کامیابی کا سفر

کامیابی ایک ایسی عظیم نعمت ہے جس کی تمنا ہر کسی کے دل میں زندگی بھر زندہ رہتی ہے۔مسلمان ہو یا کافر،امیر ہو یا غریب ،سیاستدان ہو یا تاجر ہر کوئی اس کے حصول کے لیے سرگرداں ہے۔کامیابی ہی وہ منزل ہے جس کے لیے انسان مشکل سے مشکل کا م کرنے پر آمادہ ہوجاتاہے۔اس کی خاطر مصائب اور تکالیف ہنس کر جھیل لیتاہے۔کامیابی کی اس منزل میں نہ موسم کی بے اعتنائیاں آڑے آتی ہیں نہ سردی گرمی کی سختیا ں،نہ تیز ہوائیں رکاوٹ بنتی ہیںنہ برستے بادل ۔نہ زمانہ کے بدلتے رنگ حائل ہوتے ہیں اورنہ ہی موقع بہ موقع نظر آتی رنگینیاں اپنی جانب متوجہ کر سکتی ہیں ۔حالات جیسے بھی ہوں انسان سب کو شکست دے کر اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھتاہے۔اگر کسی موڑ پر اس کی محنت اور ہمت کا شیرازہ بکھربھی جائے تب بھی وہ ناامیدی کے اندھیر ے کو جہدِ مسلسل اور بلند ہمتی سے روشن کر دیتا ہے۔کہتے ہیں ناکامی کامیابی کا پہلا زینہ ہوتی ہے۔

تاریخ انسانی میں جتنی عظیم ہستیا ں گزریں اور جتنے سنہرے ادوار کے لطف وکرم کے ثمرات سے انسان مستفید ہوئے ان سب کے پس ِپشت ناکامی کے بعد جہد مسلسل اور بلند ہمتی ہی کارفرماتھی ۔محنت اور جہدمسلسل سے جو کارنامے سرانجام دیے گیے ان کی نظیر رہتی دنیا تک ملنا ناممکن ہے۔عربی کا محاورہ ہے ”من جدّوجد“(جس نے کوشش کی اس نے پالیا )۔اسی طرح ایک عربی شاعر نے یوں کہا”من طلب العلیٰ سھرًاللیالی“(جو بلندیوں کا طلبگار ہووہ راتوں کو بیدار رہے)۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو ناممکن ہو۔محنت اور جدوجہد سے ہر نا ممکن کو ممکن بنایا جاسکتاہے۔محنت ہی مرد مومن کا وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعہ بلند ی کی اوجِ ثریا تک پہنچاجاسکتاہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا :
محنت کر و عزیزو محنت سے کا م ہوگا
کہتے ہیں بخت جس کو وہ آکر غلام ہوگا

