64 سال انسانی زندگی میں پیرانہ
سالی کی علامت ہوتی ہے۔جس ملک میں تاریخ کو جبراً مسخ کیا جائے۔سچ کو
چھپایا جائے۔جذبہ کے بجائے جذبات کو ابھارا جائے۔قوم کے بجائے مملکت کو
اولیت دی جائے۔تدبر اور تدبیر کے بجائے (فی الحال) کو فوقیت حاصل ہو۔قوانین
کی تشکیل کے بجائے تخلیق پر توجہ ہو، تو پھر 64سال پیرانہ سالی کے ساتھ
ساتھ ضعف کبیر کا بھی حامل ہوا کرتا ہے۔جہاں شکست وریخت کا تدریجی عمل
ارتقاء پزیر ہوجاتا ہے۔اور پھر ملک،مملکت یہاں تک کہ نام و نشان بھی تاریخ
کے اوراق سے ناپید ہوتے چلے جاتے ہیں۔تاریخ کے جبرکو سہنے کے لئے بڑے حوصلے
کی ضرورت ہوتی ہے،مگر اس جبر کو روکنے اور مدافعت کے لئے بڑی انتھک محنت
درکار ہوتی ہے۔قوموں اور ملکوں کی تاریخ کی تدوین میں64سال کوئی معٰنی نہیں
رکھتے۔یہ سچ ضرور ہے مگر ارتقائی عمل کے لحاظ سے، کہ جس میں ارادے کا عمل
نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ارتقائی عمل ایک بے قابو عمل ہے جو وقت کے ستم
ظریف بہاو پر چلتا رہتا ہے۔ارتقائی عمل کو صدیوں کی ضرورت ہوتی ہے،جس کی
پیشن گوئی کرنا ناممکن ہے،کہ کب تکمیل ہوگی، تکمیل کی صورت کیا ہوگی اور
کتنی پائیدار ہوگی۔اے میرے ارد گرد پھیلے ہوئے منتشر لوگوں،ارتقائی عمل کے
خواہشمندانسانوں۔کیا چند سالوں پر محیط زندگی بہتر بنانے کے لئے صدیوں کا
انتظار کروگے؟64 سال ! جانتے ہو 64سال کیا ہوتے ہیں!تو سنو اور جاننے یا
سمجھنے کی کوشش کرو۔1906 میں قائم ہونے والی ایک غیر معروف جماعت کچھ سالوں
کی جدوجہدکے نتیجہ میں ایک تحریک کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔صرف چند لوگوں
کا اجتماع کروڑوں لوگوں کے ضمیرکو جھنجھوڑتا ہوا صرف 41 سال میں اپنی منزل
پالیتا ہے،مگر! افسوس !وائے افسوس، اے میرے اردگرد رہنے والے کروڑوں منتشر
لوگوں۔64سال تمہارے لئے کافی نہیں ؟ کیا ابھی صدیوں کی ضرورت ہے؟اور اگر ہے
تو کیوں؟
ارتقاء کا عمل خودرو پودوں اور جھاڑجھنکاڑ کی مانند ہے۔یہ کبھی بھی
تمہاراپائیں باغ نہیں ہوگا۔ارتقاء تمہاری مرضی کے مطابق کبھی نہیں
ہوگی۔اپنی مرضی چاہو تو ارتقاء کی راہ میں رکاوٹ ڈالو۔تاریخ کے جبر کے
سامنے ڈٹ جاؤ،سینہ سپر ہوجاؤ۔تم کون ہو؟ جانو کہ تم کون ہو۔ کوشش کہ تم اس
کھلے راز کو جان سکو کہ جس راز کو کائنات کا ذرہ ذرہ چیخ چیخ کر اعلان
کررہا ہے۔تم کو پکار رہا ہے،تمہیں جتلارہا ہے۔کون ہو تم؟ تم وہ ہو کہ جس کے
لئے کواکب سماوی ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ تمہارے لئے بے چین ہے کہ تمہاری
جستجو کی پیاس کو سیراب کرسکے،اور تم۔۔۔اے میرے اردگرد پھیلے ہوئے منتشر
انسانوں کے سمندر،تم نے تو اپنی جستجو کی طلب ہی مٹادی۔تم تو صدیوں کے
منتظر ہو گئے۔اپنی منزل کی راہوں کے نشان خود ہی مٹانے پر تلے ہوئے ہو۔تم
تاریخ کے رحم وکرم پر رہنا چاہتے ہو،حالانکہ تم وہ ہو کہ جس سے تاریخ عبارت
ہے،قائم ہے۔کیا تاریخ تمہارے بغیر بھی کچھ ہے؟ یقیناًہے۔اگر تم یوں ہی
منتشر رہو۔اپنی پہچان سے بے خبر رہو۔جان لو کہ تم کو تاریخ کے جبر سے کوئی
بھی نہیں بچا سکتا،تم بکھری ہوئی ریت کے ذرے ہو،کہ پوجے جانے والی مورتی کے
لئے بھی مٹی کو یکجاء ہونا پڑتا ہے۔کیچڑ بننا پڑتا ہے۔کھنکنے والے جسم کے
بننے سے پہلے ضبط کے آتشدان میں جھلسنا پڑتا ہے۔تراش خراش کے لئے اوزاروں
کی سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔تب کہیں جا کر صنم بنا کرتے ہیں۔مگر تم تو ۔تم
تو منتشر انسانوں کا بے نظم ڈھیر ہو۔خواہش تو تم کو صنم بننے کی ہے۔
حصول تعظیم کا خواب بجاء ہے جناب، مگر کیا تعبیر کی کوشش کی ہمت بھی ہے!
تم نے تو اپنے خواب اپنی خواہشوں کو صدیوں کے قدموں پر ڈھیر کردیا۔تم کیا
جانو،کہ صدیاں بیت جانے کے بعد تمہاری خواہش بار آور ہو گی؟ ارتقاء کی
سیڑھیاں نہیں ہوا کرتیں،کہ تم ان کو گن سکو اور بلندی کا اندازہ کرسکو۔یہ
وقت کی لہروں پر بہتی ہے،جانے کب پار لگے،یا غرق ہی ہوجائے۔یا پھر تم تیار
ہو ایک عظیم نظم کے ساتھ یکجاء ہونے کے لئے۔ضبط کی نار میں جلنے کے لئے،
اپنے خواب کی تعبیر کو منزل کرکے تاریخ کے جبر سے دو دو ہاتھ کے لئے۔ہاں
اگر تیار ہو ۔تیار ہو۔تیار ہو تو پھر یہ تاریخ ہی کا فیصلہ ہے کہ تم کو
تاریک کی نہیں، تاریخ کو تمہاری ضرورت ہے۔تم صدیوں کے محکوم نہیں، بلکہ
صدیاں تمہاری بندگی کی خواہاں ہیں۔یہ فیصلہ تاریخ کا ہے کہ آج جن جن کا ذکر
زمانے میں ہے۔ ان میں سے کوئی صدیوں کا محکوم نہیں۔ان کو تاریخ کی
نہیں،بلکہ تاریخ کو انکی ضرورت ہے۔ |