وہ خفیہ ایجنسی کا کمانڈو تھا

پریس کلب میں میری کتاب ”خود کش بمبار کے تعاقب میں“ کی تقریب رُونمائی تھی۔ یہ تقریب اپنے پیچھے کئی یادیں چھوڑ گئی۔ اسی تقریب میں معروف دانشور ڈاکٹر سید شبیہ الحسن گرجدار آواز میں دہشت گردوں کو للکار رہے تھے انہوں نے میری طرف اشارہ کر کے یہ بھی کہا کہ بدر سعید نے ایک ایسی دستاویز تیار کر دی ہے کہ اب جب جب کوئی بھی خود کش دھماکوں یا دہشت گردی کا حوالہ دے گا تب تب اسے اس کتاب کا حوالہ بھی دینا پڑے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اٹھنے والی اب یہ آواز روکنا ممکن نہیں اسے پاکستان میں دبایا جائے گا تو یہ امریکہ یا برطانیہ میں پڑھی جارہی ہو گی۔ انہوں نے بار بار شہادت کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ قلم اور سچ کی حرمت برقرار رہنی چاہئے بدر نے ثابت کر دیا کہ وہ سچ کی آواز بلند کرے گا اور سچ کی سربلندی کے لیے شہادت بھی قبول کریں گے اور سر بھی کٹائیں گے۔

اس تقریب کے کچھ دن بعد ہی ڈاکٹر سید شبیہ الحسن کو کینٹ میں نامعلوم افراد نے گولیاں مار کرانسانیت اور سچ کا درس دینے والے اس ادیب کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ اسی طرح دبئی کے ایک اخبار کے مدیر بھی آخر میں تشریف فرماں تھے اور تقریب کے بعد خاموشی سے دبئی لوٹ گئے۔ جہاں دوسرے کئی حوالے موجود تھے وہیں اس تقریب میں خفیہ اداروں کے اہم آفیسر بھی سادہ لباس میں موجود تھے۔ ایسے ہی ایک بڑے خفیہ ادارے کے اہم کمانڈر سے میں تقریب میں پہلی مرتبہ ملا اس سے قبل فون پر ان سے رابطہ تو تھا لیکن براہ ِراست ملاقات نہیں تھی اس دن جب میں پریس کلب پہنچا تو ہال مہمانوں سے بھر چکا تھا اور پریس کلب میں مزیدکرسیاں نہیں تھیں۔ مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ اسی دوران ایک شخص نے مجھ سے ہاتھ ملایا ، عمر میں مجھے سے بڑے اس شخص نے ابھی کچھ کہا ہی نہ تھا کہ میں بے ساختہ بول پڑا۔”کرنل صاحب میں نے آپ کو پہچان لیا ہے“۔

دراصل ان کے ہاتھوں کی مضبوط پکڑ یہ بتانے کو کافی تھی کہ یہ ہاتھ کسی کمانڈو کا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں کئی آرمی آفیسر سے ملا ہوں اسی طرح خود میں بھی مارشل آرٹ کا فائٹر رہا ہوں لیکن اس قدر سختی اور مضبوطی اس سے قبل نہیں دیکھی۔ بہر حال ان سے گلے ملنے کے بعد میں نے معذرت کی کہ ابھی میں زیادہ وقت نہ دے پاﺅں گا البتہ تقریب کے بعد اطمینان سے گفتگو ہو گی۔ کرنل صاحب ان معاملات کو سمجھتے تھے لہٰذا مسکراتے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھ گئے ۔ تقریب کے بعد میں کرنل صاحب سے ملا انہوں نے کتاب کی مبارک باد دی اور پھر اسی حوالے سے گفتگو شروع ہو گئی۔ بہت سی باتیں ابھی آف دی ریکارڈ ہیں لہٰذا مختصراً یہ کہ انہوں نے دوران گفتگو کئی بار مجھے چونکنے پر مجبور کر دیا۔ مجھے احساس تھا کہ میرے سامنے آئی ایس آئی کا ایک زیرک اور ہوشیار کمانڈو ہے جس کی معلومات مجھ سے کہیں زیادہ ہوں گی۔ انہوں نے انجکشن کی بات کی تو میں نے پوچھ لیا کہ غیر ملکی ایجنسیوں میں سے کون سے ملک کی ایجنسی اس ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے میرا خیال تھا کہ کرنل سی آئی اے کا نام لیں گے کیونکہ بظاہر سی آئی اے کی سرگرمیاں سب سے زیادہ نظر آتی ہیں لیکن انہوں نے واضح طور پر موساد کا نام لیا۔ میں نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا تو انہوں نے کہا دیکھو یہ تو مجھے علم ہے کہ برین واشنگ کے لیے کس کو کتنا سی سی انجکشن لگے گا آپ کو تو اس کا علم نہیں کہ ڈوز زیادہ دینی ہے یا کم؟ موساداس ٹیکنالوجی میں سب سے آگے جاچکی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر کے زلزلہ میں بھی موساد نے بچے حاصل کیے۔ لاوارث بچوں کی ایک بڑی تعداد ان ایجنسیوں کی تحویل میں چلی گئی اور ان میں سے اکثریت خودکش دھماکوں میں استعمال بھی ہو چکی ہے۔ انہوں نے کراچی کے ایک چرچ کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ وہاں چرچ کے باہر جھولا رکھا ہوا ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ جھولے میں ڈالے گئے بچے چرچ کی خدمت کے لیے وقف کر دیے جاتے ہیں لیکن انہیں کسی اور استعمال میں لایا جاتا ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ایساہو رہا ہے تو یہ مسیحی مذہب کے بھی خلاف ہے اور کرنل صاحب موساد کی بات کرتے کرتے اس طرف آئے ہیں موساد کا تعلق یہودیوں کے ملک اسرائیل سے ہے تو کہا یہودیوں نے مسیحی مذہب کا سہار ا لے کر یہ کام شروع کیا ہے اگر ایسا ہے تو پھر کئی مسجدوں کی طرح کئی گرجا گھروں میں بھی اصل مذہب کے پیروکاروں کی بجائے موساد اور سی آئی اے کے ایجنٹ لوگوں کو فریب دے رہے ہیں۔

