پبلک ٹرانسپورٹ تپتے ہوئے تندور، جھلستے عوام اور بے حس حکمران

یوں تو وطن عزیز کا ہر شعبہ زوالِ تام کی حدوں کو چھو رہا ہے مگر ہر شعبے کا نیرو اپنی اپنی بانسری انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ بجائے جا رہا ہے۔ عوام کے لئے سب کچھ غرق ہوتا جا رہا ہے مگر ان نیرووں کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔اس غرق اور فرق میں قصور عوام کا بھی ہے جس نے زیرو نیرو کو ہیرو بنا رکھا ہے اور اب” ہور چوپ رہے“ ہیں ۔ میں جب بھی فیصل آباد جاتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ اے سی کوچ میں سفر کروں ۔اہلِ خانہ اکثر اعتراض کرتے ہیں اور اسے میری فضول خرچی قرار دیتے ہیں ۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عام بسوں میں سفر کیا جائے مگر میں حکومت کی طرح ان کی یہ باتیں سنی ان سنی کر دیتا تھا البتہ اس بار جب میں فیصل آباد پہنچا تو میں نے انہیں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کا مزا چکھانے کا فیصلہ کر لیا ۔ہمیں در اصل سانگلہ ہل سے کچھ دور بورے والا جانا تھا۔پہلے سوچا کہ ٹرین کے ذریعے مڑھ بلوچاں تک جایا جائے اور پھر بورے والے کا رستہ لیا جائے۔میں نے ریلوے لی ہیلپ لائن پہ کال کی اور پوچھا کہ سانگلہ ہل کوئی ٹرین جاتی ہے؟ ہیلپ لائن پہ موجود شخص نے ادب کے ساتھ” نہ “میں جواب دیا۔ مگر میں نے اصرار کیا اور کہا کہ پہلے تو جایا کرتی تھی! اس پر اس نے جواب دیا کہ پہلے جاتی تھی اب نہیں اور پھر ریلوے کے ”بلوریں “وزیر کو ”ننگی“ اور ”چنگی “گالیا ں دیں اور کہا کہ میرا بس چلے تو اس کو ٹرین کے نیچے دیکر ہی مار دوں۔یہ اس کی جمہوری وزیر سے محبت کی انتہا تھی۔ اِس سے مجھے اندازہ ہوا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔مگر بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ جمہوری حکمران عوام کے ہتھے نہیں چڑھ رہے۔بس سکیورٹی کے حصار میں چھپے پھرتے ہیں ۔ورنہ عوام اس جمہوریت اور انتقام کی تشریح کر ہی ڈالیں ۔

بہر حال ٹرین کا سفر تو ہاتھ سے نکل گیا ۔ اور آخر کار ہم نشاط آباد سے سانگلہ ہل جانے والی بس میں سوار ہوئے۔سفر کا آغاز خاصا جارحانہ تھا ۔ گاڑی کی سپیڈ ناقابل یقین حد تک زیادہ تھی ، مسافر سیٹوں سے یوں اچھل اچھل واپس گر رہے تھے جیسے کوئی سپن بالر گیند کروانے سے پہلے اس کو ہوا میں اچھالتا اور پھر پکڑتا ہے۔ ڈرائیور شائد پی آئی اے کا ریٹائرڈ پائیلٹ تھا جو بس کو جہاز کی طرح اڑا رہا تھا ۔ایک مسافر نے ہمت کرکے درخواست کی کہ جناب ذارا آرام سے گاڑی چلائیں تو جناب ڈرائیور نے انتہائی غصے سے” عوام“ کی طرف دیکھا اور حاکمانہ لہجے میں کہا کہ آئین کے تحت ہر ادارہ اپنی حدود میں رہنے کا پابند ہے۔ لہذا آپ اپنی حد میں رہیں ۔ آپ کا کام صرف گاڑی میں سوار ہونا ہے تقریر کرنا نہیں ۔ اور گاڑی چلانا میرا کام ہے اور خبرا دار جو آیئندہ میری حدود میں مداخلت کی تو! کیونکہ اس طرح کی مداخلت سے اداروں کے ٹکراﺅ کا شدید اور مزید خدشہ ہے۔اور ہم بس کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ڈرائیور کے اس آئینی بھاشن نے تمام مسافروں کے منہ بند کر دیے۔بس کے اند ر کا درجہ حرارت کوئی 48 ڈگری تھا اور یہ بس کم اور دہکتا ہوا تندور زیادہ لگ رہی تھی جس کے اندر بیٹھی ہوئے عوام جھلس رہے تھے۔ بچوں اور بوڑھوں کے حلق بار بار پیاس سے سوکھ رہے تھے۔پچاس مسافروں کی گنجائش والی بس میں لگ بھگ نوے مسافر موجود تھے۔وطن عزیز کی کئی مریم نوازیں ، بختاوریں، بلاول،اور حمزے اس دھکتے تندور نما بس میں کھڑے تھے اور” جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے“ کی عملی تصویر بنے ہوئے تھے۔ ایک لمحے کو میں نے سوچا کہ یہ نام نہاد جمہوری لیڈر جن افراد کے ووٹوں سے عوامی نمائندے بنتے ہیں وہ تو ان دھکتے تندوروں میں سفر کریں اور یہ خود عوام کے ووٹوں اور عوام کے ٹیکسز کی بدولت جنت نما گاڑیوں میں سفر کریں اور ٹھنڈے ایوانوں میں رہیں۔ یہ کیا بکواس ہے؟ ایسی جمہوریت پر ہزار لعنت کی یہ جمہوریت کے پردے میں فرعونیت ہے اور کچھ نہیں ۔ اگر یہ عوامی نمائندے ہیں تو عوام جیسی زیندگی کیوں بسر نہیں کرتے؟

