گزشتہ چند ماہ کے دوران مسلمانان
ہند کے کئی پرہجوم جلسے منعقد ہوئے جن میں دیوبند میں محترم مولانا
ارشدمدنی کی جمعیة علماءہند ،ممبئی میں مسلم پرسنل لاءبورڈ ، دہلی میں
جمعیة علماءہند اور مرادآباد میں تنظیم علماءکے جلسوں کی رپورٹیں اخباروں
میں بڑی نمایاں طور پر شایع ہوئیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جلسوں کے
خطابات اور ان کی قراردادوںکا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کیا
واقعی ان سے کوئی ایسی رہنمائی ملی ہے جو اسلامیان ہند کی ابتری کو برتری
میں تبدیل کردے؟ ان کی قسمت کے دھارے کے بدل ڈالے اور ان کو فکری نکبت و
افلاس اور جذباتیت کے بھنور سے نجات دلاکر تعمیری راہ پر ڈال دے؟ اگر اس
سوال کا جواب اثبات میںنہیں ملتاتو پھر یہ سوچنا چاہئے کہ ان میں جو کثیر
سرمایہ اور افرادی وسائل کھپائے گئے کیاان کا کوئی دوسرا بہتر مصرف نہیں
ہوسکتا تھا؟
ان کاوشوں کا ہماری بے حس جمہوری سرکار نے کتنا اثر قبول کیا اس کےلئے بس
ایک مثال کافی ہے۔ ان میں سے ہر ایک جلسہ میں دہشت گردی کے الزام میں مسلم
بچوں کی گرفتاری پر صدائے احتجاج بلند کی گئی اور دارلعلوم دیو بند کے ایک
وقیع وفد نے بھی وزیراعظم سے ملاقات میں اس مسئلہ کو اٹھا یامگر اس کا جواب
اس ملاقات کے تیسری ہی دن علی گڑھ اسٹیشن پر کیفیات ایکسپریس سے دو طلباءکی
پر اسرار گرفتاری سے دیا گیا۔جامعة الفلاح بلریا گنج کے ان کشمیری طلباءکی
گرفتاریوںپر سناٹا چھایا ہوا ہے۔قانون اور انسانی حقوق کی پامالی کا حال یہ
ہے کہ اس واقعہ کو ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود ان بچوں کو کچھ اتا پتا نہیں۔
بیشک مسلمانان ہند ہزارہا مسائل کا شکار ہیں۔ ملکی اور قومی معاملات میں بے
اختیاری، روزگار کے مواقع میں ناہمواری، اداروں کا عدم تحفظ ، معاشرتی
ابتذال،احکام شریعت سے غفلت وغیرہ نجانے کتنے مسائل ہیں۔ ہرچند کہ ارباب حل
و عقد سے بار بار پکار لگائی جاتی ہے اور ملت کو بھی متوجہ کیا جاتا رہتا
ہے مگر منزل کا نشاں ہنوز نظر نہیںآتا۔سوچنا چاہئے کہ کہیں حکمت عملی بدلنے
کی ضرورت تو نہیں؟
بنیادی مسئلہ تعلیم:
ان تمام مسائل کے پس منظر میں یہ احساس عام طور سے موجود ہے کہ ہمارا
بنیادی مسئلہ تعلیم کا بھی ہے۔لیکن کہ ان عظیم الشان جلسو ں میںاس کلیدی
مسئلہ پر کتنی توجہ دلائی گئی ؟ ان جلسوں کی قراردادیں، رودادیں ، جیسی کچھ
اخبارات میں شائع ہوئیں وہ اس پہلو سے مایوس کن ہیں۔ ہرچند کہ دانشوارن ملت
تعلیم کی اہمیت اور ضرورت سے بے خبر نہیں، مگر طبقہ علماءاور ملی قیادت میں
ولولہ انگیزی نظر نہیں آتی۔اس مجموعی پس منظر میں گزشتہ ہفتہ باد نسیم کا
ایک جھونکا اس وقت آیا جب 27مئی کو دہلی میں محترم مولانا سالم قاسمی کی
صدارت والی مسلم مجلس مشاورت نے عصری تعلیم کی ضرورت پرتوجہ مرکوز کی۔
مرکزی شوری کے جلسے کی رپورٹوںسے اندازہ ہوتا ہے طبقہ علماءکوبھی یہ احساس
ہوچلا ہے کہ عصری تعلیم کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔میں نے اس کو باد
نسیم کا جھونکا اس لئے لکھا کہ الا ماشاءاللہ یہ طبقہ مدارس، مساجد، وقف
