نہایت ہی افسوس کے ساتھ عرض کرتا
چلوں کہ اک طبقہ ایسا معاشرے میں سراٹھارہاہے جس نے دین کو معاش بنا لیاہے
۔نعتیں پڑھ پڑھ کر گاڑیوں ،پبلک پوائنٹ پر،کچھ ،بلکہ میراجب بھی ٹرین میں
سفرکرنے کا اتفاق ہوا۔شاید ہی یاد پڑتاہے کہ کوئی مانگنے والا نہ آیاہو۔
بلکہ جب پہلی مرتبہ میں نے دیکھا کہ ایک خاتون آئیں اور بس میں بیٹھے
ہرفرد کو پاکٹ سائز یسین شریف دیتی چلیں گئیں ۔یہ منظر میرے لیے نیا تھا
چونکہ مذہب سے محبت کا رشتہ میری فطرت میں ہی راسخ تھا مجھے ایک آنکھ نہ
بہایا۔
اس نئے نفع بخش کاروبار کو دیکھ کر ضمیر کی عدالت میں شرمندگی ہوئی کہ ہم
مسلمان ہیں جو دوسروں کے لیے تقلید ،راہنما،روشنی کی منارہ اور آج پیٹ کی
آگ بجھانے کے لیے ،مادیت کے طمع نے اپنی اساس قران تک کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمت نہیں ہورہی کہ کیسے تعبیر کروں ان جذبات کو۔
محترم قارئین!!!!!!!!گزشتہ سے پیوستہ کالمز میں میری کوشش رہی ہے کہ آپ کے
لیے جوبھی لکھوں ادلہ کی روشنی میں لکھوں تاکہ دل کو اطمنان ہوجائے ،بات کی
تصدیق ہوجائے ۔
آئیے ذراجانتے ہیں ہمارے یہ کرتوت قابل گرفت ہیں یا قابلِ تحسین ؟
حضرت عمران ابن حصین رَضِی اللّٰہ تَعَالیٰ عَنْہ سے کہ وہ ایک قصہ خواں پر
گزرے جو قراٰن پڑھتا اور لوگوں سے مانگتا تھا۔ آپ رَضِی اللّٰہ تَعَالیٰ
عَنْہ نے اِنَّالِلّٰہِ پڑھی پھر فرمایا :''میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی
اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوفرماتے سناکہ جوقراٰن پڑھے
تواس کے ذریعہ صرف اللّٰہ سے مانگے عنقریب ایسی قومیں ہوں گی جو قراٰن پڑ
ھیں گی اس کے ذریعہ لوگوں سے مانگیں گی ۔ (سنن الترمذی کتاب فضائل ال قراٰن
باب ماجا ء فی من قراء حرفا ۔۔۔۔۔۔الخ ج٤ ص٤٢١ حدیث٢٩٢٦دار الفکر بیروت)۔
حاجت مند کسی کو نصیحت نہیں کرسکتا
مُفَسّرِشہیر،حکیمُ الْاُمَّت، حضر ت ِ مفتی احمدیارخان عَلَیْہ رَحْمَۃُ
الحَنَّاناِس حدیثِ پاک کے تَح:ت فرماتے ہیں:( ایک قصہ خواں پر گزرے جو
قراٰن پڑھتا اور لوگوں سے مانگتا تھا) محدثین کی اصطلاح میں قاص پیشہ ور
واعظ کو کہتے ہیں جو اپنی تقریر میں احکام شرعیہ بیان نہ کرے صرف
شعراشعارقصے کہانیاں سنا کر لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرے اگرچہ قراٰن
شریف ہی کے قصے سنائے مگر احکام سے خالی جیسے آج کل کے عام بے علم وَاعظین
یہ سب قاص ہیں۔ واعظ نہیں کہ واعظ تونصیحت کرنے والوں کوکہتے ہیں وہ نصیحت
نہیں کرتاصرف پیسے مانگتاہے حاجت مندکسی کونصیحت نہیںکرسکتا۔
توہینِ قراٰن
( اس حصہئ حدیث ''جو قراٰن پڑ ھیں گی اس کے ذریعہ لوگوں سے مانگیں گی '' کے
تحت لکھتے ہیں ) جیسا آج کل دیکھاجارہا ہے کہ بعض بھکاری مسجدوں میں بلکہ
گلی کوچوں میں تلاوت کرتے پھرتے ہیں اور ہاتھ پھیلایا ہوتا ہے یہ حرام ہے
کہ اس میں قراٰن کریم کی توہین ہے، خیال رہے کہ طلباء سے ختم قراٰن شریف
کرا کر ان کی دعوت بھی کی جاتی ہے اور کچھ نقدی بھی دی جاتی ہے یا علمائے
