ڈاکٹر فوزیہ چودھری
گیاری سیکٹر میں ہونے والے حادثے کو آج پچاس دن سے زائد عرصہ گزر چکا
ہے۔اِن پچاس دنوں میں کیا کیا قیامتیں ہوں گی جواُن لواحقین پر نہ ٹوٹی ہوں
گی جن کے پیارے ، عزیز ازجان کڑیل جوان برف کی سفید چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے
لیے سو گئے کتنے ضعیف باپ ہوں گے جِن کے بڑھاپے کے یہ سہارے تھے کتنی عظیم
مائیں ہوں گی جِن کی آنکھوں کی ٹھنڈک یہ ہوں گے اور اِن میں سے کتنے ایسے
ہوں گے جو خود سفید چادر اوڑھنے کے منتظر بیٹھے اپنے اِن عظیم سپوتوں کے
لیے دستِ بدُعا ہوں گے۔ جِن کی منتظر آنکھیں ابھی بھی اِن پرچھائیوں کے
تعاقب میں ہوں گی جِن کے کام اُن کے قدموں کی چاپ اور اُن کے وجود کی آہٹ
پر لگے ہوں گے۔اور اُن کے وہ بھائی جِن کے یہ دست وبازو ہوں گے اور اُن کی
وہ بہنیں جِن کی یہ آس اُمید ہوں گے اور بہنوں کے آنچل جو اپنے بھائیوں کے
لیے پھیلے ہوں گے اور اِن کے لیے دعائیں، خوشیاں اور زندگی مانگتے مانگتے
بے آس ہو گئے ۔وہ سہاگن بیویاں جِن کے سہاگ خود تو برف کی سفید چادر اوڑھ
ہمیشہ کے لیے سرخ رو ہوگئے لیکن اِن کے سروں پر بھی بیوگی کی ردا اوڑھا گئے
اور ننھے معصوم جن کی ساری زندگی کا دارومدار ہی اُن مشفق ہستیوں پر تھا
جِن کو قدرت نے ان معصوموں کی ذمہ داری سونپی تھی ، وہ ننھی جانیں جن کے
لیے یہ رول ماڈل تھے۔جن کی ساری کائنات ہی اِن کے اردگرد گھومتی تھی ۔کیسے
ہر آنے والی صبح ایک نئی آس ، امید کے ساتھ، ہزاروں ناتمام خواہشات اور
امیدیں لیے بیدار ہوتے ہوں گے اور کیسے کیسے ہر ڈوبتی شام اُن کی آسوں ،
امیدوں کی شمع لو دیتے دیتے مدھم ہوتی ہو گی۔یہ تو یقینا وہی صحیح طور پر
جان سکتا ہے جِس پر گزرتی ہے۔
پھر انسانی نفیسات بھی عجیب فطرت لیے ہوئے ہیں موت جیسی اٹل حقیقت سے ہم دن
رات دو چار ہوتے ہیں مگر انسانی فطرت اِس کا سامنا کرنے سے ہمیشہ ہی گریزاں
رہی ہے ۔میں نے اپنے لڑکپن میں یہ فقرہ پڑھا تھا ”زندگی بہر حال گوارا چیز
ہے“ جو ابھی تک مجھے یا د ہے۔ انسان کسی بھی صورتِ حال سے دوچار ہو۔زندگی
اور موت کی کشمکش میں مبتلاءہو کسی جان لیوا مرض کا شکار ہو ،مگر کی موت کی
خواہش وہ کسی صورت میں بھی نہیں کرتا بدترین حالات میں بھی وہ زندہ رہنے کو
ہی ترجیح دیتاہے اور یہی وہ اپنے پیاروں کے بارے میں سوچتا ہے وہ کبھی اسے
کھونا یا موت کے منہ میں جاتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے مگر پھر یہ بھی انسانی
فطرت ہی ہے کہ فنا انسا ن کو ایک اور چیز سے آشنا کرتی ہے اور وہ ہے صبر،
آپ اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں منوں مٹی تلے دفن کر دیتے ہیں اور پھر خود
اپنے ہاتھوں اُن پر مٹی ڈال دیتے ہیں لیکن مٹی کی وہ ڈھیر ی آپ کے اند ر
اُٹھنے والے اُن جذبات پر ایک پھاہا سا ضرور رکھ دیتی ہے ۔ انسان کی تسلی
ہو جاتی ہے ۔
مگر اِس سُرخ خوں آ شام گلیشئر کی سفید فام چادر تلے آئے قوم کے یہ عظیم
سپوت ہمارے بھائی، ہمارے بیٹے جو مادر وطن کی حفاظت پر مامور ، دشمن کی
سلگائی ہوئی اِس جنگ کی آگ سے مادرِوطن کو بچاتے بچاتے خود اِس آگ کا
ایندھن بن گئے مگر ایسے کہ ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوگئے اور انہوں نے ایک ایسی
عظیم موت کو گلے لگا لیا جس کی ہر کوئی تمنا اور خواہش تو کرسکتا ہے مگر
اللہ تعالیٰ کی خاص نظرِ عنایت کے بغیر اِسے حاصل نہیں کرسکتا ۔سرخرو ہونے
والے تو سرخرو ہوئے کہ ”لوحِ محفوظ“ میں اِن کے ناموں کی تختیوں پر خامئہ
قدرت نے یہی کچھ تحریر کیا تھا اور خدا کے سچے وعدے کے مطابق وہ حیاتِ
