بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان کی زندگی میں بعض مواقع ایسے آتے ہیںجو یادگار ہوتے ہیں....دل ودماغ
پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقش ہوجانے والے ....ان مواقع کی یادیںمدتوں دل
ودماغ میں کسی کہکشاںکی مانندجگمگ جگمگ کرتی رہتی ہیں....گزشتہ روزجامعہ
فریدیہ اور جامعہ حفصہ میںختم بخاری کی اختتامی تقریب اور علماء وطلباء
اورطالبات ومعلمات کا جم غفیر بھی ایک ایسا ہی موقع تھا ....شیخ الاسلام
مفتی محمدتقی عثمانی کی آمد نے اسلام آباد کو بقعہ نوربنادیا تھا....حضرت
مفتی صاحب کم ازکم دس برسوںبعدجامعہ فریدیہ تشریف لارہے تھے ۔آپ کی آمد کی
اطلاع سے علماءوطلباءاور تشنگانِ علوم نبوت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی
اور بڑی بے تابی اور اشتیاق سے آپ کا انتظار کیا جارہاتھا ۔حضرت شیخ کے
استقبال کے لیے جب اسلام آباد ائر پورٹ جاناہواتووہاں نامی گرامی اہل علم
کو سراپا انتظارپاکر بہت رشک آیا ۔ہم لوگ دیرتکVIPلاﺅنج میں حضرت کی آمد کے
منتظر رہے لیکن یہ سن کر حیرت زدہ رہ گئے کہ حضرت تو عمومی اور عوامی راستے
سے تشریف لاتے ہیں اور پھر دیر تک ایڑیاں اٹھا اٹھا کر آنے والوں کو دیکھتے
رہے اور بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور حضرت شیخ تشریف لائے ....نامی
گرامی اہل علم ودانش دوڑ کر بچو ں کی طرح ان سے لپٹ گئے ....ایک درویش
خدامست،اکابر کی جیتی جاگتی تصویر،علم وعمل اور زہد وتقوی ٰ کا پیکر مجسم....حضرت
مولانا محمدعبدالعزیز ، حضرت مولانا عبدالغفار اور دیگر اساتذہ کرام نے
اپنی روایات اور معمول کے برعکس حضرت کے استقبال کے لیے بہت اہتمام کر
رکھاتھا۔پروٹوکول اسکواڈ اور ارباب ِعلم ودانش کے ایک بڑا قافلے کے جلومیں
حضرت کو ائر پورٹ سے سیدھا جامعہ فریدیہ لایا گیا ....جامعہ میں طلباءکی
دورویہ قطاریں عقیدت ووارفتگی کا عجیب منظر پیش کررہی تھیں ....حضرت کی
اقتداءمیںنماز عشاءادا کرنے کی سعادت حاصل کی پھر اساتذہ جامعہ کے ساتھ
خصوصی نشست ہوئی جس میں حضرت نے حدیثِ مسلسل کی اجازت مرحمت فرمائی
........جامعہ فریدیہ میں نورانیت کے جلوے اور علم وعمل کی بہاریں دیکھ کر
حضرت کا چہرہ بھی خوشی سے دمک اٹھا ۔
سفر کی تھکن کے باعث خصوصی نشست کے بعد حضرت کو قیام گاہ لے جایاگیا ۔راقم
الحروف کو اپنے شفیق اساتذہ کرام نے حضرت کی خصوصی خدمت پرمامور کیا تھا اس
لیے ٹوٹی پھوٹی خدمت کی سعادت بھی حاصل کی اور دیر تک حضرت کی مجلس ،معیت،
شفقت وعنایت اورعلم وفضل سے استفادہ کا شرف بھی پایا ۔ حضرت شیخ الاسلام
مفتی محمد تقی عثمانی،حضرت مولانا محمد عبدالعزیز ،حضرت مولانا عبدالغفار
