فیصل آباد میں ٹیچر نے ایک طالب
علم محمدعمر کو چھٹیاں کرنے پر ڈانٹا اور والد کو بلانے کے لیے کہا ،لیکن
والد نے اسکول جانے سے انکار کر دیا ،جس پر دلبرداشتہ ہوکر 12 سالہ محمد
عمر نے خود کو آگ لگا کر خودکشی کر لی، اسے ہسپتال داخل کرایا گیا لیکن وہ
جانبر نہ ہو سکا۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تھانہ شہزاد ٹائون کے علاقے میں اسلام آباد
ماڈل کالج کے15 سالہ طالب علم خورشیدوالدکی اسکول نہ جانے پرسرزنش سے دل
برداشتہ ہوکر خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
مظفر گڑھ کے نویں جماعت کے طالبعلم مدثر نے والدین اور اساتذہ کے رویہ سے
دلبرداشتہ ہو کر خود پر تیل چھڑک کر آگ لگا لی ۔
اس سلسلے کااب تک کاآخری واقعہ …جواللہ کرے آخری واقعہ ہی ثابت ہو،پاپوش
نگر کے رہائشی رضا کی ٹیسٹ میں ناکامی پر والدین کی ڈانٹ کے ڈر سے گلے میں
پھندا لگا کر خود کشی کرنے کاہے ۔والدین نے اس ساری صورتحال پر میڈیا کو
مورد الزام ٹھہراتے ہوئے نہ صرف اسے کوریج سے روک دیا،بلکہ کہا ہے کہ ٹیلی
ویژن پر اس قسم کی خبروں نے ہی بچوں میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ جس روزمحمدرضاکی خودکشی کاواقعہ پیش آیا،بعض نجی ٹی وی چینلز
دن بھرنہ صرف ایبٹ آباد میں ایک طالب علم مبین کی خودکشی کی خبر نشر کرتے
رہے، بلکہ اس کی موت پر پروگرامات بھی دکھائے گئے، والدین کاکہناہے کہ ایسے
ہی پروگرامات دیکھ کر محمد رضا نے بھی خود کشی کی راہ اختیار کی۔
ایبٹ آبادکے مبین کی کہانی،زیادہ تفصیل طلب ہے کیونکہ یہ کئی چہروں سے نقاب
ہٹاتی اورمسئلے کے اصل محرکات سامنے لاتی ہے ۔چودہ سالہ مبین انٹرنیشنل
پبلک اسکول میں زیر تعلیم تھا اور اس کے ہاسٹل میں رہتا تھا،کے گھر سے
اسکول زیادہ دور بھی نہیں ،لیکن گھر والوں نے اسے اس لیے ہاسٹل بھیج دیا کہ
وہ دل لگا کر پڑھے لیکن وہاں اس کا دل نہ لگا ا،س بار جب وہ ہفتہ وار چھٹی
پر گھر آیا تو واپس جانے کو اس کا دل نہیں چا رہا تھا۔ اسے یہ بھی ڈر تھا
کہ ایسا کرنے سے امی اور ابو ناراض ہو جائیں گے۔ اسی لیے پیر کو اس نے
زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ مبین کی جیب سے برآمد ہونے والے خط لکھا ہے کہ وہ
ہاسٹل نہیں جانا چاہتا ،اس لیے خود کشی کر رہا ہے۔ بچے نے لکھا کہ اسے دنیا
سے بہت پیار تھا لیکن وہ اسے چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ بچے نے تاکید کی کہ
اس کے چھوٹے بہن بھائی کو کبھی ہاسٹل نہ بھیجا جائے۔ مبین نے یہ بھی لکھا
کہ اس کی الماری میں پڑی ڈائری میں باقی تفصیلات لکھی ہیں۔ مبین کے ماں باپ
نے بچے کی نشاندہی پر ڈائری دیکھی تو اس میں لکھا تھا کہ اسکول میں اس کی
تذلیل کی جاتی ہے۔ کلاس میں اردو بولنے پر 5 روپے دینا ہوتے ہیں۔ ذرا ذرا
سی بات پر کلاس سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ ڈائری میں مبین لکھتا ہے کہ اس
نے انگلش کی کلاس میں ٹیچر سے اردو میں پوچھا:سر! کیا سوال وجواب بھی لکھنے
ہیں تو استاد نے مجھے کلاس روم سے باہر بلالیا ،کیونکہ اس نے کہا تھا کہ
اردو بولنے پر پانچ روپے جرمانہ ہوگا۔مبین کی ڈائری میں لکھا ہے کہ استاد
نے میری شرٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر میری ماں کی تصویر نکال لی ، میں رونے
لگا ، جس پر اس نے تصویر واپس کر دی ۔اس نے مجھے اتنا مارا کہ میرے ابو نے
بھی اتنا کبھی نہیں مارا تھا ۔ڈائری میں اس نے اپنی والدہ سے یہ بھی کہا کہ
وہ میرے بھائی اور بہن کو ہاسٹل نہ بھیجیں ۔
پاکستان میں شرح خواندگی پہلے ہی تشویشناک ہے ۔ اس پر ایسے افسوس ناک