دنیامیں جتنے بھی ممالک اور اقوام ترقی یافتہ ہیں اُن کی ترقی کا راز اسی محنت اورجہدمسلسل میں مضمر ہے۔سہل پسندی،تن آسانی اور آرام طلبی سے بھلا کیسے تر قی کی جاسکتی ہے؟بدقسمتی سے آج ہم مغرب کی جہاں اور کئی ناپسندیدہ باتوں میں مشابہت اور تقلید اختیا ر کرنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیںوہاں ان کی ان عمد ہ صفات کو اپنانے کی کوشش نہیں کرتے جن کی بدولت آج وہ ترقی اور خوشحالی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جن لوگوں نے اپنے آپ کو اس بیش قیمت زیور سے آراستہ کیا وہ رہتی دنیا تک سنہر ے الفاظ میں آب وتاب کے ساتھ چمکتے رہے ہیںاور رہیں گے(انشاءاللہ)۔ایسی عظیم ہستیوںکی ایک طویل فہرست ہے۔انہی درخشندہ ستاروں میں سے حال ہی میںخرقہ شہادت اوڑھنے والے داعی قرآن حضرت مولانااسلم شیخوپوری شہیدؒ بھی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ؒبذاتِ خودایک عظیم ادارہ تھے۔آپ ؒکامشن بلند ،کاز عظیم ،کاروسیع اور سوچ ایسی کہ جھو نپڑے میں بیٹھ کر پوری دنیا پرقرآن کی بہاریں دیکھنے کا حسین خواب تھا۔آپ ؒصبح کا آغاز جس قرآن کریم سے کرتے اِسی طرح چڑھتی صبح اور بڑھتے سورج کے ساتھ مزاجا بھی اپنے مشن کو جاری رکھے ہوتے تھے۔مسائل اور وسائل کی ”ناکام“ کہانی کا گزر کبھی آپ کے صفحات سے نہ ہوا تھا۔ملا تو ”روزی “ نہ ملا تو ”روز ہ “کی حقیقی صورتِ حال کا مصداق تھے۔آپ ؒکی مکمل زندگی بلند ہمتی ،جہد مسلسل ،عزم مصمم اور شوق وجذبہ اور محنت ولگن کے جذبہ سے سر شار نظر آتی ہے اور کٹھن لمحات اور حزن والم کی داستان سے رنگی ہوئی ہے۔بچپن سے جوانی تک جوانی سے بڑھاپے تک آپ کی جدوجہد اور لگن تابندہ ادوار کے دلکش مناظر کی تصویر کشی کرتی ہے۔ چنانچہ بچپن میں ناگہانی آفت کے سبب دونوں ٹانگوںسے معذورہو گئے،لیکن یہ معذوری کمزوری نہ بنی اور نہ ہی آپ کے شوق وجذبہ کو کم کر سکی ۔ بعد ِ مسافت اور اسفار کی مشقتیں بھی آپ کے مقصد ِ قرآنی کو متزلزل نہ کر سکیں ۔

بس ایک درد تھاسینہ میں کہ گھر گھر اغیا راور اس کے آلہ کاروں کی آواز پہنچ سکتی ہے قرآن کی ”پکار “ کیوں نہیںپہنچ سکتی ؟دشمن کی محنت ان کے مکروہ عزائم اور منصوبوں کا رنگ دکھا سکتی ہے اسلام اور قرآن کی دعوت کیوں نہیں دکھا سکتی ؟دشمن اپنے مشن کا عَلم لوگوں کو تھما سکتا ہے قرآن کا عَلم بچہ بچہ کیوں نہیں اٹھا سکتا؟دشمن کی صدا پر لوگ لبیک کہہ سکتے ہیں قرآن کی ”پکار “ پر کیوں نہیں کہہ سکتے ؟دشمن جدید ذرائع ابلاغ کے بل بوتے پر نو جوان نسل کو فرنگی رنگ چڑھا سکتا ہے قرآن کا رنگ ابلاغ عامہ کے ذریعہ کیوں نہیں چڑھایا جاسکتا؟اغیا ر فحش پروگرامز کی تشہیر میڈیا کے ذریعہ کر سکتا ہے قرانی محفلوں کی تشہیر کیوں نہیں کی جاسکتی ؟

یہی درد تھا جسے بانٹنے کے لیے یہ مرد کوہ پیماں سر پر کفن باندھے گھر گھر شہر شہر کے چکر لگاتے تھے ۔اسی درد کی خاطر اپنے گھر بار کو قربان کیا ۔آرام و سکون کو غارت کیا ۔قلم ہویا خطابت ،درس قرآن ہو یا تدریسی مہمات ،انٹر نیٹ ہو یا فورم غرض ہر جگہ اس ”پکار “ نے لوگوں کو پکارا۔پھر کیا تھا !محنت بارآور ہونے لگی ۔زندگی بھر جس مقصد کے لیے مشقتیں برداشت کیں وہ پوراہونے لگا۔کامیا بی قدم چومنے لگی ۔کراچی سے خیبر تک لاہور سے ملتان تک ہر جگہ اس درد کی ”پکار “ پر لبیک کہا گیا ۔جوق در جوق لوگ حلقہ قرآن میں داخل ہو ئے ۔علماءکرام ہوں یاعوام النا س،ائمہ مساجد ہوںیا خطباءکر ام ،تاجر برادری ہو یاوکلاءبرادری مزدورہو یا ریڑی بان سبھی نے اس مشنِ قرآنی کا علم اٹھایا ۔اس درد کو اپنے سینہ میں اتار کر گھر گھر دعوتِ قرآنی کو عام کر نے کا عزم کیا ۔