املاک ، پرسنل لاءوغیرہ چند مخصوص مسائل کے حصار میںمحصور رہتا ہے اور عصری
تعلیم کو قابل توجہ نہیں سمجھتا بلکہ اس کی مخالفت بھی کرتا رہا ہے حالانکہ
علم نافع کے حصول کی تلقین احادیث نبوی سے ثابت ہے۔
اس اجلاس کی جو رپورٹیں اخبارات میںنظر سے گزریں،ان کی سرخیوں میں ہی تعلیم
اور تعلیمی اداروں کا تذکرہ خوشگوار احساس دلاتا ہے۔ روزنامہ انقلاب کی
سرخی ہے،”تعلیمی پسماندگی کے خاتمہ کےلئے اقلیتی اداروں کا قیام ضروری“۔ ’
جدید خبر ‘ نے سرخی لگائی ہے، ”مشاورت کے مرکزی اجلاس میں تعلیم اور روزگار
کی اہمیت پر زور“۔ ’راشٹریہ سہارا ‘نے بھی ” تعلیمی بیداری پر زور“ کا ذکر
کیا ہے اگرچہ یہ اہم بات ذیلی سرخی میں کہی گئی ہے۔ راشٹریہ سہارا کی رپورٹ
میں صدر جلسہ حضرت مولانا سالم قاسمی کا ایک جملہ نقل کیا ہے جو ہزار
خطابات پر بھاری ہے۔ مولانا نے فرمایا،” ناخوشگوارحالات میں خوشگواری سے
گزرجانا اصل دانائی ہے۔“ یہ بات اسلئے بہت اہم ہے کہ ہمارا اجتماعی وطیرہ
ناخوشگواری کا ماتم کرتے رہنا اور ظلم و زیادتیوںکا رونا روتے رہنا ہے،
نامساعد حالات میں دانائی سے اپنی راہ نکالنے کا فن ہم بھول سا گئے ہیں۔
مولانا سالم صاحب نے یہ بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے ساتھ بڑی ایمان افروز
بات یہ فرمائی، ”اسلام کے اندر ایک طاقت ہے جو وقت پر ظاہر ہوتی ہے ، شرط
یہ ہے کہ اسے دیانت داری سے عام کیا جائے۔“
صدر جلسہ کے یہ فرمودات محض نظری نہیں ،بلکہ ذاتی تجربہ کا نچوڑ ہیں۔ وہ
خود ایک بڑی دینی دانش گاہ’ دارلعلوم (وقف) دیوبند کے سرپرست اعلا ہیں۔
موصوف نے اب جو عصری اور تکنیکی تعلیمی اداروں کی اہمیت پر واشگاف انداز
میں توجہ دلائی ہے وہ ایک نیک شگون ہے۔ انہوں نے صنعت کاروں و تاجروں کو
متوجہ کیا، ”مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی کو دور کرنے کےلئے اپنے تعلیمی
ادارے قائم کرنے چاہئیں تاکہ مسلمان اپنی دینی شناخت برقرار رکھ سکیں۔ اگر
ہمارے اپنے ادارے قائم ہو سکیں گے تو وہاں عصری تعلیم کے ساتھ بچوں کو اپنے
مذہب سے روشناس کراسکیں گے۔ عصری اور تکنیکی تعلیم ضروری ہے ،لیکن ساتھ ہی
ساتھ دینی تعلیم سے ان کا آراستہ ہونا بھی ضروری ہے۔“
رحمانی 30 : مولانا کے اس موقف کی پرزور تائید دیگر مقررین نے بھی کی اور
بعض ایسے کامیاب تجربات کا بھی ذکر آیا جو اس ذیل میں ہوئے ہیں۔ خاص طور سے
پٹنہ کے ایک ادارے ’رحمانی 30‘ کا ذکر آیا جس میں کوچنگ پانے والے 17 میں
سے 7 طلبانے ’آئی آئی ٹی۔ جے ای ای ‘کاپروقارداخلہ امتحان کلیرکرلیا ۔ یہ
نتیجہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ گزشتہ سال 15میں صرف 3طلباءہی کامیاب ہوئے
تھے۔ اس بارکچھ فائدہ اوبی سی کوٹے کا پہنچا جس کے تحت سات میں سے پانچ
طلباءآتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کوچنگ مفت ہوتی ہے۔ یہ ادارہ خانقاہ رحمانی
مونگیر کے تحت چل رہا ہے جس کو ایک ولی صفت صوفی بزرگ مولانا احمد علی
مونگیریؒ نے سنہ 1901 میں قائم کیا تھا۔
میں نے ’رحمانی 30‘ کے ساتھ خانقاہ رحمانی کا تذکرہ اس لئے کردیا کہ مولانا
سالم قاسمی مدظلہ نے عصری اداروں کے قیام کےلئے مسلم تاجروں اور صنعت
