پاکیزہ اور معطر فکر

سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو وہ ’’آنسو‘‘ نصیب فرمائے. جو تنہائی میں صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے ٹپکا ہو. یہ دیکھیں! حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ فرما رہے ہیں.
’’میرے لئے اﷲ تعالیٰ کے خوف سے ایک آنسو بہانا ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ محبوب ہے‘‘
جی ہاں! حضرت آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے وعدہ فرما لیا ہے کہ. دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی. ایک وہ آنکھ جو جہاد کی پہرے داری میں جاگی ہو. اور دوسری وہ آنکھ جواﷲ تعالیٰ کے خوف سے روئی ہو. پچھلے ہفتے والے موضوع کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.تاکہ میرے اور آپ سب کے دل میں’’حسن خاتمہ‘‘ کی فکر پیدا ہو جائے. کھانے پینے سے بھی زیادہ، مکان، دکان سے بھی زیادہ. علاج اور صحت کی فکر سے بھی زیادہ. شہرت اور عزت کی فکر سے بھی زیادہ. خاوند اور بیوی کی ایک دوسرے کو قبضے میں لینے کی فکر سے بھی زیادہ. زیادہ جینے اور زیادہ مال بنانے کی فکر سے بھی زیادہ. یہ فکر کہ ہمارا خاتمہ اچھا ہوجائے. ایمان پر ہو جائے.

حضرت حسن بصری(رح) نے ایک بار ایک حدیث بیان فرمائی جس میں اُس آدمی کا تذکرہ تھا جو ایک ہزار سال تک جہنم میں رہے گا. پھر وہاں سے نکال کر جنت میں بسایا جائے گا. فرمانے لگے کاش میں ہی وہ آدمی ہو جاؤں. کیونکہ سزا کاٹ کر سہی اُس کا جنت میں جانا تو یقینی ہے. جبکہ میرا پتہ نہیں کہ. موت ایمان پر آئے گی یا نہیں. خدانخواستہ ایمان پر نہ آئی تو پھر ہمیشہ ہمیشہ کا عذاب ہو گا. یا اﷲ امان! یا اﷲ امان.
آہ! کتنے لوگ عین موت کے وقت ایمان پر نہ رہے. اور اُن پر وہ فکر سوار ہو گئی جو انہوں نے دنیا میں اپنی اصل فکر بنائی. اُسی کے لئے جیتے مرتے رہے. کاش ہم ایمان کی قدر سمجھیں. کاش ہم ایمان کو ہی سب سے بڑی دولت ، سب سے بڑی نعمت سمجھیں. امام غزالی(رح) نے عجیب حکایت لکھی ہے. انبیائ علیھم السلام میں سے ایک نبی پر بہت آزمائشیں آئیں. ایسی سخت آزمائشیں کہ اُن کا تصور بھی مشکل ہے. بھوک، فاقہ، افلاس اور ہر تکلیف. بالآخر انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے اپنا شکوہ عرض کیا. جواب آیا: اے ہمارے بندے! کیا تمہارے لئے ہماری یہ نعمت کافی نہیں کہ ہم نے تمہیں کفر سے بچایا ہوا ہے. یہ سنتے ہی وہ سجدے میں گر گئے اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگے کہ. واقعی اتنی عظیم نعمت مجھے نصیب ہے کہ . ایمان پر ہوں اور کفر سے محفوظ ہوں. آج تو اﷲ تعالیٰ معاف فرمائے. ’’حبّ دنیا‘‘ نے دلوں کی دنیا ہی ویران کر دی ہے. ہر گندی سے گندی چیز کی قدر دل میں ہے. اگر قدر نہیں تو ایمان کی نہیں. ہر چیز کی فکر میں روتے ہیں، مرتے ہیں، اور کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں. اگر فکر نہیں تو ایمان پر خاتمے کی نہیں. یا اﷲ! ہم پر رحم فرما.

