعْضًا» ﴿مومنین کی مثال آپس میں ایسی ہے جیسے کوئی عمارت ہو کہ
اس کے اجزاء باہم ایک دوسرے کو تقویت پہونچاتے ہیں﴾۔
درد و غم کے جذبات کے ساتھ آج میں یہ الفاظ دہرا رہی ہوں: " اے ارض فلسطین!
روئے زمین کے ہر مسلمان کا دل تیرے قضیہ کے درد سے چور ہے، ہر مومن کی
آنکھیں اشکبار ہیں، ہر مومن کی زبان پر تیرے لیے یہ الفاظ ہیں کہ: فلسطین
یقیناً میرے عرب وطن کا حصہ ہے لیکن اس سے پہلے اطراف و اکناف میں پھیلے
میرے اسلامی وطن کا حصہ ہے۔ اے فلسطین ہر مومن کے کاندھے پر تیرا حق ہے،
واجبی حق ہے، ہر کسی کے کاندھے پر تیری ذمہ داری ہے، جس کی ادائگی لازمی
ہے"۔
ہاں اے فلسطین، تو میرے وسیع اسلامی وطن کا ایک گوشہ ہے، تمہارے سائے میں
میرے بہت سے ایسے بھائی رہتے ہیں جو پنجہٴ یہود کے استبداد کا شکار ہیں۔
آہ! تیرے حق کی ادائیگی، اور تیری مدد کے فرض میں ہم نے کتنی کوتاہی کی
ہے!!۔
یہ مصیبت جو صرف فلسطین کی نہ تھی، بلکہ پورے عالمِ عرب اور عالم اسلام کی
تھی، اس کے سر سے گزرے 64 سال ہو چکے ہیں۔ سالہا سال گزر گئے پر حقداروں کو
ان کا حق نہ ملا۔ فلسطین کی سرزمین سے امن و امان رخصت ہو گیا، آؤ اسے ہم
یاد کر کے دو آنسو بہا لیں کہ یاد اور یاددہانی مومنوں کے لیے فائدہ مند
ہوتی ہے۔
سن 1948ء کی پندرہ مئی کی تاریخ تھی، جب اسراء کی سرزمین کے سر سے آزادی کی
چادر لُٹ گئی۔ اپنے علاقے سے عرب باشندے بھگادیے گئے۔ انگریزی مین ڈیٹ کے
آخری دن عالمِ عرب کے دل پر صہیونی سلطنت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ وطن لٹ
گیا، قوم اپنے معمولی حقوق سے بھی محروم ہو گئی اور نئے واقعات کا ایک نہ
ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ظلم کا سلسلہ جس نے حقداروں کے حقوق کو
بے دردی سے پامال کیا۔
دنیا کے مختلف گوشوں سے یہود دھیرے دھیرے اس سرزمین کا رخ کرنے لگے۔ پھر اس
پوری سرزمین پر چھا گئے۔
یہودی لیڈر زانجویل نے کہا تھا : "فلسطین وہ وطن ہے جو باشندوں سے خالی ہے
لہٰذااسے اس قوم کے حوالے کیا جانا چاہیے جس کا کوئی وطن نہیں ہے ....
یہودیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عرب فلسطینیوں کی زندگی تنگ کر دیں تاکہ
پریشان ہوکر وہ خود ہی اس سرزمین کو خالی کر دیں"۔ اس کی اپنی نسل کے لوگوں
نے اس کے اس قول کا مفہوم اچھی طرح سمجھا چنانچہ وہ اسے انجام تک پہونچانے
میں لگ گئے۔ یہ ان کے ایک بڑے منصوبہ عظیم تر اسرائیل! کا ایک حصّہ تھا۔
ہاں! 64 سالوں سے امّت کے جسم سے خون رِس رہا ہے اور صہیونی اپنی منزل کو
حاصل کرنے میں لگےہوئے ہیں۔ یہ ان کا ایک منظم منصوبہ ہے، اچھی طرح سوچا
سمجھا اور اس کے لیے بھر پور مال و زر بھی فراہم کیا گیا ہے!! امریکہ و
یورپ اس کے نگہبان ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کے سینوں میں دبی
ہوئی پرانی عداوت اس کی آبیاری کر رہی ہے، عربوں کی رسواکن کمزوری بھی کچھ
کم ذمہ دار نہیں۔
سن 1917ء میں ہونے والے اعلان بالفور کے وقت سے ہی ہر چیز کی تیّاری ہو چکی
تھی۔ یہودی فوج، ان کی تنظیمیں تیاری ہو چکی تھیں۔ ان کو اسلحے بھی فراہم
کیے گئے تھے اور ان کی مشق بھی ہوئی تھی۔ فلسطین تک یہودیوں کی ہجرت کے لیے
تعاون کا نظم بھی ہوگیا تھا۔ پھر فلسطینی ہنگامے کا خاتمہ بھی ہوااور بہت
سے فلسیطینی قائدین جن میں سرِ فہرست شہید عز الدین القسّام ہیں کو اپنی
جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا۔
انگریزوں نے پوری تیّاری کے ساتھ ایک طرف تو یہود کو بھاری مقدار میں اسلحے
فراہم کیے اور ان کے جنگی پلڑے کو مضبوط کیا گیا تو دوسری طرف دوسری عالمی
جنگ کے دوران فلسطینیوں کو نہتّہ کر دیا گیا۔ لیکن بے یار و مددگار ہونے
اور قلتِ وسائل کے باوجود فلسطینیوں نے مقابلہ کیا۔ ٹکڑیوں کی شکل میں جنگ
شروع ہوئی اور اس کا سلسلہ دراز ہوتا گیا...
اُس وقت مجاہدین کو میدانِ معرکہ سے دور کرنے کے لیے یہود اور انگریزوں نے
ایک چال چلی۔ پہلے عرب ممالک نے یہ طئے کیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو اسلحہ
کی اور مالی مدد دیں گے، ان کی فوج فلسطین میں داخل نہ ہوگی۔ لیکن بعد میں
شام لبنان، عراق، اردن اور مصر کی فوجوں نے بیک وقت فلسطین کا رخ کیا پر ان
کے درمیان ہم آہنگی نہ تھی۔ ہر فوج اپنے انداز سے کام کر رہی تھی اور عملی
قیادت انگریزی جنرل گلوب کے حوالے کی گئی تھی جو کہ عرب افواج کے عمومی
سربراہ شاہ عبد اللہ کا مشیر تھا۔ فلسطینی مقدس جہاد تنظیم، رضاکاروں کی
فوج اور فسلطینیوں کی نمائندگی کرنے والی عرب مجلس اعلیٰ کو تحلیل کر دیا
گیا اور فلسطینیوں کو عملاً ان کے اپنے قضیّہ سے الگ کر دیا گیا۔
ایسا لگتا ہے کہ عرب ممالک دنیا کے سامنے فرمانبردار گروہ کی حیثیت سے
ابھرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنی زبان حال سے کہ رہے تھے: بین الاقوامی معاہدوں
کا نفاذ ہمارا شعار ہے، یہ معرکہ صرف سرکاری قوتوں تک محدود رہے گا!
اس کے بالمقابل 14 مئی 1948م کو القدس کے لیے مقرر کردہ برطانوی نمائندہ نے
سلطنتِ اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لیے برطانیہ کا سفر کیا۔ اور
اسی دن بن گورین نے اسرائیلی سلطنت کے قیام کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے
گیارہ منٹ کے بعد امریکی صدر ہیری ٹرومین نے امریکہ کی طرف سے اس سلطنت کو
تسلیم کرنے کا اعلان کیا!