دین سے جلسوں میں وعظ کرا کر کرایہ و نذرانے دیئے جاتے ہیں یہ تمام صورتیں
اس حکم سے خارج ہیں کہ وہاں ختم اور وَعْظ فِیْ سَبِیْل اللّٰہہے اور ان کی
خدمت فِیْ سَبِیْل اللّٰہ جیسے مدرسین دینیہ کی تنخواہیں یا خلفائے اسلامیہ
کے بھاری بھاری وظیفے نیز دم و تعویذ کی اجرت بھی اس سے خارج ہے کہ وہ تو
علاج کی ہے نہ کہ تلاوت قراٰن کی خلفائے راشدین نے خلافت پر تنخواہ لی اور
صحابہ نے سورت فاتحہ پڑھ کر مارگزیدہ پر دم کیا اجرت میں تیس بکریاں لیں جن
کا گوشت حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
بھی ملاحظہ فرمایا۔(مرأ ۃ المناجیح ج ٣،ص٢٨١ضیاء القران پبلیکیشنز مرکز
الاولیاء لاہور)۔
فکرانگیزباتیں
حج کے موقع پر حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیہ کی
ملاقات ہارون رشید سے ہوئی ۔آپس میں پرلطف گفتگو ہوئی جس سے ہارون بہت خوش
اور مانوس ہوا۔ہارون رشید اٹھ کر جانے لگا توحضرت سیدنا فضیل بن عیاض
رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیہ نے اسے ایک مفید نصیحت گوش گزار کرنے کا
فیصلہ کیا کیونکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلّ نے علماء پرواجب فرمایا ہے کہ وہ
حکمرانوں کو بطور خیر خواہی نصیحت کریں اور ان کے پاس اس لیے نہ جائیں کہ
ان سے جاہ ومنصب ،دنیا اور مال حاصل کریں جیسے کہ آج کچھ ایسے لوگوں نے اسے
حلال جان رکھا ہے جو علم کے دعویدار ہیں اور درحقیقت علم سے کوسوں دور ہیں
۔ حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیہ نے فرمایا:امیر
المومنین مجھے خوف ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں علم ضائع ہو چکا ہے اسی طرح آپ
کی طرف بھی ضائع ہو چکا ہو گا ۔ہارون رشید نے کہا ـ:جی ہاں واقعہ یہی ہے
۔ہارون رشید نے یہ نصیحت پلے سے باندھ لی اور افعال حج ادا کرکے عراق پہنچا
تو سب سے پہلے یہ کام کیا کہ تمام شہروں اور فوجی کمانڈروں کو یہ آرڈر
بھجوایا کہ علماء ،ائمہ اور خطباء کے وظیفوں میں اضافہ کیا جائے کیونکہ یہ
حضرات امت مسلمہ کے چراغ ہیں امت ہی ان سے ہدایت حاصل کرتی ہے عام لوگ جس
چیز کو بگاڑ دیتے ہیں یہ حضرات ہی اس کی اصلاح کرتے ہیں ۔ہارون رشید نے
آرڈر جاری کیا : (١)جو شخص تمہارے ہاں اذان دینے پر مامور ہو اسے ایک ہزار
دینار وظیفہ دو۔(٢)جو شخص قراٰن پاک یاد کرلے پھر علم حاصل کرنے لگے اور
علم وادب کی مجلسوں کو آباد کرے تو اسے دو ہزار دینار وظیفہ دو(٣)جو قراٰن
پاک کا حافظ ہو ،حدیث روایت کرتا ہو اور علم میں فقاہت اور مہارت رکھتا ہو
اسے چار ہزار دینار وظیفہ دو۔اس مقصد کے لیے موجودہ دور کے نامورعلماء
وفضلاء اور تجربہ کار حضرات امتحان لے کر گریڈ کا فیصلہ کریں ۔تم علماء کی
بات سنو اور ان کے حکم کی اطاعت کرو کیونکہ اللّٰہ تَعَالیٰ کا فرمان ہے
:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ
وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ ۔(پ٥،سورۃ النسائ،آیت:٥٩)(ترجمہ ئ
کنزالایمان:اے ایمان والو!حکم مانو اللّٰہ کااور حکم مانورسول کااور انکا
