بسم اللہ الرحمن الرحیم
اپنی قسمت پر کہرام برپا کیجیے ، ماتم کیجیے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں
سانس لے رہے ہیں جہاں پر ہر قسم کے اخلاقی ، معاشرتی اور مذہبی قوانین سے
آزاد ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شتر بے مہار اہلکار دن دیہاڑے
نوجوانوں کو اچک لے جاتے ہیں پھر ان کا کچھ پتہ نہیں چل پاتا کہ انہیں
آسمان نے اٹھا لیا یا زمین نگل گئی۔۔۔ اور چند ماہ بعد ان کی سر بریدہ اور
تشدد سے چور چور لاشیں کسی ویرانے یا بے آب و گیاہ میں پھینک دی جاتی ہیں ،
پاکستان کے یہ خفیہ اہلکار اس قدر زور آور ہیں کہ ان پر دنیا کا کوئی قانون
،قاعدہ کلیہ اور ضابطہ لاگو نہیں ہوتا، ان ظالموں کو انسانی خون کا ایسا
چسکا لگ چکا ہے کہ یہ نہایت گھناونے انداز سے اپنی وارداتیں عرصہ دراز سے
جار ی رکھے ہوئے ہیں ۔آج تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ یہ کون لوگ ہیں جو
پلک جھپکتے ہی جوانوں کو اٹھا لے جاتے ہیں اور انتہائی ظالمانہ ، وحشیانہ
اندازسے قوم کے بیٹوں کے ساتھ بھیانک کھلواڑ کر کے ان کی حسین زندگیوں کے
چراغ گل کیے جار ہے ہیں ،پہلے مقامی تھانے کی مدد سے نوجوانوں کو اٹھا یا
جا تا تھا مگر اب ان خفیہ اہلکاروں کا پولیس سے بھی اعتماد اٹھ چکا اور اس
سلسلے میں پولیس کو بھی بے خبر رکھا جا تا ہے، خفیہ اداروں کے اس عمل سے
لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو جو رنج ، تکلیف اور کلفت پہنچائی جا رہی ہے وہ
بیان سے باہر ہے ۔ یہ کوئی اس قدر ادنی یا معمولی سا مسئلہ تو نہیں کہ جس
سے صرف نظر کیا جا ئے اور آنکھیں بند کر کے ظلم اور اس ریاستی جبر کے خلاف
چپ سادھ لی جائے یا اس سے سمجھوتہ کر لیا جا ئے ، پہلے یہ ہوا کرتا تھا کہ
لاپتہ افراد سے پوچھ گچھ کے بعد یا تو ان پر دفعات لگا کر باقاعدہ جیل بھیج
دیا جاتا تھا یا پھر انہیں رہا کر دیا جاتا تھا، لیکن اب گزشتہ کچھ عرصہ سے
ایسی دل گرفتہ خبریں عام ہیں کہ ان افراد کو قتل کر کے ویرانے میں پھینک
دیا جاتا ہے ، پھر ذرا جگر تھام کر سوچیے کہ قتل بھی ایسا جس پر آسمان بھی
کانپ کانپ اٹھے ۔دوسری جانب ہماری حالت تو یہ ہے کہ من حیث القوم ہم اس
قدربے حس ہو چکے ہیں اور ہمارے اسلامی و ملی جذبات اس درجہ سن ہو کر رہ گئے
ہیں کہ کوئی افتا د کیوں نہ ٹوٹ پڑے ہم بیدار نہ ہوں گے ،اب دیکھیے کہ اپنے
پیاروں کی بازیابی کی خاطر لاپتہ افراد کے لواحقین تقریبا اڑھائی ماہ
اقتدار کے ایوانوں کے سامنے خیمہ زن رہے مگر قوم اور اس کے نام نہاد لیڈروں
کا ضمیر بیدار ہو نا تھا نہ ہوا ، جب ایسی بے حسی اور بے مروتی کی فضاءہوتو
پروفیسر عنایت علی کے اس شعر کا زبان پر آنا لازمی امر ہے
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
مورخہ 19مئی کو راقم لاہور ہی میں تھا کہ صبح سویرے اطلاع ملی کہ لاپتہ
افراد کی فہرست میں شامل حافظ عبد القیوم کی لاش پشاور سے برآمد ہوئی ہے۔
عبد القیوم کوسات ماہ پیشتر لاہور کے علاقہ سبزہ زار سکیم سے اٹھایا گیا
