دل میں ہو لا الہ تو کیا خوف،تعلیم ہو گو فرنگیانہ

کبھی کبھار اخبارات میں ایسی خبریں آتی ہیں کہ کسی باپ نے شراب کے نشہ میں اپنے بیٹے کو قتل کردیا یا مفلسی سے تنگ آکر زہر دے کر مار دیا۔ اس طرح کی خبریں سامنے آنے کے بعدہر طرف سے قاتل باپ کے خلاف نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکن قتل اولاد کی ایک صورت اور بھی ہے اور یہ وہ صورت ہے جس میں قاتل کو نفرت کی بجائے بنظر تحسین دیکھا جاتا ہے اور خود قاتل بھی فخر کا احساس کرتا ہے۔ اکبر الہ آبادی مرحوم نے جب کہا تھا کہ :
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

تو ان کے پیشِ نظر قتل کی یہی صورت تھی۔ یہ جسمانی قتل نہیں ہے بلکہ روحانی قتل ہے ، یہ ایمان و عقیدہ کا قتل ہے۔ اکبر کے زمانہ میں قتل کی اس شکل نے رواج تو پالیا تھا لیکن اس کا دائرہ اس قدر وسیع نہیں ہوا تھا جتنا آج ہے۔مسلمانوں نے کچھ اپنی غفلت و سستی اور کچھ حالات کے جبر کے نتیجہ میں تعلیم پر وہ توجہ نہیں دی جس کی وہ مستحق تھی۔ لہٰذا وہ کوئی ایسا ڈھانچہ تیار کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے جس میں ان کی نسلیں دین سے وابستگی کے ساتھ عصری علوم میں مہارت حاصل کرسکیں۔ دینی اور عصری علوم کی تفریق نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنادیا۔ ایک طبقہ دینی تعلیم کے حصول کو بے معنی اور مخصوص لوگوں کا وظیفہ سمجھتا رہا تو دوسرے طبقہ نے عصری علوم کو شجر ممنوعہ بنادیا۔ اس متضاد فکری رویہ نے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ وہ طبقہ جس نے دینی علوم کو عزیز جانا اور خود کو اسی دائرہ میں محدود رکھا ،عصری علوم حاصل کرنے والوں اور عصری تعلیمی اداروں سے اس کا رشتہ استوار نہ رہ پایاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ادارے اور ان سے وابستہ افراد مذہب کی گرفت سے آزاد ہوگئے اور اگر دل سے مسلمان رہے بھی تو ان کا دماغ غیر اسلامی فکر کا حامل بن گیا۔ اس طبقہ کی بڑی تعداد ان عصری اداروں سے الحاد و دہریت اور آزاد خیالی کے جراثیم لے کر نکلی اور سیکولر و مغربی نظریا ت کو ہی اعلیٰ و ارفع اور قابل وقعت سمجھنے لگی۔ اس کے جو مہلک اثرات مسلم معاشرہ پر پڑے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اس کے تدارک کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے 1857 اور پھر آزادی کے بعد کے مخصوص حالات میں صورت حال کی سنگینی کو محسوس کیا اور متعدد اقدامات کیے۔ لیکن یہ اقدامات اپنا تسلسل برقرار نہ رکھ سکے اور جس مربوط اور منظم انداز میں اس کے لیے جد و جہد جاری رہنی چاہے تھی وہ نہ رہ سکی۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پورے ملک میں ، خواہ شہر ہوں یا دیہات، ابتدائی تعلیم کے لیے چھوٹے چھوٹے مدارس اور مکاتب کا جال بچھا ہوا تھا اور وہاں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی طلبہ عصری تعلیمی اداروں کا رخ کرتے تھے۔ ان مکاتب کاکمال یہ تھا کہ یہ بہت کم عرصہ میں طلبہ کو اسلام کی بنیادی فکر سے روشناس کراکے ان کے دلوں میں اسلامی عقائد و اخلاق کی جڑیں اتنی مستحکم کر دیتے تھے کہ آگے چل کر کسی بھی ماحول میں رہتے ہوئے ان سے دین بیزاری کا خطرہ بڑی حد تک ختم ہوجاتا تھا۔لیکن آج صورت حال بالکل بدل چکی ہے۔ اب ہر طرف انگلش میڈیم اسکولوں کا جال پھیلا ہوا ہے اور بچوں کو ابتدا سے ہی ان اسکولوں میں بھیجا جانے لگا ہے جہاں کے ماحول میں اللہ اور رسول کا نام بھی نہیں سنا جاتا۔ مگرپھر بھی لوگ بڑی بڑی رقمیں دے کر اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کرانا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ادارے عیسائی مشنریز کے زیر انتظام چلتے ہیں جہاں بچے مسیح کی تصویر کے سامنے کھڑے ہوکر دعاکرتے ہیں ، جہاں مخلوط تعلیم کا رواج ہوتا ہے اور لڑکیوں کے لیے ایسے یونیفارم کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں ٹانگیں کھلی ہوتی ہیں اور اسے ہی تہذیب و شائستگی کی علامت قرار دیا جاتا ہے ، جہاں فحاشی و عریانی کا نام تہذیب ہے اور جہاں پردہ اور نقاب کی تضحیک کی جاتی ہے اور ان کا استعما ل کرنے والوں کو رجعت پسند قرار دیا جاتا ہے ، جہاں اسلامی تہذیب و تاریخ کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور جہاں مسلم بچوں کو اپنے مذہب کے تئیں احساس کمتری کا شکار بنایا جاتا ہے۔اب اگرکسی بچہ کو عمر کے تیسرے چوتھے سال میں ہی ایسے اسکولوں میں داخل کرا دیا جائے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں ہے کہ اس پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اس طرح کے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جسے دسویں اور بارہویں کلاس پاس کرلینے کے باوجود قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا ،اسے دعائیں بھی یاد نہیں ہوتیں اور اسلامی اخلاق و آداب سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان تعلیمی اداروں سے جو بچے تعلیم پاکر باہر نکلتے ہیں ان میں ایک اچھی خاصی تعداد ان کی ہوتی ہے جو نسلی مسلمان تو ہوتے ہیں لیکن شعوری مسلمان نہیں ہوتے۔ یہ صورت حال اس نسل کی ہے جس کے والدین اللہ کے فضل سے مذہبی ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ مذہبی ماحول کے پروردہ والدین کے بچوں کی یہ صورت حال ہے تو اس کے بعد آنے والی نسل کا کیا حال ہوگا۔وہ ان اداروں سے فارغ ہوکر منفعت بخش ملازمتیں تو حاصل کرسکتے ہیں کہ یہی اس کا منتہائے مقصود ہے لیکن اسلامی نقط نظر سے وہ اپنے اور اپنے معاشرے کے لیے نہ صرف غیر مفید ثابت ہوں گے بلکہ سنگین خطرات کا باعث بھی بنیں گے۔یہ اتنا سنگین مسئلہ ہے کہ اگر فوراً اس کے سد باب کی کوشش نہ کی گئی تو آنے والی نسل کا رشتہ مذہب سے بالکل منقطع ہوجائے گا اور وہ رسمی مسلمان بھی باقی نہیں رہے گی۔ پھر نہ جانے کتنے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جنم لیں گے اور مذہب کا مذاق اڑائیں گے۔ان سطور کا راقم نہ صرف یہ کہ عصری تعلیم کا مخالف نہیں ہے بلکہ اس کے ناقص خیال میں مسلمانوں پر اس کا حصول واجب ہے۔ موجودہ دور میں اس سے بے نیازی خود کشی کے مترادف ہوگی۔ ان سطور کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کے لیے عصری علوم کے ساتھ ایسی تعلیم کا بھی لازماً بندوبست کریں جو انہیں مسلمان باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بعد انہیں جو بھی تعلیم دی جائے انشاءاللہ اس کے اثرات مفید ہی ہوں گے۔ شاعر مشرق کہہ گئے ہیں:
دل میں ہو لا الہ تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فرنگیانہ