حضرت یوسف علیہ السلام کی فکر. اور دعائ
مصیبت کے وقت بہت سے لوگ’’موت‘‘ کو یاد کرتے ہیں. موت کی باتیں کرتے ہیں. مرجانے کی دھمکیاں دیتے ہیں. مگر جب انسان نعمتوں کے عروج پر ہو اُس وقت وہ موت کو یاد رکھے اور اچھی موت. یعنی حسن خاتمہ کی فکر کرے. یہ حضرات انبیائ علیہم السلام کا طریقہ ہے. یہ دیکھیں! میرے سامنے سورۃ یوسف کے انوارات ہیں. اﷲ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی ساری آزمائشیں ختم فرما دیں. جیل سے رہائی ملی. مصر کی حکومت اور خزانے ملے. زمین پر شاندار تمکین ملی! ایسی کہ جہاں چاہیں گھر بسائیں. والدین کی جدائی ختم ہوئی. خواب کی تعبیر پوری ہوئی. بھائیوں کا ظلم اورحسد. ایک دم محبت اور اطاعت میں تبدیل ہوگیا. الغرض وہ سب کچھ مل گیا جو کسی انسان کو اس دنیا میں بہت مشکل سے ہی ملتا ہے. ایسے حالات میں حضرت یوسف علیہ السلام ان نعمتوں میں کھو جانے کی بجائے. اﷲ تعالیٰ کا قُرب اور حسن خاتمہ کی دعائ فرما رہے ہیں. پوری بات تو آپ کو تب سمجھ آئے گی جب آپ سورہ یوسف کی آیات﴿۹۹﴾ تا ﴿۱۰۱﴾ دیکھیں گے. فی الحال ایک آیت کا ترجمہ دیکھیں:
’’﴿حضرت یوسف علیہ السلام نے ان نعمتوں کے تذکرے کے بعد دعائ فرمائی﴾ اے میرے رب! آپ نے مجھے حکومت عطائ کی اور مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا. اے آسمانوں اور زمین کے پیدا فرمانے والے! آپ ہی دنیا اور آخرت میں میرے کار ساز ہیں، مجھے اسلام پر موت دیجئے اورنیک بندوں میں شامل فرمائیے‘‘﴿یوسف، ۱۰۱﴾

اس میں جو دعائ سکھائی گئی اُس کے الفاظ یاد کر لیں.
فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٰ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ
اس دعائ کو بھی معمولات میں شامل کیا جائے. اور دنیوی دعاؤں کے مقابلے میں زیادہ فکر، توجہ اور اہمیت سے مانگی جائے. مفسرین کرام نے لکھا ہے:

حضرت یوسف علیہ السلام کی اس دعائ سے نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کے دل میں ہمیشہ یہ تمنا بیدار رہنی چاہئے کہ اسلام اور اﷲ تعالیٰ کی اطاعت پر اُس کا خاتمہ ہو. اور آخرت میں انبیائ، شہدائ ، اولیائ اور صالحین کی رفاقت نصیب ہو. اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان پر خاتمہ سب سے بڑی سعادت ہے.

لیجئے حسن خاتمہ کے بارے میں قرآن پاک کی تین دعائیں آپ تک پہنچ گئیں. دو گزشتہ کالم میں اور ایک یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی دعائ.

حدیث پاک سے ایک دعا
طبرانی، مسند احمد وغیرہ میں. رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم فرمودہ ایک بڑی جامع دعا ہے. اور اس دعائ کے بارے میں فرمایا ہے.
من کان ذلک دعائہ مات قبل ان یصیبہ البلائ

یعنی جو اس دعائ کو اپنائے گا اس کی موت ابتلائ سے انشائ محفوظ ہوگی. دعائ کے الفاظ یہ ہیں:
اَللّٰھُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُ مُوْرِ کُلِّھَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْآخِرَۃِ
ترجمہ: یا اﷲ میرے تمام کاموں کاانجام اچھا فرما دیجئے اورمجھے دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا لیجئے.