،حضرت شیخ کے بھانجے ڈاکٹر قاسم اشرف کل چار افراد عشائیہ کے دوران علوم
ومعارف کے موتی لٹا رہے تھے اور راقم الحروف خادم کے طور پر اپنے بڑوں کی
اس مجلس سے کسب فیض کی سعادت حاصل کررہاتھا ۔پہلی دفعہ حضرت شیخ کواس قدر
قریب سے دیکھا ۔ان کی ذہانت وفطانت ،علم وعمل ،زہد وتقویٰ ،قدیم وجدید
مسائل پر دسترس ،حالات حاضرہ پر نظر ،عصر ی تقاضوں کے ادراک اور مومنانہ
بصیرت کا بہت تذکرہ بلکہ چرچا سناتھا اس سفر کے دوران صرف انہی اوصاف کا ہی
نہیں بلکہ حضرت کی تواضع وانکساری ،اخلاص وللہیت ،شفقت ومحبت ،اصاغر نوازی
اور وسعت نظری کا بھی مشاہدہ کیا اور اب بجا طور پر یہ کہہ سکتا ہوں ”اولئک
ابائی فجئنی بمثلھم “
صبح حضر ت جامعہ حفصہ تشریف لے گئے ۔G-7میں واقع جامعہ سمیہ جو اب اپنی
وسعت وکشادگی اور طالبات کی تعداد سمیت کئی حوالوں سے جامعہ حفصہ کی یادگار
بن چکاہے ۔ بلکہ حضرت مولانا محمد عبدالعزیز کے خصوصی حکم پر جامعہ کی جملہ
شاخوں کا نام جامعہ حفصہ کردیا گیا تاکہ وہ نادان لوگ جو یہ سمجھے تھے کہ
جامعہ حفصہ کی عمارت کو شہید کرکے یہ سلسلہ ختم کیا جاسکتا ہے یہ پیغام دیا
جا سکے کہ.... اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دو گے....جامعہ حفصہ کے بعد
جب جامعہ فریدیہ جانا ہوا تووہاں عجیب رونق تھی ،عجیب بہارتھی ،کوئی اشتہار
نہیں چھپا تھا ،کسی قسم کا دعوت نامہ تقسم نہیں ہواتھا ، مجمع جمع کرنے کا
کوئی مروجہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا تھا لیکن علماءکرام کا ایک جم غفیر
تھا ۔جامعہ کی مسجد کے دونوں ہال کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے ۔دائیں بائیں نگاہ
اٹھتی تو ہر قابل ذکرشخصیت ،دور ونزدیک کے جواں سال علماء،جامعہ کے بہت سے
قدیم فضلاء،جڑواں شہروں کی نامی گرامی ہستیاں سب ہی موجود تھے ۔حضرت جب
علماءوطلباءکے اس اجتماع میں جلوہ افروز ہوئے وہ منظر بڑا دیدنی تھا
۔مولانا عبدالعزیز صاحب کی سرپرستی ودلچسپی اور مولانا عبدالغفار کے حسنِ
انتظام نے سماں باندھ دیاتھا ۔ دورہ حدیث کے شرکاء،تخصص فی الفقہ کے سال
دوم کے طلباء،تخصص فی اللغة سے کسب فیض کرنے والے نوجوانوں نے سفید عمامے
اور سفید براق لباس زیب تن کر رکھے تھے ۔یوں لگتا تھا کہ جیسے فرشتے زمین
پر اتر آئے ہوں ۔نورانی چہرے ،روشن جبینیں ،فرط مسرت سے چمکتی آنکھیں ،ان
میں ایسے خوش نصیب بھی تھے جو گزشتہ نو برسوں کے دوران دن کے سات اسباق اور
مطالعہ وتکرار میں بھی کبھی غیر حاضر نہیں پائے گئے اور ”اصحابِ ترتیب“
ٹھہرے ۔
میرے لیے ذاتی طور پر وہ مرحلہ اور وہ منظر اس لحاظ سے بھی بہت اہم تھا
اورعجیب وغریب خیالات اور احساسات کا ہجوم تھا کہ دورہ حدیث کے جو فضلاءآج
سفید عمامے باندھے اور اجلے لباسوں میں ملبوس حضرت شیخ کے سامنے زانوئے
