انگلیاں بے بس، قلم شکستہ، الفاظ
گنگ اور ذہن پریشان ہے کہ لکھوں تو کیا لکھوں لیکن دل بضد ہے کہ لکھنا ہے
اس باپ کے لیے جس نے تمہیں لکھنا سکھایا، قلم پکڑنا سکھایا جس نے تمہیں لفظ
اور اس کے معنی سکھائے اس کا حق ادا کرنا تو ممکن نہیں لیکن اُس کی محبت
اور محنت کو سلام کو پیش کرنا ہے۔ کسی بیٹی کے لیے اپنے باپ کا نوحہ لکھنا
کوئی آسان کام نہیں اور میرے لیے بھی یہ نا ممکن ہے اسی لیے میں ایسا کروں
گی بھی نہیں، میں تو اُس بھر پور زندگی کو صرف ایک خراج عقیدت پیش کروں گی
جو میرے والد محترم نے گزاری۔ میرے والد محترم ،نام الحاج محمد اورنگ زیب
ولدِ حاجی عبدالغفور کوئی مشہور شخصیت نہ تھے لیکن ہمارے لیے وہ ایک دنیا
تھے اور اٹھارہ مئی 2012 کو جب انکی بیماری کی خبر پر میں اُن کے پاس پہنچی
تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آج یہ شفیق سایا میرے اور میرے بہن
بھائیوں کے سر سے اٹھ جائے گا۔آکسیجن ماسک لگائے ہوئے انہوں نے آنکھوں سے
میرے سلام کا جواب دیا اور کانپتے ہوئے ہاتھ سے مجھے سر نیچے کرنے کا اشارہ
کیا اور اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ دیا اور بس و ہ آخری دست شفقت تھا جو
میرے سر پر رکھا گیا لیکن اس میں وہ پوری کہانی سمٹ آئی تھی جو اس صابر
انسان کی زندگی کے اسّی سالوں پر محیط تھی۔ بڑھاپے کے علاوہ انہیں کوئی
بیماری نہ تھی ٹانگ ٹوٹنے کے آپریشن کی وجہ سے دو انچ چھوٹی ہو چکی تھی
لیکن مخصوص بوٹوں اور جوتوں کی وجہ سے وہ چلتے پھرتے تھے لیکن پِتے کے
آپریشن کے بعد جانبر نہ ہو سکے اور صرف بیس دن بیماری کے بعد خالقِ حقیقی
سے جا ملے۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں دوسری بیٹی کی پیدائش بھی ماتھے پر بل
ڈال دیتی ہے مسلسل چھ بیٹیوں کی پرورش انتہائی محبت سے کی اور ان کی تعلیم
و تربیت پر وہ توجہ دی جو ان کے بعد پیدا ہونے والے دو بیٹوں سے کسی طرح کم
نہ تھی ۔ ہماری ایک ایک کامیابی ان کے لیے کسی جشن سے کم نہ ہوتی تھی۔
پڑھائی میں کامیابی سے لے کر تقریری مقابلے میں انعام حاصل کرنے تک ہر موقع
پر فخر کیا۔ اللہ نے انہیں بیٹیاں دے کر ہر بیٹی کے لیے ان کے دل میں محبت
ڈال دی تھی۔ آج جب کہ اُن کی بیٹیاں اپنے بھائیوں کی طرح اپنے اپنے میدان
میں مصروف عمل ہیں تو انتہائی فخر محسوس کرتے تھے۔ ہمارے والد بلحاظ پیشہ
ایریگیشن انجنئیر تھے اور بڑی خوشی سے اپنی بنوائی ہوئی نہروں کا ذکر کرتے
تھے کتاب سے انہیں عشق تھا اور اپنے علمی خزانے کی ہمیشہ حفاظت کرتے تھے
یہاں تک کہ اپنے پسندیدہ رسالوں کے پرچے جلد کرواکے رکھتے تھے۔ اردو اور