اسی طرح یہ دعائ بھی مسنون ہے:
یَا وَلِیَّ الْاِسْلاَمِ وَاَھْلِہٰ ثَبِّتْنِیْ بِہٰ حَتّٰی اَلْقَاکَ
ترجمہ: اے اسلام اور اہل اسلام کے مولیٰ! آپ مجھے اسلام پر اس وقت تک ثابت قدم رکھیں یہاں تک کہ مجھے آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جائے. یعنی میری موت آجائے.

اسی طرح یہ مسنون دعائ بہت اہم اور مفید ہے:
اَللّٰھُمَّ لَقِّنِیْ حُجَّۃَ الْاِیْمَانِ عِنْدَ الْمَمَاتِ
یا اﷲ مجھے مرتے وقت ایمان کی حجت ﴿ یعنی کلمہ طیبہ﴾ کی تلقین نصیب فرمائیے.

ایک مضبوط نصاب
یہ موضوع بہت طویل ہے. حضرات صحابہ کرام’’حسن خاتمہ‘‘ کی فکر میں. اﷲ تعالیٰ کی خشیت سے اتنا روتے تھے کہ. بعض کے چہروں پر آنسوؤں نے نشانات بنا دیئے تھے. اُن کو اپنے چہرے سنوارنے، بال سجانے اور خود کو خوبصورت دکھانے کی فضول فکریں نہیں تھیں. وہ تو اس غم میں روتے تھے اور اپنے حسین چہروں کو سجدوں اور آنسوؤں کے داغوں سے سجاتے تھے کہ. خاتمہ ایمان پر ہو جائے. اور اﷲ تعالیٰ کے پاس لوٹ کر جانا ہے. یہ پیشی آسان ہو جائے. بات دراصل عقل کی ہے اور سمجھنے کی ہے. قرآن پاک کی کتنی آیات میں. ایمان والوں کی صفت بیان ہوئی کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے خوف سے ’’لرزتے‘‘ ہیں، کانپتے ہیں. اپنا سب کچھ اس کی راہ میں لٹا کر بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ. ہم نے اُس کے سامنے پیش ہونا ہے.کوئی مالک اپنے غلام کو بازار بھیجے کہ فلاں کام کر آؤ اور فلاں فلاں نہ کرنا. اور مالک غلام پرنگرانی بھی رکھے. اور واپس آکر غلام نے سارا حساب کتاب بھی دینا ہو. تو اندازہ لگائیں کہ وہ اپنے مالک کے احکامات کی کس قدر پابندی کرے گا. اﷲ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے. کچھ کام ارشاد فرمائے ہیں. نگرانی کا ایسا انتظام ہے کہ دل کے بھید بھی اُس سے پوشیدہ نہیں. اور پھر واپسی بھی اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے جہاں دنیا کا حساب کتاب دینا ہے. تو کیا ایک بندے کو زیب دیتا ہے کہ وہ دنیا کے بازار میں آکر. اپنے مالک کے احکامات کو بھول جائے. اور اسی بازار میں اپنے لئے دکانیں اور مٹی گارا خریدتا رہے. اور جب واپس جائے تو سب کچھ یہیں چھوڑ جائے. اور مالک کے سامنے جواب دینے کے قابل بھی نہ ہو. مجھے ایک بابا جی کی بات دل کو لگی. جس مسجد میں نماز کو جاتا تھا وہاں دو بڑی عمر کے نمازی تھے. دونوں باہم دوست. چند دن تک ایک ’’باباجی‘‘ غیر حاضر رہے. چار پانچ دن بعد آئے تو دوسرے بزرگ نے خیریت پوچھی. میں ساتھ بیٹھا سن رہا تھا . ’’بابا‘‘ نے بتایا کہ سخت بیمار تھا. دوسرے’’بابا‘‘ نے صحت کی دعائ دی اور فرمایا: ایک بات یاد رکھنا. موت کا وقت مقرر ہے اﷲ کرے خیر والی آئے. علاج میں زیادہ نہ الجھنا. اپنی اولاد پر علاج کا زیادہ بوجھ نہ ڈالنا. موت تو ٹلتی نہیں، اپنا اور اولاد کا بہت کچھ برباد ہوجاتا ہے. سبحان اﷲ! ایک ان پڑھ سے آدمی کو مسجد کی پہلی صف نے معرفت کا کیسا راز سمجھا دیا. آج کل علاج ہی علاج میں دین، دنیا اور