جو تم میں حکومت والے ہیں )اور اُولی الاَمْر وہ اہل علم ہی ہیں جواپنی
دعوت میں مخلص ہیں۔جب یہ حکم نامہ فوجوں اور شہروں میں پہنچا اور عوام
وخواص نے خلیفہ وقت کے حکم پر عمل کیا تو عظیم علمی انقلاب برپا ہوگیا لوگ
علم کی بدولت مالدار ہوگئے اور اسے کافی سمجھنے لگے عوام وخواص علمی
سرچشموں سے خود بھی سیراب ہوتے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے اور علم
میں اس طرح دلچسپی لینے لگے جس طرح مالدار لوگ مال میں دلچسپی لیتے
ہیں۔حضرت سیدنا عبداللّٰہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیہ حج کے
موقع پر ہارون رشید کے ہمراہ تھے اور انہوں نے حضرت سیدنا فضیل بن عیاض
رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیہ کی گفتگو بھی سنی تھی ،ان کا بیان ہے
:''میں نے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم،
خلفاء راشدین ،صحابہئ کرام عَلَیْہِم ُ لرِّضوَان کے زمانے کے بعد ہارون
رشیدکے زمانے سے زیادہ عالم،قراٰن پاک کے قاری،نیکیوں میں سبقت لے جانے
والے اور دین کی حرمتوں کے پاسبان نہیںدیکھے۔''آٹھ سال کی عمر کا بچہ قراٰن
پاک یاد کرلیتا تھا گیارہ سال کا نوعمر بچہ فقہ اور علم میں مہارت حاصل
کرلیتا تھا ،حدیث روایت کرتا تھا اور اپنے پاس ذخیرہئ حدیث جمع کر لیتا تھا
شعراء کے دیوان یاد کرلیتا تھا اور اسا تذہ سے باقاعدہ بحث مباحثہ کرتا تھا
امت مسلمہ میں ایسا انقلاب بپا ہوگیا جس نے جہالت اور سستی کی چادر اتار
پھینکی خواب غفلت کا پردہ چاک کردیا علم اور اخلاق کی حکمرانی قائم ہو گئی۔
اس کے بعد مدارس قائم کیے گئے اور ان کے منتظمین اکثر وبیشتر وہ علماء تھے
جو سلطان کے کارندے تھے انہوں نے ہمارے لیے ایسے زندہ وپائندہ نشانات چھوڑے
جو آج بھی ان کے حق میں گواہی دے رہے ہیں یہیں سے ملت اسلامیہ کا سنہرا دور
شروع ہوا جس کی بنیاد تقوی پر تھی اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ حکمران رعایا کا
لیڈر ہوتا ہے دوسرے لوگ اسی کے طریقے پر چلتے ہیں اگر وہ درست ہو تو عوام
بھی درست اور اگر وہ بگڑ جائے تو عوام بھی بگڑ جائیں گے ۔
حضر ت علامہ عبد الحکیم شرف قادری َحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیہ فرماتے
ہیں :حضرت شیخ محمدصا لح فرفور رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیہ نے نہایت
اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے آج ہمارے مدرسوں کی زبوں حالی کسی واقف حال
سے مخفی نہیں ہے پرانے مدرسین تیزی سے رخصت ہو رہے ہیں اور نئے اساتذہ
ضرورت سے بہت کم تیار ہو رہے ہیں اس کی بڑی وجہ دینی مدارس کے مدرسین کی بے
قدری ہے ،طلبا جب اساتذہ کی معاشی اور نفسیاتی کیفیت کا مطالعہ کرتے ہیں
(اور یہ مطالعاتی حس ان میں بہت زیادہ ہوتی ہے) تو برملا کہتے ہیں کہ ہم
مدرس نہیں بنیں گے اگر مدرس بنیں گے تو ہمارا حشر بھی وہی ہوگا جو ہمارے
اساتذہ کا ہو رہا ہے ۔ایک وقت وہ تھا جب وقت کے حکمران علم دین اور علما ء