جاوداں کے مستحق بھی ٹھہرے اور خدا کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا باقی رہ
گئے ظاہری اسباب اور ظاہر ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ سمجھ بوجھ
اور عقل کے مطابق اُنہیں استعمال کرنے کا نہ صرف پابند ہے بلکہ اختیار بھی
رکھتا ہے اور ”لَیسَ الاِنسانَ اِلا ما شائ“کا حکم بھی انسان ہی کے لیے آیا
ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی جس کے لیے اُس نے کوشش کی ۔کوشش کرنا انسان کا
فرض لیکن اُسے کامیاب کرنا قدرت کا اختیار ہے۔۔گیاری سیکٹر میں ہونے والے
اِس حادثے کے بعد پاک فوج نے جس طرح سخت مشکل اور نامساعد حالات میں وہاں
ریسکیوآپریشن پچاس دن تک جاری رکھا بلکہ ابھی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اِس
کا اندازہ ہم اور آپ ہر گز نہیں لگا سکتے بس ذرا چشم تصور ایک کلومیٹر لمبی
اسی فٹ موٹی برف کی تہہ کا اندازہ لگائیے اور پھر اُس کے نیچے درجہ حرارت
اور آکسیجن کی کمی ،برف کا بوجھ۔۔۔۔کیا انسانی زندگی کو قائم رکھنے کے لیے
اِن میں سے کچھ بھی موافق ہے۔۔۔۔
پاک فوج نے سیاچن محاذ کے گیاری سیکٹر میں برفانی تودے تلے دبے فوجیوں کا
سرکاری طور پر شہید قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ تمام فوجیوں کو نکالنے تک
آپریشن جاری رہے گا۔اس واقعہ کے سماجی اور معاشی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے
تمام مکاتب فکر کے مذہبی علماءسے مشاورت کی گئی ، اس کے بعد فیصلہ کیا گیا
کہ ورثاء کے مسائل اور مشکلات کو کم کرنے اور قانونی دستاویز تقاضے پورا
کرنے کیلئے ، باقی ماندہ فوجیوں کو شہید قرار دے دیا جائے۔ اِس میں کوئی شک
نہیں کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اِس ریسکیو آپریشن کے لیے ذاتی
دلچسپی لی اور اپنے پیاروں کی یاد میں تڑپنے والوں زخموں پر پھاہارکھنے کے
لیے فوج کے تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے اِس آپریشن کو کامیاب بنانے کی
کوشش کی مگرہوتا ہے جو خدا کو منظور ہوتا ہے انسان تو صرف کوشش کر سکتا ہے
اور واقعی پاک فوج کے جوانوں نے بھی اِس آپریشن کو کامیاب بنانے میں کوئی
دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا۔اُن تمام فوجی افسروں اور جوانوں کے لواحقین جنرل
کیانی فوج کے اِس آپریشن سے بالکل مطمئن ہیں اور اکثر نے اِسے رضاالٰہی
تسلیم کرتے ہوئے فوج کا اور خصوصاََ جنرل کیانی کا اور ساری عوام کا شکریہ
ادا کیا ہے جنہوں نے اُن کے غم کو اپنا غم سمجھااور اُن کے ساتھ دعاﺅں میں
شریک رہے۔ اِس ریسکیوآپریشن کے پچاسویں دن جن سپاہیوں کی لاشیں برآمد ہو
گئی ہیں جس سے یکدم اُمید کی لو جگمگا اُٹھی ہے کہ شاید اِسی طرح کی کچھ
اور کامیابیاں بھی مل جائیں اور قبر پر مٹی ڈال کر صبر حاصل کرنے کی آرزو
بھی پوری ہو جائے ۔ریسکیو آپریشن کے دوران سپاہی محمد حسین جن کا تعلق
سکردو سے تھا اُن کا جسدِ خاکی مل گیا ہے جنہیں اُن کے گاﺅں میں سرکاری
اعزاز کے ساتھ سپردخاک کر دیا گیا ہے اِن کے علاوہ امل جیری نامی ایک اور
سپاہی کی لاش بھی مل گئی ہے اور فوج نے آپریشن جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے
۔ لیکن یہ آپریشن جاری رکھنا اتنا آسان نہ ہے اِس میں مالی وسائل کے ساتھ
ساتھ انتھک انسانی مسائل بھی کام کر رہے ہیں اور جغرافیائی حالات انتہائی
نامساعد۔۔۔اِس گرنے والے برفانی تودے کا حجم کم ازکم ایک مربع کلومیٹر تک
وسیع اور مختلف مقامات پر اِس کے ملبے کی گہرائی ستر فٹ سے دوسو فٹ تک
بتائی جاتی ہے ۔اِن کی کھدائی اور اِن کی تہہ تک پہنچنا محدود انسانی وسائل