تلمذ تہہ کررہے تھے انہیں درجہ اولی میں صرف جیسی اہم کتاب پڑھانے کی سعادت
حاصل کی تھی اورمیری تدریسی تاریخ کے پہیے کا آج پہلا چکر پورا ہورہاتھا
۔کہاں وہ وقت جب اپنے مرحوم ومحبوب استاذ مکرم حضرت مولانا سردار علی
صاحبؒ(اللہ ان کے درجات بلند فرمائے) کے سامنے صَرف پڑھنے بیٹھے تھے تو آٹھ
سال کا عرصہ پہاڑ معلوم ہوتاتھا اور کہاں یہ لمحہ کہ صرف وہ آٹھ برس ہی
نہیں بلکہ دوسرے آٹھ برس بھی پلک جھپکتے گزرگئے اور ہمارے یہ بھائی آٹھ
سالہ تعلیمی سفر طے کرکے رسمی فراغت کی منزل پر آن کھڑے ہوئے تھے ۔ایسی
مجالس میں اشتیاق ہوتا ہے کہ دیکھیں بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھنے کی
سعادت کس کے حصے میں آئے گی چنانچہ اس مجلس میں بخاری شریف کی عبارت جس
طالبعلم نے پڑھنی شروع کی تو مجھے آٹھ برس پہلے کا وہ معصوم سا بچہ یاد
آگیا جو پردیس کے دکھوں اور اپنے اہلِ خانہ کی یاد میں رورہا تھا ، میں اس
کو ساتھ لیے جامعہ کی کینٹین پر گیا اور اس کی دلجوئی اور اشک شوئی کے لیے
اسے بسکٹ اور ٹافیاں دلوا کر اس کادل بہلایا تھاپختون کلچر کے ایک روایتی
سے نام کا وہ طالبعلم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ کی روشنی
میں اس کا نام تبدیل کر کے سیدنا صہیب رومیؓ کے مبارک نام پر رکھا وہ بخاری
شریف کی آخری حدیث پڑھنے کی سعادت حاصل کر رہا تھا تو یوں محسوس ہوتا تھا
جیسے کسی مالی کا باغ کھل کر گل گلزار ہو گیا ہو،جیسے کوئی فصل پک کر تیار
ہو گئی ہو ،جیسے ننھے پودے پھلوں سے لد ے ہوں اور انہیں دیکھ کر مالی کو
خوشی ہو تی ہے اس سے کہیں زیادہ خوشی محسو س ہو رہی تھی ۔خوشی کی اسی کیفیت
میں دفعتا ً کچھ اور بچے یاد آگئے جو اس کلاس کا حصہ تھے لیکن آج وہ اس
مجلس میں ہی نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی موجود نہیں ان کا خیال آتے ہی بے
طرح آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔سو سے زائد طلباءکی جماعت کی سب سے آخری صف
میں تحریک حریت وجہاد کے عظیم ہیرو حاجی ترنگزئیؒ کے دیس کے چار طلباءکے
گروپ میں نکلتے ہوئے قد کا محفوظ نامی ایک طالبعلم بھی تھا ۔وہ اگرچہ پہلے
دن آخری صف میں بیٹھا تھا لیکن بہت جلد وہ اپنی ذہانت وفطانت اور محنت
وریاضت کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ صف اول میں آپہنچا تھا بلکہ میں نے اسے
اپنی جماعت کا امیر مقرر کر دیا تھا ....سرخ وسپید چہرے اور سیاہ عمامے
والا خاموش مزاج خان زیب ....جس نے سب سے پہلے ایک ہی سانس میں صرف صغیر
سنائی تھی اور انعام پایا تھا ....اولی ٰ کی کلاس میں سب سے زیادہ نمبر
لینے والے طلباءمیں شامل یہ دونوں بچے بھی سانحہ لال مسجد کے دوران قرآن