کاروںکو ہی متوجہ کیا ہے حالانکہ ملک کے طول و عرض میںپھیلی ہوئی ہزار ہا
خانقاہوں، بارگاہوں اور درگاہوں کو بھی اس طرف متوجہ کرایاجانا چاہئے اور
بڑے بڑے دینی تعلیمی اداروں کو بھی عصری علوم کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ اس
کی ایک اچھی مثال خواجہ نصیرالدین ؒچشتی چراغ دہلی کے خلیفہ حضرت سید محمد
حسینیؒ خواجہ بندہ نواز گیسودراز گلبرگہ(1321-1422) کی خانقاہ ہے جس کے تحت
متعدد رفاہی اداروں کے علاوہ تکنکی اور جدید علوم کے ادارے
بھی چل رہے ہیں ۔کئی دینی اداروں کے ساتھ بھی عصری تعلیم کا بندوبست کیا
گیا ہے۔
تعلیم نسواں:اس جلسہ کی روداد میں تعلیم نسواں کو کوئی ذکر نہیں۔ معذرت کے
ساتھ عرض ہے کہ ہمارے روائتی معاشرے میں حقوق نسواں سے ہی نہیں بلکہ تعلیم
نسواں سے بھی مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے۔ جب تک ہماری بچیاں زیور تعلیم سے
آراستہ نہیں ہونگیں ، تعلیم کا اصل مقصد اور ہدف حاصل نہیں ہوگا۔لیکن ان
کےلئے الگ تعلیم گاہوں کا قیام ناگزیر ہے۔ یہ ہماری معاشرتی اور دینی ضرورت
ہے کہ بچیوںکےلئے کم از کم سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری تعلیم کا الگ نظم
ہو،جیسا کہ مسلم یونیورسٹی میں ہے۔
دستیاب ادارے اہم :جہاں تک لڑکوں کا تعلق ہے ان کےلئے مخصوص اداروں کا قیام
ضروری نہیں۔اس دور میں معیاری مسلم اقلیتی ادارے کا قیام اور اس کا چلانا
بڑا ہی مشکل کام ہے۔ سرمایہ سے زیادہ اہم مسئلہ اہل اور محنتی اسٹاف کا
ہوتا ہے۔ موجود ہ مسلم اداروں میں سے اکثر کا حال خراب ہے۔ کسی تعلیمی
ادارے کو مافیاﺅں سے بچاکر چلانا الگ مسئلہ ہے۔چنانچہ الگ ادارے قایم کرنے
کی مہم جوئی کے بجائے دستیاب سہولتوں سے فائدہ اٹھاناچاہئے۔ البتہ اچھے
نتائج اور دینی تشخص کی حفاظت کےلئے دو کام کرنے ہونگے۔ اول بچوں کی کوچنگ
کا پختہ بندوبست کیا جائے تاکہ وہ پھسڈی نہ رہ جائیں اور ان کا دل تعلیم سے
اچاٹ نہ ہوجائے۔ دوسرے شبینہ اور صباحی مکاتب کا ہرمسجد میں نظم کیا جائے
جس میں ان کی دینی تعلیم ہو۔
اہم بات:ہمارے نزدیک یہ بات اہم ہے کہ اپنے بچوں کو کسی بندماحول کے بجائے
عام اسکول یا کالج میں ہی پڑھانا چاہئے تاکہ دور طالب علمی سے ہی وہ اس
ماحول اور اس ہندستان سے خوب واقف ہوسکیں جس میں ان کو زندگی گزارنی ہے۔ اس
میںہرگز کوئی مضائقہ نہیں کہ آپ کا بچہ کسی مشنری اسکول ،آریہ سماجی کالج
یا جین سماج کے یا کسی اور مذہبی فرقہ کے قائم کردہ اسکول میں جدید تعلیم
حاصل کرے۔اسکول کا انتخاب اس کے معیار کی بنیاد پر ہونا چاہئے ناکہ اس کی
مذہبی شناخت کی پر۔ البتہ ان کی دینی تعلیم اور تربیت کا بندوبست کم خرچ پر
مکتب قائم کرکے کیا جائے۔انکا چلانا سہل اورکفائتی ہوگا۔ یہ اضافی ذمہ داری
مسجد کے امام کے سپرد کی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ خود پڑھا لکھا ہو۔ مکاتب
کےلئے متعدد مفید نصاب موجود ہیں جن میں مفتی کفایت اللہ ؒ کا ’تعلیم
الاسلام‘ اورمولوی اسمٰعیل میرٹھی کا نصاب مشہورہیں۔ جمعیة علماءہند نے
مکاتب کےلئے ایک خاص نصاب جاری کیا ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق استاد