کے ساتھ اگرچہ بظاہر ناممکن ہی نظر آتا ہے لیکن ایک بات جو عام طور پر فوج
اور اِس کے تربیت یافتہ افراد کے متعلق عوام میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ
فوج کچھ بھی کر سکتی ہے کیونکہ اِس کے جوان اعلیٰ تربیت یافتہ اور اپنے کام
میں مہارت رکھنے والے ہوتے ہیں ۔اور اِس میں کچھ شک بھی نہیں ہے کہ فوج نے
اپنی سی کوشش کرکے ریسکیوآپریشن کو اِس حد تک پہنچادیا ہے ۔
ساری قوم اِن کی احسان مند ہے ہم جو آج اپنے اپنے گھروں میں آرام اور چین
کی نیند سوتے ہیں تو آخر انہی محافظوں کی وجہ سے جنہوں نے چپے چپے پر اپنا
خون بہاکر مادروطن کی چادر کو دشمنوں کے ہاتھوں سے بچایا ہوا ہے۔دریا،
پہاڑ، جنگل حتی کہ سیاچین کا یہ بلند ترین اور سر د ترین محاذ جنگ بھی
۔میرے وطن کے شہداءکے خون سے متعدد بارسیراب ہوا ہے اور اب تک تقریباََ تین
ہزار کے قریب جوان اور افسر یہاں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں اور
اِس حوالے سے اگر اِسے سُرخ گلیشئر کہا جائے تو کچھ بے جانہ ہوگا۔ لیکن یہ
خون کسی صورت رائیگاں نہیں جائے گاکہ ہم ساری قوم خدا کے حضور اپنے اِن
شہداءسے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اِس ارضِ وطن کے ذرے ذرے کی حفاظت اپنے خون کا
آخری قطرہ بہہ جانے تک کریں گے۔
دراصل ہمارا دشمن مکار، سنگدل اور بے رحم ہے وہ وطنِ عزیزکے وجود میں آنے
سے لے کر اب تک ہمارے وجود ہی کے درپئے ہے اُس نے ہمیں شکست دینے اور نیچا
دکھانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں گنوایا۔مگر یہ ملک جو اپنے وجود میں
آنے سے لے کر اب تک صرف بحرانوں سے اِسے وہ نقصان بھی نہیں پہنچ سکاجو اِسے
پہنچنا چاہیے تھا۔ یہ ہر بحرانوں سے سُرخرو ہو کر ہی نکلا ہے اور ہمیشہ یہی
دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ جِس جِس نے اِس کا برا چاہا ہے ہمیشہ اُس کا اپنا
ہی بُرا ہوا ہے اور آئندہ بھی انشاءاللہ تعالیٰ ایسا ہی ہو گا۔
اتنا کچھ نقصان ہو جانے کے باوجود بھارت اپنی ازلی ہٹ دھرمی پر اُسی طرح
قائم ہے کہ جس طرح پہلے تھا۔جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھارت کو یہ تجویزدی
ہے کہ سیاچین کودوطرفہ غیر فوجی علاقہ مان لیتے ہیں ۔ لیکن بھارتی آرمی چیف
جنرل وی کے سنگھ نے جنرل کیانی کی اِس تجویز یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ اگر
ہم نے جنرل کیانی کی تجویز پر عمل کیا تو ہم احمق ہوں گے اِس وقت ہم بلندی
پر اور بہترین پوزیشن میں ہےں اور ہمارا انفراسٹرکچر بھی پاکستان کی نسبت
بہت بہتراور اچھا بنا ہواہے ۔اُنہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پاکستان
سیاچین پر تو ہے ہی نہیں ہے بلکہ سالتورو رینج کے مغربی علاقے میں ہے ۔
بھارتی چیف کے اِس تازہ ترین بیان سے تو یہی لگتا ہے کہ بھارت پیچھے ہٹنے
والانہیں ہے اور وہ وطنِ عزیز کے سرپر سیاچین سے بھی ننگی تلوار لٹکائے
رکھنے کا ارادہ رکھتاہے ۔ لہذا ایسے دشمن سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہیے
اور نہ ہی میدان اُس کے لیے کھلاچھوڑ دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وطن
عزیز کی حفاظت کرنے کی توفیق عطافرمائے ، شہداءکو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ
دے اور اُن کے لواحقین کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔ آخر کو ہم سبھی اُسی راہ کے
مسافر بننے والے ہیں دیر ساسویرباری پہ لگے ہوئے انسان، جی ہاں ہم سب باری
پر لگے ہوئے ہیں ، موت کی باری پر۔۔۔فکر تو صرف یہ ہونا چاہیے کہ انجام
بخیر ہو۔ |