ابھی کامیا بی کی بہاریں آنے ہی لگی تھیں ۔فرحت ومسرت کے حسین لمحات کو دیکھنا ہی شروع کیا تھا ،کہ اعداءِ دین وملت کامیابی کی ان بہاروںکوسہ نہ سکے۔یہ روح پر ور دلکش منا ظر اور جنت کا نظارہ پیش کرتی محفلیں ان کو ہضم نہ ہو سکیں۔کیسے ہضم ہوتیں؟ پیغامِ قرآنی سے غفلت کی نیند سوئی ہوئی عوام بیدار جو ہوگئی تھی۔ ”پکار “ کے درد سے دین دشمنان کے کالے کرتوتوں کا پول جو کھل گیا تھا ۔آپ کی دعوت اورفکر سے عام آدمی نمازی جو بن گیا تھا کئی لوگوں کی زندگیاں جو بدل گئی تھیں۔ابلاغِ عامہ کے درست استعمال سے فحش اور زہریلے وائر س کا خاتمہ جو ہوگیاتھا۔باالآخر!دلیل کاجوب دلیل سے اور فکر ِصحیح کا جواب فکرِصحیح سے دینے کی بجائے دشمن نے طاقت کو استعمال کیا اور اپنے ناپاک عزائم میں کا میاب ہو ا۔اور یہ مرد کوہ پیماں اپنی محنت کے ثمرات سے مستفید ہوکر ابدی نعمتوںکی لازوال کامیابی سے ہمکنار ہوگیا۔اس عظیم خواہش کو پاکر جنت میں چلاگیا جس خواہش کی تمنا نبی کریمﷺنے کی تھی۔

الحمدللہ آپؒ تو رہے سرخرو!اب سوال یہ ہے کہ کس طرح آپ ؒکے مشن اوردردکو زندہ رکھاجائے اورآنے والی نسلوں تک آپ ؒکی ”پکار “ کو پہنچایا جائے؟اس کا جواب ےہ ہے کہ کامل طورپر اس مشنِ قرانی کے لیے کمر بستہ ہواجائے اورحضرت ؒکے طرز کے مطابق اس کام کوآگے بڑھایاجائے۔قدیم ،جدید تمام ذرائع ابلاغ کواحسن طریقے سے بروئے کار لایا جائے ۔اس کے علاوہ حضرت ؒکے خصوصی مشن کو دروسِ قرآن کے ذریعہ بھی جاری رکھا جا سکتاہے۔چنانچہ حضرت مفتی ابولبابہ شاہ منصورلکھتے ہیں:”کہ ہر عالم اگر جمعہ کو خطبہ اور اتوار کو درسِ قرآن کریم دینا شروع کر دے تو اللہ کی قسم !سمجھو شیخوپوری ؒکو شہیدکرنے والے بدبخت ہار گئے اور داعی قرآن مر کر بھی زندہ ہو گیا۔اگرماہر قرآن دورئہ تفسیر کے ساتھ دورئہ کورس قرآن بھی مختصراً کرواکر درسِ قرآ ن کروادیا کریںتو یہ ہمیشہ کے لیے صدقہ جاریہ ہوگا“ ۔اہل ِمدارس کے لیے حضرتؒ نے ایک رہنما اصول بیان فرمایا :چنانچہ ایک مرتبہ ہمارے استاد حضرت مولنااحمد ادریس صاحب سے فرمایا ”کہ ثالثہ ،خامسہ تک ترجمہ پر زیادہ زور دینا چاہیے۔ اوراس کا طریقہ یہ ہے کہ طلباءکرام کی عادت بنائی جائے کہ وہ از خود کسی مستند ترجمہ سے مطالعہ کر کے لائیں اور استاد تفسیر کردیا کریںاس سے طلباءمیںفہمِ قرآنی کی استعداد اور ذوق پیدا ہوگا۔“ بہر حال! حضر تؒکی سوچ،مشن ،کازبہت بلند تھا جسے جاری رکھنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا اور حضرتؒ کی کامیابی کے سفر کو رہتی دنیا تک جاری رکھنا ہوگا۔دراصل یہی دشمن کو منہ توڑ اورمسکت جواب ہے۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38329 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.