اپنے بچوں کو مسلمان باقی رکھنے اور انہیں احساس کمتری اور مرعوبیت کے حصار سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان خود بڑی تعداد میں معیاری اسکول قائم کریں۔ پہلے سے موجود اداروں کی اصلاح کریں کیونکہ عام طور پر مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی ادارے اپنی بد نظمی ، ناقص تعلیم و تدریس اور انتظامیہ کے درمیان باہمی چپقلش کے لیے ممتاز ہیں۔یہ صورت حال بھی کم تشویش ناک نہیں ہے اور عام مسلمانوں کی ان اداروں سے دوری کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے۔ لہٰذا اس پر توجہ بے حد ضروری ہے۔ ان میں سے بہت سے ادارے ایسے ہیں کہ ان میں اور عیسائی اداروں میں بس اتنا فرق ہے کہ ان کے چلانے والے مسلمان ہیں ،ورنہ وہاں بھی کلچرل پروگراموں کے نام پر وہ طوفان بدتمیزیاں ہوتی ہیں کہ کسی غیرت مند مسلمان کے لیے اس کا تصور بھی دہلا دینے والا ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اب ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ یہ اس لیے کہ اسے مسلمانوں کی زبان بنا دیا گیا ہے اور اس لیے بھی کہ اس زبان میں ہمارا دینی و تہذیبی سرمایہ موجود ہے۔لہٰذا اپنے بچوں کے لیے اردو کی تعلیم کا انتظام ہمارے لیے ناگزیر ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری نئی نسل اسلام کے اس عظیم الشان ورثہ سے محروم رہ جائے گی۔ سطور بالا میں جن مکاتب کا ذکر کیا گیا ہے انہیں دوبارہ بحال کرنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ طلبہ کم از کم ناظرہ قرآن پڑھنے کے قابل ہوجائیں ، کچھ دعائیں یاد کرلیں اور اسلامی سیرت و اخلاق سے آغاز میں ہی روشناس ہوجائیں۔ اس طرح کے مکاتب مساجد میں بھی چلائے جاسکتے ہیں یا یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ مساجد میں ہی چلائے جائیں۔ اسی طرح تعطیلات میں طلبہ کے لیے دینی تعلیم کی کلاسیز کا انتظام کیا جانا چاہیے۔ بہت سی جگہوں پر اس طرح کے انتظامات کیے گئے ہیں، انہیں اور بہتر شکل دی جاسکتی ہے۔ان کے علاوہ اور بھی مفید طریقے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔حالانکہ ان اقدامات سے بھی وہ مقصد مکمل طور پر حاصل نہ ہوگا صورت حال جس کی متقاضی ہے۔ تاہم اس سے ہم اپنی جدوجہد کا آغاز کر سکیں گے۔اگر ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو ارتداد سے محفوظ رکھنا ہے تو ترجیحی بنیاد پر اس جانب توجہ کرنی ہوگی۔ کیونکہ اس وقت حالات جس قدر سنگین ہیں اور جس طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے وہ پہلے نہیں تھا۔ یہ وقت عملی اقدام کا متقاضی ہے۔ دور بیٹھ کر کڑھنے ، کوسنے اور تنقید کرتے رہنے سے نہ پہلے کوئی چیز بدلی ہے اور نہ ہی آج اس کی توقع کی جانی چاہیے۔
M A TABASSUM
About the Author: M A TABASSUM Read More Articles by M A TABASSUM: 159 Articles with 167014 views m a tabassum
central president
columnist council of pakistan(ccp)
.. View More