واقعات سے تعلیم کے فروغ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔
ہمیں ان محرکات کا بھی پتا لگانا چاہیے، جو ایک نونہال کواس کم عمری میں،جس
میں بچے زندگی کے خواب دیکھتے ہیں، خودکشی کرنے پر مجبور کردیتے ہیں؟ نجانے
ایسے کون سے حالات تھے اور وہ کیا جذبات و احساسات تھے جس نے ان ادھ کھلے
پھولوں کو یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا؟ بچے بہت حساس ہو تے ہیں
کیونکہ وہ اپنے گردو پیش کے حالات سے سیکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔پوری
دنیا میں طالب علموں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اورانہیں
ایسے الفاظ میں مخاطب نہیں کیاجاتا جن میں تضحیک اور اہانت کا کوئی پہلو
موجود ہو،جس سے ان کے کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کاخدشہ ہو،
بلکہ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ جو طالب علم خود کو کسی معذوری کی بنیاد پر
کمزور یا کمتر سمجھتا ہے، اسے ماہر نفسیات کی مدد سے خصوصی توجہ فراہم کی
جاتی ہے، تاکہ وہ مقابلے کی اس فضا میں دوسروں کے برابر آ سکے۔ایک طر ف ہم
پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، دوسری جانب اسکولوں
میں کئی ظالم اساتذہ بچوں پر اس حد تک بہیمانہ تشدد کرتے ہیں کہ وہ یا تو
پڑھائی سے دل اچاٹ کر بیٹھتے ہیں، یا پھرا سکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے
ہیں۔ یہ واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ۔
طالب علموں کے انتہائی اقدام نے ملک ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ بچوں کی
اموات کے ذمہ داران اساتذہ ہیں یا والدین یامیڈیا ؟ ماہرین نفسیات کے مطابق
حالیہ واقعات نے معاشرے کے جس پہلو کو بے نقاب کیا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے
۔
مذکورہ واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں والدین اور اساتذہ بھی کسی حدتک
ذمہ دارانظر آتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کا فرض ہے کہ اپنے بچوں سے محبت
اور پیار سے پیش آئیں،والدین بچے کی تربیت کرتے ہوئے ہمیشہ جبروزورکی
پالیسی نہ اپنائیں،بچوں کے حوصلوں کوبلندکرنے کی کوشش کریں،ان کے لیے وقت
نکالیں،ان کی مشکلات،الجھنوں اورترجیحات کوسمجھتے ہوئے انہیں حل
کریں۔اساتذہ اپنے پیشے کے تقدس اوراپنی حیثیت کومدنظررکھیں،روحانی
اولادکواپنی اولادسے بڑھ کراہمیت دیں،حالیہ دنوں میں اساتذہ کے طلبہ پربے
محاباتشددکے واقعات کسی طرح بھی اس پیشے سے میل نہیں کھاتے،اس حوالے سے
حکومت اورتعلیمی اداوں کے منتظمین کرام پربھی ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ ''مار
نہیں پیار'' کے سلوگن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکمت عملی وضع کریں، تاکہ
آئندہ کوئی پھول کھلنے سے پہلے نہ مرجھا جائے۔
اس تمام تناظرمیں ہم سب سے بڑامجرم میڈیاکوسمجھتے ہیں،جواپنے کرائم
شوزکوپرائم ٹائمزمیں چلاکرنوجوان نسل اورنئی پودکوجرم کاعادی
بنارہاہے۔ہمارے ملک میں کیبل پردن کے اوقات میں پڑوسی ممالک کے تیارکردہ
ایسے اخلاق سوزپروگرام چلائے جارہے ہیں،جووہ ممالک بھی دن میں نشرکرنے کی
جرات نہیں کرتے۔دوسری طرف ''بریکنگ نیوز''کی دوڑمیں ہمارامیڈیاہرمنفی
خبرکوخصوصی اہمیت کے ساتھ نشرکرتاہے،جس کانتیجہ یہ ہے یہ خبردیکھنے
والاجذباتی نوجوان کل خودایک خبربن جاتاہے۔اس جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت
ہے۔اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ میڈیاعوام کی خواہشات اور امیدوں کاعکاس