عوام کو آرام دہ سفری سہولیات فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟کیا یہ میٹرو بسیں صرف لاہور اور اس جیسے بڑے شہروں میں ہی چلائی جا سکتی ہیں ۔ باقی چھوٹے شہروں میں کیا بھیڑ بکریا ں رہتی ہیں ۔اور یہ میٹرو بسیں کیا سفری سہولتیں دے رہی ہیں ؟ چالیس مسافروں والی بس میں اسی افراد کا سفر کرنا ، کیا آرام دہ سفری سہولت ہے؟ اسی افراد کی باڈی ہیٹ اور بیرونی درجہ حرارت میں ان کا اے سی کیا کرے گا ؟کیا کھڑے ہو کر سفر کرنا آرام دہ سفر کہلاتا ہے ؟ اور یہ اور لوڈنگ پھر کیا بلا ہے؟ اور قانون اس کے بارے میں کیا کہتا ہے۔؟ کیا متعلقہ اتھارٹیاں اندھی اور اور ٹریفک پولیس سوئی ہوئی ہے؟عجیب سفری سہولتیں ہیں ، یعنی عوام کرایہ بھی دے اور ذلیل بھی ہو۔ طرفہ تماشہ ہے۔وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں اس ضمن میں ناکام ہوئی ہیں ۔ ویگنوں کی حالت اور ان میں سفر کرتے افراد کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے انسان نہیں بلکہ حیوان سفر کر رہے ہیں ۔ تیرہ سیٹر وین میں بائیس بائیس مسافر۔ وہ بھی اس گرمی میں ۔ بارہ بارہ سال کے لڑکے چنگ چی رکشے چلا رہے ہیں اور ان پر بھی دس دس مسافر بٹھاتے ہیں اور ٹریفک پولیس اندھی بن کر چوراہوں میں کھڑی ہے! اس نظام کو کون بدلے گا ؟ ایک پیپلز پارٹی ہے جو جئے بھٹو کا نعرہ لگاتی ہے مگر کام رج کے لٹو والے کرتی ہے یہ پیپلز کو پار کرکے” ٹی“ پی رہی ہے ۔ دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ (نواز) ہے یہ خود کو اور اپنے قریبیوں کو ہی ”نواز “ رہی ہے۔ پارٹی نظمیں تو حبیب جالب کی پڑھتی ہے مگر کام ان سے ذرا بھی میچ نہیں کرتے ۔ یوں لگتا ہے کہ ان دونوں بڑی پارٹیوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور سب مل جل کر حکومت کر رہے ہیں اور عوام کو جانوروں سے بھی حقیر سمجھتے ہیں ۔ کون سا ایک محکمہ ہے جو کسی بھی پارٹی نے سیدھا کیا ہو؟ بس سب دولت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں ۔۔سب مایا ہے۔

یہ عوامی نمائندے عوام کو تو ان تپتے ہوئے تندوروں میں سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں مگر خود عوام کی دولت کے بل بوتے پر ہوائی جہازوں ، چارٹرڈ طیاروں اور ائیر کندیشنڈ بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں ۔یہ عوامی نمائندے کم اور گدھ زیادہ ہیں(الا ماشائاللہ) جو ملک اور عوام کا جسم نوچ نوچ کر اپنی جان کی تسکین میں لگے ہوئے ہیں ۔ہونا تو یوں چاہیئے کہ عوامی نمائندہ اور اس کے اہل و اعیال پبلک ٹرانسپورٹ (عام بسوں) میں سفر کرنے کے پابند ہوں۔ انہیں کسی ایکسٹرا سرکاری گاڑی کی سہولت نہ دی جائے ۔پھر دیکھیں کس طرح اور کتنی تیزی سے سفرے سہولتوں میں بہتری آتی ہے۔سپریم کورٹ اس پہ بھی ایک سو موٹو لے لے کہ انسان جانوروں کی طرح سفر کرنے پہ مجبور کیوں ہیں ؟ ، یہ بھی تو بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے؟اور یہ کہ عوام اور عوامی نمائندوں کے طرزِ زندگی میں ایک واضح فرق کیوں ہے؟ اور کیا یہ واقعتاََہی عوام کے اصل نمائندہ ہیں۔ اور اگر سپریم کورٹ بھی اس سلسلہ میں بے بس ہے تو پھر آفاقی قوت اپنا رستہ خود بنائے گی۔
کانٹوں کی زباں پیاس سے سوکھ گئی یا رب
کوئی آبلہ پا اس وادی پر خار سے گذرے
Shahzad Ch
About the Author: Shahzad Ch Read More Articles by Shahzad Ch: 28 Articles with 30714 views I was born in District Faisalabad.I passed matriculation and intermediate from Board of intermediate Faisalabad.Then graduated from Punjab University.. View More