معلوم نہیں کیا کچھ برباد ہوجاتا ہے. صحت تو ایک فانی چیز ہے. یہ ضرور کمزور ہوتی ہے اوراکثر چھن بھی جاتی ہے. پھر نہ ڈاکٹر یہ واپس لا سکتے ہیں، نہ حکیم اور نہ عامل. ہر علاج مزید بیماریاں لاتا ہے. ہسپتالوں کا ماحول ایمان کا دشمن ہے. علاج کی مشینیں کروڑوں روپے کی ہیں. ڈاکٹروں نے وہ قیمت نفع کے ساتھ پوری کرنی ہوتی ہے. ڈاکٹروں میں دینداری اور ایمانداری بہت کم ہے. اور ہر ڈاکٹر کی رائے دوسروں سے مختلف ہے. لوگ علمائ کے اختلاف پر چیختے چنگھاڑتے ہیں. کبھی ڈاکٹروں کی ایک دوسرے کے بارے میں رائے سنیں تو حیران رہ جائیں. بیماری کا علاج سنت ہے جبکہ بیماری پر صبر کا بدلہ جنت ہے. علاج میں زیادہ فکر اور مبالغہ انسان کو اﷲ تعالیٰ سے غافل اور شاکی کر دیتا ہے. اور شیطان انسان کو اُس کے جسم اور صحت کے بارے میں ہر وقت ناشکری میں ڈالتا ہے. تاکہ علاج کی فکر میں مرتے رہیں. موٹوں کو کمزورہونے کی. اور کمزوروں کو موٹا ہونے کی فکر ہے. ایسی ایسی بیماریوں کا علاج آچکا ہے کہ. اُن کا علاج شریعت میں جائز ہی نہیں. انسانوں کو چاہئے کہ اپنی صحت کے بارے میں شکر کریں. اپنے سے زیادہ کمزور لوگوں کو دیکھیں. میں ایک بار پیدل جا رہا تھا، ٹانگ میں شدید درد نے دل میں تھوڑا سا غم پیدا کیا. اچانک سامنے دیکھا ایک شخص آرہا تھا اس کے دونوں پاؤں الٹے مڑے ہوئے تھے. میں شرم اورشکر میں ڈوبا ہی تھا کہ کھٹ کھٹ کی آواز پر سر اٹھایا ایک صاحب بغیر ٹانگ کے بیساکھیوں پر آرہے تھے. تب مجھے اپنی سوچ سے نفرت اور اپنے درد سے پیار محسوس ہونے لگا. اﷲ کے بندو! دنیا میں ہم جان اور صحت بنانے کے لئے نہیں بھیجے گئے. ایمان اور ایمان کے تقاضوں کے لئے آئے ہیں. شکر، صبر اور اعتدال میں رہتے ہوئے علاج. اور بعض بیماریوں پر صبر. یہ بہترین نسخہ ہے. ایسا نہ ہو کہ. صحت کی زیادہ فکر سوار ہو جائے اور موت کے وقت بھی کلمہ طیبہ کی بجائے ڈاکٹر ، نرسیں اور دوائیاں یاد آرہی ہوں. بندہ نے کئی افراد کو . جو ہروقت علاج، صحت اور دوائیوں کی فکرمیں لگے رہتے تھے یہ بات سمجھائی. اُن میں سے بعض کے دل میں اُتر گئی اب وہ اﷲ تعالیٰ کاشکر ادا کرتے ہیں. اور بندہ کو بھی دعائیں دیتے ہیں کہ. کیسی فضول آفت سے نجات ملی. یہ مرض آج کل بہت عام ہے اس لئے معلوم نہیں کتنے افراد میری ان باتوں کو اپنی طرف اشارہ سمجھیں گے. ارے بھائیو! میں موت اور حسن خاتمہ کے غمناک موضوع میں کسی مسلمان بھائی پر تنقید کیوں کروں گا؟. پھر کسی کی اس عادت سے میرا کیا نقصان ہے کہ میں اُس پر طنز کرنے لگوں. اور خود میرے عیب کونسے کم ہیں کہ میں اُن کو بھلا کر دوسروں کے عیب دیکھنے لگوں؟ اﷲ تعالیٰ اس فانی دنیا کی کوئی بھی فکر. میرے اور آپ کے دل پر ایسی سوار نہ کرے کہ ہمارا نقصان ہوجائے. ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یہ دعائ فرماتے تھے.
اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَھَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا
یا اﷲ! دنیا کو ہمارے لئے بڑی فکر اور ہمارے علم کا مبلغ نہ بنائیے.