انگریزی کی انتہائی خوبصورت تحریر لکھنے والے میرے والد فارسی شاعری کا
خوبصورت ذوق رکھتے تھے جو انہیں ان کے والد سے ورثے میں ملا تھا ۔ اقبال کے
اشعار کا انتہائی خوبصورت استعمال کرتے تھے اپنی بڑی نواسی کو پی ایچ ڈی کے
لیے انگلینڈرخصت کرتے ہوئے اُسے نصیحت کی ۔
ہزار چشمہ تیرے سنگ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کر ضرب کلیم پیدا کر
کم ہمتی تو شاید انہیں چھوکر بھی نہ گزری تھی میں آج بھی اُن کی زندگی پر
نظر ڈالتی ہوں تو نماز، روزے اور دین کی انتہائی پابندی کے ساتھ ساتھ ہر
لمحہ مجھے وہ دوسروں کی دلجوئی ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ ماں ،باپ، بیوی، بہن
،بیٹی ،بیٹے، بھائی، عزیز رشتہ دار سب کے حقوق اس محبت سے ادا کئے کہ کسی
کو کوئی گلہ نہ رہا۔ اپنے نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو پیار سے مختلف
ناموں سے بلاتے۔
میں جہاں بھی کسی اسلامی مسئلے میں الجھ جاتی تو کسی اسلامی انسائیکلوپیڈیا
کی طرح فوراََ اس کا مستند حل بتا دیتے۔ اور یہاں ان کا وسیع مطالعہ بولتا
ہوا نظر آتا تھا ۔ اخبار میں میرا مضمون دیکھتے تو مجھے فون کرکے اپنامخصوص
جملہ بولتے ’’بیٹی جان تمہارا مضمون آیا ہے دیکھا ہے تم نے‘‘ پھر اُس پر
تبصرہ کرتے اور مجھے ایسے لگتا کہ جیسے میرے لکھے ہوئے الفاظ پوری دنیا نے
پڑھ لیے ہوں۔ ایک دو سال پہلے مجھ سے شورش کاشمیری کی کتابیں لانے کو کہا
لیکن انتہائی کوشش کے بعد مجھے صرف ایک کتاب مل سکی ۔ اپنی آخری بیماری میں
بھی انکی فرمائش ہوتی تھی کہ کوئی انہیں کلام اِقبال سنائے۔
آج ہمارے والد ہم میں نہیں لیکن اللہ پر بھروسہ ، صبر، راست گوئی اور نرم
مزاجی انکے یہ اصول اور عادات ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔ میری
تحریر کا یہ ٹکڑا ان کی زندگی کا احاطہ نہیں کر سکتا لیکن بس یہ تو ایک
بیٹی کا ایک معمولی سا خراج عقیدت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے والد گلگت،
سوات ، صوابی، چترال ، کوہاٹ اور پشاور کی اُن نہروں کی بوند بوند میں زندہ
ہیں جن کے پانی میں وہ گرمیوں کی دوپہروں میں کام کرتے ہوئے اپنا پسینہ
شامل کرتے رہے اور ان کھیتوں کی فصلوں میں وہ ہمیشہ تروتازہ رہیں گے جن تک
ان نہروں کا پانی پہنچتا رہے گا۔ ان کی زندگی میں جب انہوں نے مجھے اپنے
بنائی ہوئی نہریں دکھائی اور میں نے انہیں ایک شعر پڑھ کر سنایا تو بہت خوش
ہوئے اتنا کہ شاید اپنے کام کی کسی بھی تعریف پر اتنا خوش نہ ہوئے ہوں اور
میں آج بھی اپنے عظیم اور پیار کرنے والے پاپا کے بارے میں یہی کہوں گی۔
مانا کہ اس زمین کو گلزار نہ کرسکے
کچھ خار تو کم کر گئے گزرے جدھر سے ہم |