نتیجہ یہ ہوا کہ عربوں کی 24 ہزار کی کمزور فوج یہودیوں کی ستر ہزار مسلح
امریکی و یورپی فوج کے مقابلے میں نہ ٹِک سکی اور مزعومہ سلطنت کے قیام کا
اعلان کر دیا گیا۔
چارہ گروں کا ستم!
عربوں اور مسلمانوں نے کیا کیا؟ !
مسلمان اس حقیقت کو بھول گئے کہ یہود انبیاء کے قاتل ہیں، انہوں نے کئی بار
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ بکری کے گوشت
میں زہر ملا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلانے کی کوشش کرنے والے
یہود ہی تھے۔ انبیاء کے ساتھ ان کی یہ روش رہی ہے تو دوسروں کے ساتھ ہم ان
سے کیا امید رکھتے ہیں؟
مسلمان یہ بھی فراموش کر بیٹھے کہ یہود ہمیشہ عہد شکنی اور بے وفائی میں
پیش پیش رہے ہیں {فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ
وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ
مَوَاضِعِهِ} [المائدة: 13] ﴿ پھر یہ اُن کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس
کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کر دیے
اب ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا الٹ پھیر کر کے بات کو کہیں سے کہیں لے
جاتے ہیں﴾۔ ان کی غداری پر سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم شاہد ہے، بنو
قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ اور خیبر کی بد عہدیاں کتب سیرت میں نقش ہیں۔
نصرانیوں کی صورتِ حال بھی ان سے کچھ بہتر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
ہے: {وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ
مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ
أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ
اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ} [البقرة: 120] ﴿یہودی اور عیسائی تم سے
ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو صاف کہہ دوکہ
راستہ بس وہی ہے، جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے
پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے
والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے﴾
گھروں پر قبضہ ہوگیا، مسکن فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوگیا، آبادیاں ویرانی
اور شکست و ریخت کا شکار ہوگئیں، ملکیت، جائداد، اور زمینوں پر دوسرے
براجمان ہو گئے۔ فلسطینیوں کو خود اپنی زمینوں سے نکال باہر کیا گیا۔ اور
اب وہ : درد بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں،
فلسطینی فرزندوں سے قید خانے آباد ہیں، یہ ہیں چند مناظر موجِ حوادث کے
تھپیڑوں کے!! افسوس اے میرے فلسطین!!
أمِنَ العَدْلِ صَاحِبُ الدَّارِ يَشْقَى *** وَدَخِيلٌ بها يَعِيشُ
سَعيدا؟!
﴿گھر والے بے گھر رہیں یہ عدل ہے تمہارا، جس نے چھینا اس کی مزے کی زندگی
ہے﴾
أمِنَ العَدْل صَاحِبُ الدَّارِ يَعْرَى *** وَغريبٌ يحتلُّ قَصْرًا مشيدا؟
﴿گھر والے کھلے آسماں کے نیچے رہیں یہ عدل ہے تمہارا، جس کا کچھ نہیں وہ
مضبوط محل پر قابض ہے﴾
ويجـوعُ ابنُهـا فَيعْـدمُ قُوتًا *** وينالُ الدخيل عيشًا رغيدا؟
﴿فرزندانِ وطن بھوک سہیں، روزی سے محروم رہیں، جس نے لوٹا اسے عیشِ فراواں
ملے﴾
ويبيـح المستعمـرون حماهـا *** ويظل ابنُها طريدًا شريدا؟
﴿جو باہر سے آئے وہ اس کی چراگاہوں میں آزاد پھرتے ہیں، جو فرزندِ وطن ہے
وہ وطن سے دور، بے سہارا ہے﴾۔
مفدی زکریا نے یہ اشعار اس وقت کہے تھے جب ہم نے فخر کے ساتھ پندرہ لاکھ
شہداء پیش کیے تھے۔ یقیناً استعمار جو بھی ہو اس کے جرائم یکساں ہوتے ہیں۔
محرّف تورات کہتی ہے : "ہلاک کردو... جلا ڈالو ہر اس مرد، عورت، بوڑھے، بچے
حتی کہ گائے بھیڑ، بکری، اور گدھوں کو بھی جو شہر اریحا میں ہوں، انہیں
تلوار کے گھاٹ اتار دو اور شہر میں موجود ہر چیز کو جلا کر فنا کردو۔ سونے
اور چاندی کو رب کے گھر کے خزانہ میں داخل کرو"۔ کیا خوب ہے یہ وصیت!