کریم اور مسجد کے تحفظ اور تقدس کی خاطر اپنی جانیں راہِ حق میں قربان کر
گئے تھے....بارات میں ایک ہی دلہا ہوتا ہے لیکن اس دن جب وہ سفید عماموں
والے طلباءحضرت شیخ کے دستِ شفقت اور انعامات کے حصول کے لیے قطار بنائے
کھڑے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے بہت سے دلہوں کی بارات ہو لیکن اس بارات میں
وہ باصلاحیت ،ذہین وفطین اور باادب بچے نہیں تھے جو اس جماعت کی زینت ہوا
کرتے تھے ....اللہ اولاد کا دکھ کسی کو نہ دے ....خیالات واحساسات کے اسی
ہجوم میں محفوظ شہید اور خان زیب شہید کے ساتھ ساتھ کہیں سے برادرم حسان
شہید ،عتیق شہیداور شہزاد قریشی شہید سمیت دیگر سینکڑوں شہدا ءبھی نمودار
ہو گئے اور ان کے سرخیل علامہ غازی شہید ؒجو اس قسم کی تقریبات کی جان ہوا
کرتے تھے اور اس گلشن کے شہداءکے امام مولانا محمد عبداللہ شہید ؒجن کے لہو
کی برکت اور جن کی لحد کی خوشبو سے آج ہر طرف گل وگلزار دکھائی دیتے ہیں
....واہ میرے اللہ ! کیا انتخاب ہے آپ کا ! اپنے دین کے لیے کن ہیروں کی
قربانی قبول کی ....سبحان اللہ....نظروں کے سامنے جدید فضلا ءکی قطار تھی
اور دل ودماغ پر ان شہیدان راہ وفا کا ہجوم تھا .... مہتمم جامعہ مولانا
محمد عبدالعزیز سامنے تھے جن کا جواں سال اکلوتا بیٹا ،علامہ غازی شہید
ؒجیسا بھائی ،والدہ محترمہ اور سینکڑوں تلامذہ جام شہادت نوش کر گئے تھے
....کیا صبر وحوصلہ پایا ہے اس شخص نے ....ہم ایسوں کے ضبط کے بندھن جب
ٹوٹنے لگتے ہیں اس وقت بھی مولانا استقامت کا کوہ گراں بنے دکھائی دیتے ہیں
....الغرض عجیب دن تھا ،عجیب تقریب تھی ،عجیب مناظر تھے ،عجیب یادیں تھیں
،بہت خوشی تھی اور بہت سے زخم تازہ ہوگئے تھے ....”مادرعلمی “ کی اصطلاح
اور ترکیب کی جامعیت ،معنویت اور چاشنی کا یاتواس دن اندازہ ہوا تھا جب اس
مادر علمی سے بچھڑ رہے تھے ،یااس دن ہواتھا جس دن اس پر جبر کے پہرے بٹھائے
گئے تھے ،یاا س دن ہوا تھا جب نئے سرے سے جامعہ کو کھولا گیا تھا اور یا
پھر آج کی اس تقریب میں ”مادر علمی“ کا معنی ومفہوم سمجھ آرہاتھا ۔خواتین
کے لیے ”مادرعلمی نمبر“ چھاپنے والے کبھی ہم زخم دلوں کے لیے بھی تو ”مادر
علمی نمبر “ شائع کرنے کا بندوبست کریں ....مولانا عبداللہ شہید ؒ کا وہ
گلشن جسے اجاڑنے کے بہت جتن کیے گئے اس دن اس گلشن میں عجیب بہار تھی بلکہ
بہاریں اپنے جوبن پر تھیں ....عجیب دن تھا حضرت شیخ کی آمد کی خوشی
،علماءکرام کا جم غفیر ،طلباءکے دمکتے چہرے اور پھر اپنے شہید بچوں کی
یادوں کی بارات .... دل ودماغ میں ایسی کیفیت تھی جیسے بارش بھی چھم چھم
برس رہی ہو اور اجلی اجلی دھوپ بھی چمک رہی ہو ....خدا رحمت کند ایں عاشقان
پاک طینت را |