مال، عہدے، منصب، مکانات. جائیداد، شادیاں، صحت، جسامت. یہ سب دنیا کی فکریں ہیں. جو صرف ایک حد تک جائز ہیں. بات چل رہی تھی. حسن خاتمہ کے لئے ایک مضبوط نصاب کی. تو سنیئے! بہت غور وفکر کے بعد نہایت مضبوط سند کے ساتھ. دو روایات ملتی ہیں. ایک تو سید الاستغفار کے بارے میں. صحیح بخاری میں حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا پکا وعدہ ہے کہ. جو صبح پڑھ لے شام تک مرے گا تو جنت میں جائے گا. اور شام کو پڑھ لے تو صبح تک اگر مرے گا تو جنت میں جائے گا. شرط یہ ہے کہ ’’یقین‘‘ کے ساتھ پڑھے.

بھائیو! اور بہنو! یہ بہت بڑی ضمانت. استغفار کی بہت بڑی فضیلت ہے. اور جناب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے امت کے لئے بہت بڑا تحفہ اور احسان ہے.

حدیث پاک کے الفاظ دیکھیں:
من قالھا من النھار موقنا بھا فمات من یومہ قبل ان یمسی فھو من اھل الجنۃ ومن قالھا من اللیل وھو مؤقن بھا فمات قبل ان یصبح فھو من اھل الجنۃ ﴿رواہ البخاری﴾
یعنی ’’جو صبح یقین سے پڑھ لے پھر اُس دن شام سے پہلے مرجائے تو وہ جنتی ہے اور جو رات کو یقین سے پڑھ لے پھر اُسی رات صبح ہونے سے پہلے مرجائے وہ جنتی ہے‘‘.

جب حضرت آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان آگیا. اور اتنی مضبوط سند سے آگیا توہمیں شک کرنے کی ضرورت نہیں. البتہ اہتمام ایسا ہو کہ صبح صادق طلوع ہوتے ہی یہ استغفار پڑھیں. اور شام سورج غروب ہوتے ہی یہ استغفار یقین کے ساتھ پڑھیں. اس استغفار کو خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ’’سید الاستغفار‘‘ یعنی استغفار کا سردار قرار دیا ہے. الفاظ یہ ہیں.
اَللّٰھْمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَ وَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنْعَتُ اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاُبُوْئُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہ، لَایَغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔
ترجمہ: یا اﷲ! آپ میرے رب ہیں، آ پ کے سوا کوئی معبود نہیں، آپ نے مجھے پیدا فرمایا. اور میں آپ کا بندہ ہوں. اور میں اپنی استطاعت کے مطابق آپ کے عہد اور وعدے پر قائم ہوں. ﴿یعنی ایمان اور فرمانبرداری پر﴾ میں اپنے کردار سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں. میں اپنے اوپر آپ کی نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں پس آپ میرے گناہوں کو بخش دیجئے. بے شک آپ ہی گناہوں کوبخشنے والے ہیں.