ہوتا ہے،دس برس قبل جب میڈیا کا انقلاب آیا اور پرائیوٹ میڈیا گروپس نے
اپنی نشریات کا آغاز کیا تو یہ عوام کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا
تھا،مگرافسوس بہت جلدہی میڈیانے اپنی ترجیحات نہ صرف تبدیل کرلیں،بلکہ ایک
سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پرائیویٹ چینلزنے روشن خیالی اورآزادی اظہاررائے
کے نام پراباحیت پسندی،فکری ارتداداورفحاشی وعریانی کے فروغ
نیزانتہاپسندانہ سوچ بیدارکرنے والے ڈراموں کاوہ سلسلہ شروع کردیاکہ
ہواکایہ جھونکااغیارکاآلہ کاربن کرایک ایسی منہ زورآندھی کاروپ دھارگیا،جو
معاشرتی ودینی اقدار،قومی حمیت ،ملی غیرت اورحب الوطنی کے جذبات غرض ہراس
جوہرسے ہمیں محروم کرناچاہتاہے،جو ملت کی شیرازہ بندی کرتاہے۔ضرورت اس
امرکی ہے کہ میڈیا اس قسم کے افسوسناک واقعات کوبڑھاچڑھاکرپیش کرنے سے گریز
کرے۔ ایسے واقعات کومیڈیاپرجس اندازسے بڑھاچڑھاکر پیش کیاجارہاہے، اس سے
بھی معصوم طلبہ مزید ڈپریشن اور ذہنی تنا کا شکار ہورہے ہیں اوران میں اپنے
آپ کونقصان پہنچانے کی انتہاپسندانہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔میڈیا اس سلسلے
میں ذمہ داری کامظاہرہ کرے،تاکہ معصوم ذہنوں کوانتہائی قدم اٹھانے سے
روکاجاسکے۔
میڈیا کو اپنا لائحہ عمل تبدیل کرنے کی اور صحافت کا ضابطہ اخلاق نئے سرے
سے ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے۔ میڈیا ہمارے معاشرے کا حصہ ہے اور اسے
معاشرے کی صحیح عکاسی کرنا چاہئے ۔ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا لوگوں میں روشن
خیالی پیدا کرنے کے بجائے انہیںانتہا پسندی کی طرف لے جارہا ہے۔ میڈیا آزاد
ہے، یہ محض ایک مفروضہ ہے کیونکہ ایک مخصوص سوچ اورمہلک ترجیحات رکھنے والے
گینگ کا میڈیا پرجو کنٹرو ل ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
ہماری میڈیاکے کارپردازوں سے گزارش ہے کہ وہ مثبت رجحانات
کواجاگرکرے۔نوجوانوں پرمیڈیاکی بادشاہت مسلم …لیکن اس اعتمادکاغلط فائدہ
اٹھانے سے بہترہے کہ میڈیاایسے پروگرامز،ٹاک شوزاورمذاکرے نشرکرے جن کودیکھ
کرنوجوان میں کچھ کرنے اورکچھ بننے کی امنگ پیداہو۔ الحمدللہ ہمارے ملک میں
ٹیلنٹ کی کمی نہیں ،ابھی کچھ دن قبل منڈی بہاء الدین کے رہائشی طالب علم
موسیٰ فیروز نے دنیا کے 231 ممالک کے 55 لاکھ طلباء میں ریاضی کے عالمی
مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی۔حال ہی میں پاکستانی طالب علم شایان
انیق اختر نے مائیکرو سافٹ پروفیشنل میں ہزار میں سے 998 نمبر لے کر عالمی
ریکارڈ قائم کردیا۔چترال سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد کے ایک معروف اسکول
گلوبل انسٹیٹیوٹ آف انٹگریٹڈ اسٹڈیز کے او لیول کے طالب علم محمد منظور
الہی نے سال کے بہترین کتب بین کا ایوارڈ حاصل کرکے اہالیاں چترال کے
اعزازت میں اضافہ کردیا۔ انہیں یہ ایوارڈنیشنل بک فاونڈیشن کی طرف سے اسلام
آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں دیا گیا۔ملالہ یوسف زئی،ارفع کریم جیسی
باصلاحیت بچیاں محتاج تعارف نہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیاہمارے
نوجوانوں کوایشوریارائے،سلمان خان،کترینہ کیف اوراس نوع کے بھانڈمراثیوں
کا''فین''بنانے کی بجائے ان کے سامنے موسیٰ فیروز ،شایان انیق اختر
اورملالہ وارفع جیسی مثالیں رکھے ،تاکہ ان میں حالات کے دھارے میں بہہ
کرخودکشی کرنے کی بجائے ''ایساکچھ کرکے جیو،یاں کہ بہت یادرہو''کامصداق
بننے کی امنگ پیداہو۔انہیں یہ نہ سکھائیں کہ ''تم کچھ نہیں کرسکتے''بلکہ
انہیں بتائیں کہ''تم بہت کچھ کرسکتے ہو''۔ |