دیکھیں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں
جسے ہم دیکھ تو رہے ہوتے ہیں لیکن عجیب معمہ ہے کہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے
۔میں بھی پاکستانی ہوں ۔پلا بڑا پاکستان میں ،تعلیم پاکستان سے حاصل کی ۔اگر
کہیں میں پاکستان کے اند ر موجود کسی مرض ،بیماری ،یا کسی نقص کی جانب توجہ
دلاؤں تو یہ میری ذمہ داری ہے کوئی جرم نہیں ۔یہ بات اس لیے کررہا ہوں کہ
ہمارے ہاں ایک حادثہ ہے کہ کسی کو ملک فوبیا تو کسی کو ،کسی کو قوم فوبیا
تو کسی کو کیا ۔جب کبھی اصلاح کی بات کی جائے تو وہ اسے تعصب کی آنکھ سے
دیکھ کر غداری ،بے وفائی سے تعبیر کرتے ہیں ۔خیر اپنے موضوع کی طرف چلتے
ہیں ۔آپ او ر میں جانتے ہیں کہ میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا شمار دنیا
کے گندے ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو میرے خیال سےیہ ہے کہ ہم
ماحولیاتی ایشوز کو اتنا سیریس نہیں لیتے جتنا کہ لیا جانا چاہئیے ۔ مثال
کے طور پہ آپ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کو لے لیں۔ان کی لائف سو سال سے بھی
زیادہ ہے اور یہ بہت سے ماحولیاتی مسائل اور بیماریاں پیدا کرنے کا سبب
بنتے ہیں۔ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں، پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کو ختم کرکے ان
کی جگہ کاغذ کے بنے ہوئے شاپنگ بیگز استعمال کئے جارہے ہیں جن کی ایک تو
لائف بھی کم ہے یعنی کہ وہ جلدی ختم ہوجاتےہیں اور دوسرا ان کی وجہ سے
زیادہ مسائل بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی ماحول پہ کوئی خاص اثر پڑتا ہے۔
ہم ماحولیاتی آلودگی اور اس سے حفاظت کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دے رہے۔ ہم
نے ابھی تک ویسٹ مینیجمنٹ کا کوئی پراپر طریقہ نہیں اپنایا اور اس کا نتیجہ
ہم سب کو مختلف نوع کی بیماریوں اور ماحولیاتی آلودگی کی صورت میں بھگتنا
پڑرہا ہے۔
یہ ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لئے کچھ جامع
منصوبے بنائے جیسے کہ ویسٹ مینیجمنٹ کے لئے مناسب انتظامات کئے جائیں اسی
طرح پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کو ملک میں سے مکمل طور پہ ختم کیا جائے اور ان
کی جگہ عام کاغذ کے بنے ہوئے شاپنگ بیگ استعمال کرنے پہ لوگوں کو ابھارا
جائے اور اس کےلئے حکومت الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور
بیدار کرسکتی ہے۔ اسی طرح مختلف قسم کے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد
کرکے لوگوں کی برین واشنگ کی جاسکتی ہے ۔ جہاں حکومت کو ماحولیاتی آلودگی
اور مسائل کم کرنے کےلئے جدوجہد کرنی چاہئیے وہیں پہ پرائیویٹ این جی اوز
یا تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا فعال کردار ادا
کریں اور ان کے ساتھ ساتھ ہمیں یعنی کہ ایک عام آدمی کو بھی ماحول کو صاف
ستھرا رکھنے میںاپنا کردار ادا کرنا چاہئیے۔ تاکہ ہمارا ماحول آلودگی سے
پاک ہو اور ہمیں صاف ستھری آب و ہوا میں سانس لینے کا موقع مل سکے۔یہ گلی ،محلہ
،یہ راستے ،یہ شہر ہمارے ہیں ،ان سے ہماری پہچان ہے ۔ہم نے یہان رہنا ہے ۔کیا
ہی اچھا ہو کہ ہم احساسِ ذمہ داری سے اپنے علاقے ،گلی محلہ کو صاف
ستھرارکھیں ۔بحثیت مسلمان تو ہمارے لیے ثواب کا ذریعہ بھی ہے ۔تو ہوجائے یہ
کام آج ہی سے ۔چلیں ۔پہل میں کرتا ہوں ۔کیونکہ یہ اصول ہے کہ کسی کی اصلاح
کرنے کے لیے خود سراپۂ ترغیب بننا پڑتاہے ۔محترم قارئین :میں کل ہی سے
اپنی گلی کی صفائی کا آغاز کرتاہوں ۔آپ بھی اس کام میں میراساتھ دیں ۔آئیں
مل کر اپنے ملک کو برائیوں سے پاک،گندی سے پاک اجلا ،ستھرا،پیارا پاکستان
بناتے ہیں ۔ایسا پاکستان جہاں چارسو صفائی ہو۔جہاں کے رہنے والوں کے دلوں ،فکروں
،عزموں ،جذبوں میں صفائی ہو۔
صفائی نصف ایمان ہے ۔ |