المیہ..!! امریکی ریاست کنساس
میں اسلامی قوانین پر پابندی امریکا اوربھارت ایک ڈگر پر.....
بقول سائرس ” دوسروں کے حالات ہمیں اور ہمارے حالات دوسروں کو اچھے معلوم
ہوتے ہیں“لگتاہے کہ ساری دنیامگر بالخصو ص مسلم اُمہ سے تعلق رکھنے والے لو
گ اِس بات سے متفق رہ کر اِ س حقیقت سے منہ چرارہے ہیں کہ” درحقیقت
ایساہرگزنہیں ہوتاہے جیسانظرآتاہے“ مگر پھر بھی ہم اپنی اپنی رنگینیوںمیں
کھوئے رہتے ہیں اور دور سے نظر آنے والے سیراب کو پکڑنے کی جستجو کرتے رہتے
ہیں جبکہ وقت کے ہاتھوں حالات کے تھپیڑوں کاجو لوگ اور قومیں مقابلہ کررہی
ہوتی ہیںاِس کی نزاکت تو یہی جانتی ہیں مگر دور سے سب کو ایک دوسرے کے
حالات سُندھر دکھائی دیتے ہیں۔
آج بھی دنیا کے بہت سے ممالک کے باشندے اپنے مستقبل کو روشن اور تابناک
بنانے کے خاطر امریکی قومیت کے حصول کو اولین ترجیح دیتے ہیں اِس کی وجہ وہ
یہ بتاتے ہیں کہ امریکامیں زندگی کا مزاہی کچھ اور ہے جہاں ہر قوم اور مذہب
وملت کے لوگ اپنے اپنے طور طریقے کے مطابق صدیوں سے زندگیاں گزاررہے ہیں
اور جہاں اِنہیں ا مریکی قوانین کے مطابق اپنے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ
ایسی تمام آزادیاں بھی حاصل ہوتی ہے جن کا انہیں اپنے ملک میں پابندی کا
سامنہ ہوتا ہے ۔اگرچہ اِس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ امریکانے اپنے یہاں
آباد ہر ملک و ملت اور دین و دھرم کے ماننے والوں کے حقوق کا ایک بڑے عرصے
تک خاص خیال رکھااور اِنہیں اپنے اپنے دین و دھرم اور روایات کے مطابق
زندگیاں گزارنے کی آزادی دے رکھی تھی مگر یہاں ہمیں بڑے افسوس کے ساتھ یہ
کہناپڑرہاہے کہ سانحہ نائن الیون (جو امریکیوں اور اسرائیلیوں کی ملی بھگت
سے رونماہوا)کے بعد جب ہی سے امریکیوں نے اپنے یہاں آباد دنیاکے کسی دین و
دھرم کے ماننے والوں کے لئے پابندی تو نہیں لگائی مگر اِن ہی امریکیوں نے
دیدہ اور دانستہ طور پر اپنے یہاں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ایسا
نارواسلوک اپنارکھاہے کہ آج جس کو امریکی خود بھی جھٹلانہیں سکتے ہیں کہ وہ
یہ کہ سانحہ 9/11کے بعد امریکی انتظامیہ اور امریکی شہریوں نے اپنے یہاں
عالمگیر دینِ اسلام کے پیروکاروں اور قرآن و حدیث کوماننے والوں کے لئے
تعلیمی، اقتصادی، سیاسی اور اخلاقی شعبوں میں داخلوں پر پابندی لگاکر اِن
کی ترقی کی راہیں مسدود کردی ہیں اور اِن کے مذہبی حقوق کی ادائیگیوںاور
طور طریقوںکے مطابق زندگیاں گزارسے روکنے کے لئے اپنے یہاں قوانین میں ایسی
ترامیم کرڈالی ہیں کہ جن کے نفاذ سے براہ راست نشانہ امریکا میں رہنے والی
مسلم آبادی کے لوگ بن رہے ہیں جس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ امریکی ریاست
کنساس کے گورنر سام براؤن بیک نے شریعہ نامی ایک مسودہ قانون پر دستخط
کردیئے ہیں جس کے تحت اَب کنساس کی عدالتیں اور اِنصاف فراہم کرنے والے
اوردوسرے ادارے بھی اپنے فیصلوں کے لئے اپنا سینہ چوڑاکرکے اور گردنیں تان
کرصرف امریکی قوانین کے سوابالخصوص اسلامی یا دوسرے غیرامریکی قوانین کو
ہرگزاستعمال نہیںکر سکیں گے یعنی امریکی ریاست کنساس کے گورنر سام براؤن
بیک نے امریکا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام اور اپنے یہاں عیسائیت کو