تھا ، ا س نوجوان کے جسم پر تشدد کے ایسے نشانات تھے کہ راقم کانوں کو ہاتھ
لگا کر رہ گیااور یہ اندازہ لگانے میں ذرہ برابر بھی دقت یا مشکل پیش نہیں
آئی کہ نوجوان کی موت اسی لرزا دینے والے تشدد کی وجہ سے واقع ہوئی ، اس
نوجوان کی گمشدگی کے حوالے سے اہل علاقہ نے بتایا کہ آج سے سات ماہ پہلے
حافظ صاحب مسجد سے نماز پڑھ کر نکلے، باہر ایک سفید کلر فور بائی فور ڈالے
میں دو چار لوگ ان کا انتظار کر رہے تھے انہوں نے حافظ عبد القیوم سے ان کا
نام پوچھا اور تصدیق کرنے کے بعد انہیں اٹھا کر لے گئے ، بس اس دن کے بعد
ان کا کچھ پتہ نہیں چلا۔۔۔ اور آج اسی نوجوان کی نمازجنازہ ادا کی جا رہی
تھی ، یقین جانیے جب جے یو آئی( ف) کے راہنماءمولانا محب النبی مد ظلہ اس
نوجوان کی نماز جنازہ پڑھا رہے تھے تو ہر آنکھ اشکبا ر تھی اور ہر ایک پر
سکتہ طاری تھا کہ مبادا کہیں اس نمازجنازہ کے جرم میں ہی ہمیں نہ غائب کر
دیا جائے اور پھر ہمارا انجام بھی عبد القیوم جیسا نہ ہو ، لوگوں پر خفیہ
اہلکاروں کی وہ وحشت اور ڈر طاری تھا جسے بیان میں نہیں لایا جا سکتا ۔اس
اندوہناک اور غم ناک حادثے کے زخم ابھی تازہ تھے کہ بلوچستا ن سے خبر آئی
کہ تین بلوچ جوانوں غلام نبی ، محمد خان اور مہران خان جنہیں تقریبا ایک
ماہ پہلے خفیہ ایجنسیوں کے کارندے اٹھا لے گئے تھے کی بوری بند لاشیں سریاب
روڈ سے ملی ہیں ،یاد رہے کہ یہ تینوں افراد لاپتہ افراد کیس میں شامل تھے
اور چیف جسٹس نے خفیہ اہلکاروں کو ان کی بازیابی کا حکم دے رکھا تھا ۔اسی
طرح سپریم کورٹ بار کونسل کی بلوچستان ایشو پر کانفرنس میں شرکت کے لیے آنے
والے بلوچ راہنما اویناش بگٹی بھی اسلام آبا د سے تاحال لاپتہ ہیں ، حالات
کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو واضح نظر آ رہا ہے کہ لوگوں کو گھروں سے
اغواءکر کے لے جانااور پھر انہیں تشد دکے ذریعے سے قتل کر دینے کے واقعات
میں کمی نہیں اضافہ ہوا ہے ، بلوچستا ن میں لاپتہ افراد اور ان کے قتل کا
مسئلہ تو عالمی سطح پر اٹھا یا جا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پورے میں ملک
میں خفیہ ایجنسیوں کے کارندے یہ کھیل کھیل رہے ہیں، ہزاروں لوگ ان خفیہ
اداروں کی حراست میں ہیں اور لاتعداد کو قتل کیا جا چکا ہے ، یوں یہ خفیہ
ادارے ریاست کے اندر اپنے من کی ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں ، آخر اس
معاشرتی اور ریاستی زہر کا جو قوم کو دیمک کی طرح کھائے جا رہا ہے کچھ تو
تریاق ہونا چاہیے ، کیا خفیہ ایجنسیوں کے یہ آلہ کار اس قدر طاقت ور اور
زور آور ہیں کہ کوئی بھی انہیں اس قبیح حرکت اور شرمناک کردار سے نہیں روک
سکتا ۔ ان مذہبی، سیاسی لیڈروں ، جرنیلوں ، دانش ور ، ججوں اور وکیلوں کی
بھیڑ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ان شتر بے مہار اور منہ زور اہلکاروں
کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں آئے اور انہیں مذہبی ، اخلاقی اور قانونی
حدود و قیود کے پنجرے میں بند کر دے، آخر اب نہیں تو کب ایسا ہو پائے
گے۔۔۔؟ ٭٭٭٭٭ |