کی قدر ومنزلت کیا کرتے تھے اس وقت امراء اور وزراء کے بیٹے بھی علم دین کی
طرف راغب ہوا کرتے تھے ارباب مدارس کی ذمہ داری ہے کہ اساتذہ کو بشرط
گنجائش زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کریں تاکہ مدرسین کی نسل ختم ہونے سے
بچ جائے اور نیا خون بھی اس شعبے کو میسر ہوتا رہے ۔ایک دفعہ راقم نے حضرت
استاذ الاساتذہ مولانا غلام رسول رضوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالیٰ عَلَیہِ
صاحب ''تفہیم البخاری''سے دریافت کیا کہ جو مدرسین مشاہرہ لے کر علوم دینیہ
کی تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں انہیں بھی ثواب ملے گا ؟توانہوں نے
مدرسین کی معاشی حالت کے پیش نظر فرمایا :یہ ناممکن ہے کہ انہیں ثواب نہ
ملے۔یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جس طبقے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اسی
طرف عوام وخواص کا رجحان بڑھ جائے گا ہمارا دین دار طبقہ نوازتا ہے نعت
خوانوں کو، قوالوں کو خوش آواز خطیبوں کو علم وعمل سے بےگانہ پیروں کو
،بااثر سیاست دانوں کو اور ارباب اقتدار کو جب کہ ہماری حکومتیں نوازتی ہیں
گلو کاروں کو گلو کاراؤں کو ایکٹروں ایکٹرسوں کھلاڑیوں طبلچیوں خوشامدیوں
اور امریکہ کے پسندیدہ ادیبوں قلم کاروں اور ایڈیٹروں کو ۔ہمارے عوام یا
ارباب حکومت کو تحقیق اور محققین اور خاص طور پر دینی ریسرچ اسکالروں سے
کوئی دلچسپی نہیں ہے معاف کیجیے پھر اسی طبقے کے افراد زیادہ سے زیادہ پیدا
ہوں گے جن کو آپ نوازتے ہیں ایک وقت تھا کہ جامعہ ازہر میں ریسرچ کرنے
والوں کو حکومت پاکستان ماہانہ پچاس ڈالر دیا کرتی تھی سنا ہے کہ اب خیر سے
وہ بھی بند کردیے ہیں۔(ولولہ انگیز خوشبوئیں ،ص ٧٨)۔
مجھے معلوم ہے کہ میری کالم میں اقتباسی عبارت آپ کے ذوقِ مطالعہ سے گزریں
۔آپ نے بھی سوچاہوگا۔کہ یار ڈاکٹر صاحب نے کیا یہ مانگنے والوں کا تعقب
شروع کررکھاہے ۔آپ یقین کریں مجھ سے کسی غریب ،ضرورت مند ،دکھیارے ،بیچارے
کا کرب دیکھا نہیں جاتا۔بلکہ اسی چیز نے مجھے مجبور کیا جس کی وجہ سے میں
نے چھوٹے پیمانے پر کشمیر ویلفیر ٹرسٹ انٹرنیشنل کی داغ بیل ڈالی کہ جتنوں
کے آنسوں پونچ سکتاہوں اتنا تو کچھ کروں ۔یہ بتدریج اس عنوان پر کالم
لکھنے کا مقصد بہروپیوں ،عیاش ،مادہ پرست گروہ کے مذموم مقاصد کو آپ تک
پہنچاناہے ۔مجھے بھلا ان مانگنے والوں سے کیا دشمنی ہے ۔بس غلط لوگوں کی
وجہ سے غیرمستحق کی قابل مذمت حرکت کی وجہ سے خوددار ،حقدار اپنے حق کو
وصول کرنے سے محروم رہ جاتاہے ۔جبکہ دوسرے دولت کو جمع کرنے کے ناپاک مشن
میں بڑھے چلے جاتے ہیں اس حد تک کہ کسی خداکوف کا اگر کسی کو کچھ دینے کا
دل بھی کرتاہے تو دماغ سے ایک الارم بھجتاہے ۔اوہوں ۔۔۔نہیں ۔یہ دھوکہ باز
ہے،جھوٹ بول رہا ہوگا۔وغیرہ ۔آپ سب میرے لیے محترم ہیں ۔میں اپنے رائے میں
جہاں خطاپرہوں آپ اصلاح فرمائیں ان شاء اللہ عزوجل مجھے نرم گوشہ رکھنے
والا پائں گئے۔
چیرمین ورلڈ اسلامک ریوولیوشن
دوٹھلہ ڈبسی نکیال آزاد کشمیر |