1948ء میں پیش آنے والی تباہی کے اعداد و شمار لرزہ طاری کردینے والے ہیں۔
ڈاکٹر سلمان ابو سنہ نے جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں اس کے مطابق 531 گاوں
اور مراکز کے باشندوں کو وطن بدر کیا گیا۔ فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم
کیا گیا۔ فلسطین کے مجموعی رقبہ کے 77.4% حصہ پر صہیونیوں کا قبضہ ہوا۔
یہود نے اس حصہ پر بھی قبضہ کیا جو عربوں کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔
فلسطینیوں کو نکالنے کے بعداس حصہ میں یہودی تناسب 83 % پہونچ گیا۔ دوسرا
علاقہ جو تقریباً 21.3 % تھا اردنی حکومت کی ماتحتی میں آیا جسے مغربی
کنارہ کہا جاتا ہے۔ اور تیسرا علاقہ جو فلسیطنی رقبے کا تقریباً 1.3% ہے
مصرکے زیرِ انتظام دیا گیا۔ اسے غزہ کے نام سے جاناجاتا ہے۔
1948ء کی جنگ کے واقعات کو چار مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: 15 مئی تا
10 جون 1948ء پہلی جنگ کا مرحلہ، 11جون تا 8 جولائی پہلی جنگ بندی کا
مرحلہ، 9 جولائی تا 17 جولائی دوسری جنگ کا مرحلہ، 18 جولائی تا 7جنوری
1949ء دوسری جنگ بندی کا مرحلہ۔
پہلی جنگ بندی کو صہیونی قیادت نے شیرازہ بندی کرکے اپنے طئے شدہ ہدف کو
حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بین الاقوامی سطح پر انہوں نے مال جمع کیا
اور سیاسی عمل کے لیے اپنی طاقت کو منظّم کیا۔ دوسری جنگ بندی کا استعمال
بھی اس طرح کیا گیا کہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف تجربہ اور اہلیت رکھنے
والوں کو اس سرزمین میں لایا گیا۔ بھاری مقدارمیں اسلحے جمع کیے گئے جبکہ
عرب ممالک کی حالت یہ تھی کہ سرزمینِ فلسطین میں غصب اور لاش اور خون کا
جوکھیل کھیلا جا رہا تھا اس کو وہ سمجھنے میں ہی لگے رہے پھر اس کے بعد
عربوں کی صف میں دراڑ پیدا ہو گئی۔
اس کے بعد؟!
- 1964ء: تنظیم "منظمة التحرير الفلسطينية" کا قیام.
- 1967 ء: زبردست ہزیمت اس میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کیا
اور عربوں کے لیے متعین کردہ علاقوں کے 23 فیصد حصہ پر وہ قابض ہو گیا۔
یہودی افواج شہر قدس میں داخل ہوئیں۔ فلسطین کو آزاد کرنے کے لیے گونجنے
والی صدا کمزور ہو گئی۔ اس کی جگہ 1967م میں جن علاقوں پر قبضہ کیا گیا تھا
اس کی بازیابی کی بات کی جانے لگی۔
- 1973 ء: اکتوبر کی جنگ، اس میں عربوں نے مزید علاقے کھوئے۔ 1967ء میں جن
علاقوں پر قبضہ کیا گیا تھا انہیں وہ آزاد نہ کر اسکے۔ پر امن حل کی بات
چیت شروع ہوئی۔ شکست و ہزیمت کے سائے تلے خرطوم کا اعلان پسِ پشت چلا گیا
کہ (ہم اس وقت تک نہ صلح کریں گے، نہ ہی غاصب اسرائیل کو تسلیم کریں گے اور
نہ صہیونی دشمن کے ساتھ مذاکرات کریں گے جب تک کہ حقداروں کو ان کا حق نہ
مل جائے﴾۔
- 1978: کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کی شامت اور اس کے بعد کی پے در پے ذلّت و خواری۔
- 1991م: میڈرڈ مذاکرات کی ابتدا.