یاد رہے ایک بہت پرانی سازش یہ بھی ہے کہ کئی عالم اور مولانا درحقیقت سرے سے مسلمان ہی نہیں ہوتے ۔ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور آج تک چل رہا ہے۔ ایک سازش کے تحت یہودیوں نے اپنے ذہین ترین ایجنٹوں کو قرآن حدیث کا علم دیا اور انہیں مسلمانوں میں شامل کروا دیا یہ لوگ دین پر بحث کرتے وقت اس قدر دلائل رکھتے ہیں کہ کوئی اصل عالم دین بھی کیا رکھتا ہو گا اس کی وجہ یہ تھی کہ ان ایجنٹوں کے پیچھے پوری لابی تحقیق کررہی ہوتی ہے میں اپنی کتاب میں بھی ایسے کئی ”را“ کے ایجنٹوں کے نام منظر عام پر لایا ہوں جو پاکستان میں ملا اور مولوی کے نام سے کام کر رہے ہیں لیکن بھارت میں ان کی پہچان بطور ہندو ہے۔

امریکہ اور افغان وار پر بات ہو ئی تو کرنل صاحب کہنے اس ساری جنگ کا مرکز گوادر ہے۔ افغانستان کو بھول جائیں بلوچستان کی فکر کریں۔ پھرکہنے لگے آپ کبھی آناتو پھر میں آپ کو نقشہ پر گوادر کی اصل اہمیت اور ان کے پلان سے آگاہ کروں گا۔ ایک بہت بڑی جنگ چھڑنے جارہی ہے۔ جس کے لیے امریکہ اور اسرائیل نے روڈ میپ تیار کر لیا ہے۔ بساط بچھ چکی ہے ، مہرے سجائے جا چکے ہیں اب فتح اور شکست کی جنگ ہو گی کسی ایک بادشاہ کو مرنا ہو گا۔ ایک موت کی دوسرے کی زندگی کی ضمانت دے گی اس لیے دائرہ تنگ کیا جارہا ہے اور اتحادیوں کو ساتھ ملایا جارہا ہے۔

سورج کب کا غروب ہو چکا تھا۔ پریس کلب کا ہال خالی ہو چکا تھا میں خفیہ ادارے کے اس کمانڈو سے گلے ملا اور اس وعدے کے ساتھ لوٹ آیا کہ بہت جلد میں موساد اور سی آئی اے کے اس منصوبے کی تفصیلات جاننے کے لیے آﺅں گا لیکن اس شرط پر کہ پھر کچھ بھی آف دی ریکارڈ نہیں ہو گا کیونکہ میں اپنے قارئین سے الگ نہیں ہو سکتا۔ مجھے پاکستان کے خلاف گھناﺅنے منصوبے تیار کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ہے کیونکہ میں عوام ہوں اور مجھے یقین ہے کہ پاکستان جھکنے کی بجائے گوادر کی جنگ لڑے گا۔ ۔ ۔
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 54417 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.