چھوڑکر دین اسلام میں داخل ہونے والے مسلمانوں (افراد )سے خوفزدہ ہوکر دیدہ
و دانستہ طور پراپنی ریاست میں اسلامی قوانین کے استعمال پر سختی سے پابندی
عائد کردی ہے اوراِس بل کی حمایت میں سام براو ¿ن بیک کا کہناہے کہ اِس بل
کی منظوری ریاست میں موجود بالخصوص مسلم اور غیرملکیوںکے لئے اِس بات کو
یقین دہانی ہے کہ اَب اِن کے ہر حقوق کے تحفظ کے لئے صرف امریکی قوانین اور
آئین ہی کافی ہے جبکہ اطلاع یہ ہے کہ امریکی ریاست کنساس کے گورنر کے
ترجمان کے مطابق مذکورہ بل کے ذریعے ہم ہر صورت میں اِس بات کو یقینی
بنائیں گے کہ ریاستی عدالتیں ریاستی قوانین کی بالادستی کو ہر حال میں
یقینی بنائیں گی جبکہ ریاست کنساس کے گورنر سام براؤن بیک کے اِس اقدام کے
خلاف جس میں براہ راست مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیاہے امریکا کی کونسل آن
امریکن اسلامک ریلیشنز نے بل کی منظوری کو چلینچ کرنے کا اعلان کردیاہے جس
میں اِنہوں نے اپنایہ پاورفل موقف اختیار کیا ہے کہ ریاست کنساس کے گورنر
نے مسلمانوں کے خلاف اِس بل کی حمایت میں دستخط کرکے مسلمانوں کو نشانہ
بنایاہے اور اِنہیں اِن کے مذہبی قوانین اور حقوق سے محروم کرکے ایک
انتہائی ظالمانہ اقدام کردیاہے جو نہ صرف ریاست کنساس کے مسلمانوں کے لئے
لمحہ فکریہ ہے بلکہ ساری مسلم اُمہ کے لئے بھی ایک المیہ ہے اوراِسی طرح
ہمارے پڑوسی اور بقول ہمارے موجودہ مصالحت پسندحکمرانوں کے بھارت ایک
پسندیدہ ملک ہے جی ہاں...!اِن کے اِسی پسندیدہ سیکولر ملک بھارت سے متعلق
بھی ہمارے پاس ایک خبر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے یہ آئی ہے کہ بھارت
انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی بنیادپر ترقی کی منازل طے کررہاہے
رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اِس بات کا کھلاٹُلاانکشاف کرکے جہاں ایک
طرف دنیاکو حیران کردیا تو دوسری جانب بھارت کے سیکولرہونے کے ماتھے پر بھی
ایساکلنگ کا ٹیکہ لگادیاہے کہ اقتصادی ترقی کے نام پر بھارت اپنے شہریوں
بالخصوص مسلمانوں کے بحیثیت انسانی حقوق غصب کرنے میں مصروف ہے اِس موقع پر
لندن میں ایک پریس کانفرنس میںایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل سلیل شیٹی
نے بتایاکہ بھارتی حکومت ترقی کے لالچ میں کارپوریٹ سیکٹر کے احتساب سے
ہچکچاتی ہے جبکہ یہی بھارت ہے جو مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر کشمیری
مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںکرکے دنیاکے تاریخی مظالم کی
داستانیں رقم کررہاہے۔اِس سارے منظر پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ
ایسانہیں ہوتااگر اُمتِ مسلمہ متحد اور منظم ہوتی مگر کیا کریں ہم خود ایک
نہیں ہوتے جس کا فائدہ آج ہمارے دشمن اُٹھارہے ہیں آج بھی اگر ہم ایک
ہوجائیں اور صحیح معنوں میں ایک خدا، ایک رسولﷺاور ایک قرآن و حدیث کو
ماننے والے بنکر متحدہوجائیں تو ہم امریکاوبھارت اور اسرائیل کو ایک ڈگر پر
چلنے سے روک سکتے ہیں۔مگر کیا کریں ہمارا المیہ تو بس یہی ہے کہ ہم ایک
نہیںہوسکتے اور اِن سے دوستی بھی ختم نہیں کرسکتے۔(ختم شد) |