- 1993م: اوسلو معاہدہ.
- 2005م: اسرائیلی حکومت کا اعلان اور غزہ کے علاقہ میں فوجی حکومت کا
خاتمہ۔
پھر؟!
ارضِ وطن سے محرومی کے 64 سال، کیا کامرانی کا راستہ ہنوز دور نہیں؟!
عربوں کی خموشی اور جمود کو دیکھ لینے کے بعد فلسطینی قوم نے 1987م میں
انتفاضہ کا راستہ اختیار کیا تاکہ آزاد فلسطینی مملکت کا قیام عمل میں آئے
جس کا دار الحکومت قدس ہو۔ اس راہ میں سرفروشی دکھانے والے عزم محکم سے
معمور بچے تھے۔ اور تمہیں کیا پتہ کہ یہ بچے کیا تھے!
اس کے بعد فلسطینی اسرائیلی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ آہ! اے فلسطین، یہ
تو بس عارضی حل کا راستہ تھا، امن کے تاروں کو چھیڑنے کا مطلب کیا تھا۔
مذاکرات اور پہلے ہی مرحلے میں اپنے حقوق سے دستبرداری .. اوسلو معاہدہ،
قاہرہ معاہدہ، تابا معاہدہ، وائی ریفر معاہدہ، میشل کمیٹی رپورٹ، روڈ میپ،
انابولس کانفرنس .... دردِ شکم جاری ہے، انتظار کی گھڑی طویل تر ہوتی جا
رہی ہے۔ اس کی حیثیت صحرا کے سراب سے زیادہ کچھ بھی نہیں!
درد ہے کہ فکر کو بے لگام کردیتا ہے، کب، کیسے اور اس کے بعد کیا ؟!
کیا اب بھی نصرت کا وقت نہیں آیا؟!
فلسطین کا چہرہ مختلف حدود میں تقسیم سے کب بے نقاب ہوگا؟ ہماری اقصی یہود
کی گندگی سے کب پاک ہوگی؟ کب طلوع ہوگی روشن صبح؟ غزہ کے بچوں کی آنکھوں
میں کب لوٹے گی سعادت کی چمک؟ کب زیتون کے درخت امن و امان اگائیں گے؟
اللہ تعالی پاکیزہ مبارک سرزمین کو اپنی رحمتوں سے سیراب کرے کہ اس کا ذکر
اس نے یوں کیا ہے : {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ
الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إلى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا
حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}
[الإسراء: 1] ﴿پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور
کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ
نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا﴾.
آخر حل کیا ہے؟!
میں پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہوں: حل صرف یہ ہے کہ ہم اللہ سے عہد کریں،
اپنی نیتوں کو خالص کریں، دین کی طرف پلٹیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے
تھامیں، مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور فلسطینیوں کی شیرازہ
بندی کریں۔ صفوں میں اتحاد ہوتو یہ سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
تأبَى الرّماح إِذا اجتمعْنَ تكسُّرًا *** وإِذا افترقْنَ تكسَّرتْ
أفرادَا!