درست الفاظ. اورالفاظ کے ساتھ ترجمہ سمجھ کر اسے پورے شوق اور یقین کے ساتھ اپنا معمول بنالیا جائے. اس قسم کی دعاؤں کی برکت سے انسان کا عقیدہ، عمل اور بہت سے کام سیدھے ہونے لگتے ہیں.

اور دوسرامضبوط عمل آیۃ الکرسی کا ہے. ہر نما زکے بعد نہایت توجہ سے ایک بار پڑھ لی جائے. اس کی تفصیل پھر کبھی انشائ اﷲ. ویسے بھی آپ حضرات اس عظیم آیت کے فضائل و مناقب سنتے رہتے ہیں.

تحفہ عزیزی
حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی(رح). جو ہمارے جہادی شیخ حضرت سید احمد شہید(رح) کے مرشدتھے. اُن کے فرامین کو ان کے بھتیجے حضرت مولوی ظہیر الدین صاحب(رح) نے جمع فرمایا ہے. حضرت شاہ صاحب(رح) سے کسی نے پوچھا:. موت کے وقت جو سکرات اور تکلیف ہوتی ہے اس سے حفاظت کے لئے کچھ ارشاد ہو. جواب میں فرمایا:.
’’روایت سے ثابت ہے کہ سکرات الموت آسان ہونے کے لئے ہمیشہ آیۃ الکرسی اور سورۃ الاخلاص پڑھنی چاہئے. اور یہ بھی حدیث میں آیا ہے کہ عذاب قبر دفع ہونے کے لئے ہمیشہ سورۃ ’’تبارک الذی‘‘ عشائ کے بعد سونے سے قبل پڑھنی چاہئے، اور ایسا ہی سورۃ دخان پڑھنے کے بارہ میں روایت ہے﴿کمالات عزیزی۔ ص:۳۵﴾

کسی نے پوچھا! گناہوں کی معافی اور خاتمہ بالخیر کے لئے کیا پڑھنا چاہئے!.ارشاد فرمایا: گناہوں کی معافی کے لئے استغفار نہایت مفید ہے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لئے کلمہ طیبہ کا ذکر کرنا اور نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنا نہایت مفید ہے.﴿کمالات عزیزی۔ ص ۱۵﴾