پروفیسر بدرالدین الحافظ کا تیار کردہ ’اسلامی معلومات‘ کا سیٹ بھی بڑا
مقبول و مفیدہے۔ یہ کئی زبانوں میں دستیاب ہے۔میرے علم کی حد تک ایسا ہی
نصاب جامعہ اشرفیہ مبارکپور نے بھی تجویز کیا ہے ۔غرض یہ کہ کئی نصاب موجود
ہےں۔ ان سے استفادہ حاصل کیا جانا چاہئے۔اسلامی اقدار اور اعتقادات سے بچوں
کو ہم آہنگ کرانے کےلئے ماں کا تعلیم یافتہ ہونا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
تعلیم کا غلغلہ:یہ ایک قابل قدر بات ہے کہ مسلم مجلس مشاورت نے عصری وفنی
علوم کی اہمیت پر توجہ دی ۔ اس سے یقینا ان دانشورحلقوں کوتقویت حاصل ہوگی
جو اس میدان میں کام کررہے ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں ملت اسلامیہ میں تعلیم
کےلئے طلب بڑھ رہی ہے۔ راقم الحروف کوگزشتہ چند ماہ کے دوران کئی بڑی
تعلیمی کانفرنسوں میں حاضری کا موقع ملا۔ جن میں شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ؛ ای
آر ڈی ایف فاﺅنڈیشن گواہاٹی؛ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی، ری بھوئی،
میگھالیہ؛ آل انڈیا ایجوکیشن موومنٹ کلکتہ اور آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل
کانفرنس جے پور قابل ذکر ہیں۔یہ خوشی کی بات ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کی
بڑی طلب نظرآتی ہے۔ جے پور کی کانفرنس خواتین کی شرکت اور خصوصی سیشن کےلئے
منفرد رہی۔ اس دوران سدبھاﺅنا انسٹی ٹیوٹ آف منجمنٹ اینڈ لیڈر شپ پونا کے
کنونشن کے موقع پر منعقدہ دوروزہ پروگرام میں بھی شرکت کا موقع ملا اور یہ
دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس ادارے میںبھی مسلم بچے خاصی تعداد میں ہیں۔
جنوبی ہندستان میں مسلمانوں کے عصری تعلیمی ادارے بہت ہیں۔ اب یہ لہر شمالی
اور مشرقی خطے میں بھی نظرآرہی ہے۔ یہ خوش آئند پہلو ہے کہ طبقہ علماءسے اس
لہر کی مخالفت کے بجائے حمایت میں آواز اٹھی ہے۔ مگر جذباتی نعرے ، خیالی
باتیں اور صرف تقریریں کافی نہیںہیں۔ ہمیں ناخوشگواری کے ماحول میں
خوشگواری سے گزرنا سیکھنا ہوگا۔ ملت کے سبھی فکر مند طبقوں کو مل بیٹھ کر
ایک روڈ میپ تیار کرنا ہوگا۔ کہاں ہم اپنا ادارہ قائم کرسکتے ہیں، کس طرح
اپنے اقلیتی اداروں کو بچا سکتے ہیں اور کس طرح ان کا معیار بلند کرسکتے
ہیں؟ میرا تاثر ہے کہ ہمارے طبقہ علماءنے حق تعلیم ایکٹ (آرٹی ای) پر مدارس
کے معاملے آگے توجہ ہی نہیں فرمائی ، حالانکہ اس کی زد امداد یافتہ مسلم
اقلیتی اداروں پر بڑی سخت پڑنے والی ہے۔ تمام جلسوں میں ، جن کا ذکر ابتدا
میں آیا، مدارس کے معاملے میں غلو کی حد تک تشویش کا اظہار کیا مگر کسی نے
بھی ان شقوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جن کی زداسکولوںپر لامحالہ پڑیگی ۔اب
اگر مسلم مجلس مشاورت نے عصری تعلیم کی ضرور ت کومحسوس کرلیا ہے اور اس
کےلئے آواز بھی اٹھائی ہے تو اس کو ملت کے عصری تعلیم کے اداروں کے وجوداور
ان کے اقلیتی کردارکے تحفظ کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔(ختم)
(مضمون نگار ’آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے نائب صدر ہیں۔ فون: 9818678677) |