﴿نیزے اگر متحد ہو کر اٹھیں تو نہیں ٹوٹ سکتے اور اگر الگ الگ ہو جائیں تو
ہر نیزہ ٹوٹ جا تا ہے۔﴾
اے مقام اسراء صبر کر، حق و باطل کے درمیان بہت سے معرکے ہوتے ہیں۔ تاریخ
ہمارے سامنے واقعات کو کچھ اسی انداز سے پیش کرتی ہے۔ اور آخر کار فتح تو
حق کو حاصل ہوگی۔ حق قائم رہنے والا ہے اور اور باطل مٹنے والا۔
ہاں، فلسطین کی بازیابی قوت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ بندروں اور سوروں کے
بھائی محض طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ رب العزت کی قسم ہمارا دشمن اس سے بھی
زیادہ بزدل ہے جتنا ہم اسے سمجھتے ہیں {لا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا
إِلاَّ فِي قُرًى مُحَصَّنَةٍ أَوْ مِنْ وَرَاءِ جُدُرٍ بَأْسُهُمْ
بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى} [الحشر:
14] ﴿یہ کبھی اکٹھے ہو کر (کھلے میدان میں) تمہارا مقابلہ نہ کریں گے، لڑیں
گے بھی تو قلعہ بند بستیوں میں بیٹھ کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر یہ آپس
کی مخالفت میں بڑے سخت ہیں تم اِنہیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک
دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں﴾
مسلمانوں کے ساتھ ان کی جنگ کی حقیقت قرآن نے اسی طرح بیان کی ہے۔ اگر
فیصلہ کن معرکہ میں اللہ اکبر کی صدا ایک ساتھ بلند ہو تو ایسا ہی ہو کر
رہے گا۔ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ آئیے ہم عہد کریں کہ ہم نے حقیقت کو جان
لیا اور اپنے رب پر توکّل کرتے ہوئے قدم اٹھائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو ہمارا
رب ہمیں ہرگز نامراد نہ کرے گا۔ کوئی یہودی اور کوئی نصرانی ہم سے نہ جیت
سکے گا۔ توحید کی حامل امت ذلت و رسوائی تلے سسکتی نہ رہے گی۔ یہود کے
ارادے ہمیشہ کے لیے ہمارے سروں پر مسلّط نہ رہیں گے۔ کتنے ہی شکست خوردہ
ایسے ہیں جنہوں نے ارادہ کیا تو ظفرمند ہو گئے۔
یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ کے وعدہ سے سچا کس کا وعدہ ہو سکتا ہے؟
{لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ
قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ
وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لا
يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا} [النور: 55] ﴿اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے
اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح
زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا
ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ
تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن
سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں﴾.
پروردگار یہود نے صلیب کے فرزندوں کو مدد کے لیے پکارا تو وہ ساتھ ہو گئے،
فلسطین نے عربوں اور مسلمانوں کو پکارا تو انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا!! غزہ کا
حصار کوئی دور نہیں... !!
كَم يَستَغيثُ بِنا المُستَضعَفُونَ وَهُم *** قَتلى وَأَسرى فَما يَهتَزَّ
إِنسانُ
﴿ستم رسیدہ ہمیں پکارتے رہے، وہ قتل ہوتے رہے، قید ی بنائے جاتے رہے، پر
کسی انساں کا دل نہ پسیجا﴾
ماذا التَقاطـعُ في الإِسلامِ بَينَكُمُ *** وَأَنتُـم يا عِبَـادَ اللَهِ
إِخوَانُ
﴿بھائیو تم سب اللہ کے بندے ہو پھر اسلام کے سائے میں ہوتے ہوئے یہ دوری
کیسی؟﴾
أَلا نُفـوسٌ أَبيّاتٌ لَهـا هِمَـمٌ *** أَما عَلى الخَيرِ أَنصـارٌ
وَأَعوانُ
﴿سنو کچھ جانیں غیرت مند ہیں، ان کے ارادے بلند ہیں، کیا خیر کی اس راہ میں
انہیں اعوان و انصار نہ ملیں گے﴾۔
اے فلسطین تیرے لیے خدا ہے!! ہاں خدا ہے!!
والحمد لله ربِّ العالَمين، وصلَّى الله وسلَّم على نبيِّنا محمَّد، وعلى
آله وصحْبِه أجْمعين. |