آخری گزارش
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ سے سچے دل کے ساتھ شہادت کی دعائ مانگے. اﷲ تعالیٰ اسے شہادت کا مقام عطائ فرماتے ہیں خواہ وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ مرا ہو. یہ حسن خاتمہ کا بہترین نسخہ ہے. شہادت. یعنی اﷲ تعالیٰ کے دین کی خاطر اﷲ تعالیٰ کے راستے میں مقتول ہونا. یہ بڑی عظیم الشان نعمت ہے. اس کی دعائ اور تمنا ایمان والوں کو نصیب ہوتی ہے. اور وہ اﷲ تعالیٰ کی محبت، اس سے ملاقات کے شوق. اور اس کے دین اور کلمے کی غیرت میں شہادت کی تمنا رکھتے ہیں. مصیبتوں سے گھبرا کر نہیں. لوگوں سے تنگ آکر نہیں. بوڑھے ہونے کے بعد کی شرط کے ساتھ نہیں. بس شہادت ملے. ابھی ملے یا جب بھی مالک عطائ فرمائے. کوئی شرط نہیں، کوئی خوف اور الجھن نہیں. بس شوق اور دل کی آرزو. جس طرح مجنوں کو لیلیٰ کی. اور کسی عاشق کو اپنی محبوبہ کی. جن کو اﷲ تعالیٰ توفیق عطائ فرمائے وہ دل کی صداقت کے ساتھ مانگیں. دل ساتھ نہ دے تو دل کی اصلاح کی دعائ مانگیں. حسن خاتمہ کے لئے کلمہ طیبہ پکا کرنا چاہئے. یقین بھی اور ورد بھی. استغفار کی کثرت کرنی چاہئے. تلاوت اور درود شریف کا اہتمام کرنا چاہئے. اموال میں خیانت اور حرص سے بہت بچنا چاہئے. ناجائز دوستیوں اور غلط دوستوں سے دور رہنا چاہئے. جہاد اور ذکر کے ماحول کو اپنانا چاہئے. عہدوں اور مناصب کی خواہشات سے پاک رہنا چاہئے. دین کا کام جنونی محنت کے ساتھ کرنا چاہئے. اپنے ذمہ جو قرضے اور حقوق ہوں اُن کو لکھ کر کسی کے پاس رکھوانا چاہئے. اور اپنی تمام فکروں پر. حسن خاتمہ کی فکر کو غالب کرناچاہئے. اﷲ تعالیٰ سے خوف، خشیت، امید اور حسن ظن رکھناچاہئے.

اعتراف عاجزی
بندہ کو اعتراف ہے کہ. تین قسطوں کے باوجود اس موضوع کا حق ادا نہ ہو سکا. کئی کتابیں پاس رکھی تھیں مگر اُن میں سے کچھ نہ لکھ سکا.کئی مزید دعائیں بھی لکھنے کا ارادہ تھا. جو تحریر میں نہ آسکیں. یہ ایک بے حد اہم موضوع ہے کیونکہ موت ہم سب پر لازماً آنی ہے. اور ہم سب اس سے غافل ہیں. عجیب عجیب اور فضول فکریں ہمارے دل و دماغ پر سوار ہیں. آنسو ہیںمگر خوف اور خشیت کے نہیں. ناشکری اور شکوے کے. وظیفے اور دعائیں ہیں ساری کی ساری اس فانی دنیا کے لئے. اسی دنیا کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ہم ایک دم قبر میں جاگرتے ہیں اور تب پتہ چلتا ہے کہ. اپنے ساتھ کچھ بھی نہ لاسکے. ایسے ماحول میں اس موضوع کو جتنا پھیلایاجائے مفید ہے. کم از کم دل میں فکر تو پیدا ہو جائے. کم از کم ایک آنسو تو سچی خشیت والا ٹپک پڑے. کم از کم کسی تنہائی میں ایک بار تو اﷲ تعالیٰ سے عرض کریں کہ. مالک آپ کے پاس آنا ہے اور دامن خالی ہے. حسن خاتمہ نصیب فرما دیجئے. بس یہ فکر دل میں پیدا ہوتے ہی انسان کام والا بن جاتا ہے. مخلص، محنتی اور نہ تھکنے والا. اور دنیوی اغراض پر نہ گرنے والا. یہ فکر مؤمن کو چست اور متحرک بناتی ہے اور اُس کی زندگی کو سکون، نور اور خوشبو سے بھر دیتی ہے. یہ وہ فکر نہیں ہے جو انسان کو گھر بٹھا دے. یہ تو وہ فکر ہے کہ کٹی ٹانگ کے ساتھ بھی جہاد میں آگے چلاتی ہے کہ. میں نے اپنے مالک سے ملنا ہے اس کو زیادہ سے زیادہ کوشش کرکے. قربانی دے کر راضی کروں. اﷲ تعالیٰ مجھے بھی یہ پاکیزہ اور معطر فکر نصیب فرمائے. اورآپ سب کو بھی. اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ایمان والا. اطاعت و اسلام والا حسن خاتمہ نصیب فرمائے. آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا.
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ.
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 155835 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More