اسمگلنگ
مختلف ممالک اپنے ملک کے معاشی مصالح کے پیش نظر دوسرے ملکوں کی برآمدت پر
پابندی عائد کر دیتے ہیں کہ ان کے آنے کی وجہ سے ملکی مصنوعات اور ان کی
نکاسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس کی خلاف ورزی اوراسمگلنگ کاکاروباردر ست
نہیں ہے اس لئے کہ ایک تو یہ اس معاہدہ کی خلاف ورزی ہے جو اس ملک کا شہری
ہونے کے لحاظ سے اس کے قانون کے احترام کے سلسلہ میں ضروری ہے،دوسرے اس طرح
وہ پوری قوم اور باشندگان ملک کو اپنی حرکت کے ذریعہ نقصان پہنچاتااور زیر
بارکرتا ہے جو غیر اسلامی ہونے کے علاوہ غیرا نسانی حرکت بھی ہے۔
معاشی مصالح کے پیش نظر اس قسم کی پابندیوں کی گنجائش ہے، اس کی نظیر’’تلقی
جلب‘‘ اور ’’بیع حاضر للبادی‘‘ ہے، جس کو مکروہ قرار دیا گیا ہے، تلقی جلب
سے مرادیہ ہے کہ باہرسے آنے وا لے تجارتی قافلہ کے شہروں میں آنے سے پہلے
ہی کوئی شخص جا کر ان سے غلہ خرید لے اور شہر میں آکر اس سے زیادہ میں
فروخت کر دے اور ’’بیع حاضر للبادی‘‘ یہ ہے کہ شہر کا تجربہ کار تاجر دیہات
کے تاجر سے کہے کہ میں شہر کے نرخ سے آگاہ ہو ں،میں تمہارے لئے فروخت
کرادوں گا. رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ﴿ تر
مذ ی ﴾کیونکہ اس کی وجہ سے گرانی بڑھتی ہے اور اس شہر کے باشندوں کو زک
پہنچتی ہے،یہی مضرت ا سمگلنگ سے بھی پیداہوتی ہے کہ غیرملکی مصنوعات کی آمد
کی وجہ سے اس ملک کی صنعت اوریہاںکامعاشی توازن بگڑتااور متا ثر ہوتا ہے ۔
تجارت میں شیئر کی ایک خاص صورت
بعض عرب ممالک میں یہ قانون بنا دیا گیا ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگ وہاں کے
کسی مقامی باشندہ کی شرکت سے ہی تجارت کر سکتے ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ
مکمل تجارت تنہا اُنہیں کی ہو،اس قانونی طریقہ کی تکمیل کیلئے جب بیرونی
باشندے تجارت کرتے ہیں تو وہ برائے نام اپنے کاروبار میںکسی مقامی باشندہ
کانام بھی شریک کارکی حیثیت سے دیتے ہیں تاکہ قانونی طورپران کو اس کی
اجازت حاصل ہو جائے اور معاوضہ کے طورپرسالانہ یاماہانہ ان کو کوئی متعینہ
رقم دے دیا کرتے ہیں۔
یہ صورت درست نہیں ہے،اصل تاجراس طرح رشوت دیتا ہے اوریہ کوئی ایسی مجبوری
اور ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے رشوت کی اجازت دی جائے اوردوسرافریق
جو’’برائے نام‘‘ شریک ہے،کے حق میں بھی یہ رشوت اور غصب کا مال ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس مقامی باشندے کو بھی باضابطہ شریک کیا جائے اگر وہ
اس کے لئے آمادہ نہ ہو تو اصل تاجر اپنے سرمایہ کا کچھ حصہ اس کو قرض دے
اور معاملہ میں شریک بنا لے، پھر نفع میں جو تناسب سمجھے مقرر کر لے۔
دودھ بینک
۱﴾اسلام اصولی طور پر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک خاتون اپنے بچے کے
علاوہ دوسرے بچوں کو دودھ پلائے ، حد یث کی کتابوں میں بکثرت اس کی نظیریں
ملتی ہیں اور نکاح میں حرمت رضاعت کے تمام احکام اسی اصول پر مبنی ہیں۔
۲﴾اس قسم کے منظم بینک قائم کرنے میں دو مسئلے پیدا ہوں گے، ایک تو دودھ کی
خرید کا اور دوسرا دودھ کی فروخت کا، اس پر تو فقہائ کا اتفاق ہے کہ دودھ
پلانے والی دودھ پلائی کی اجرت لے سکتی ہے اور اس کی بھی خود قرآن مجید میں
صراحت موجود ہے کہ جو اپنے بچوں کو دودھ پلوائیں چاہئے کہ اس کی اجرت ادا
کریں، فقہائ نے بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے لیکن بیع اور اجارہ کے درمیان
فرق ہے، احناف کے یہاں دودھ کے اجزائے انسانی میں سے ہونے کی وجہ سے اس کی
بیع جائز نہ ہو گی، البتہ امام شافعی(رح) کے یہاں دودھ کی بیع درست ہے اور
یہی رائے امام احمد(رح) کی بھی ہے۔
’’ومن ذالک قول الشافعی واحمد بجوازبیع لبن المرأۃ مع قول ابی حنیفۃ ومالک
لایجوزبیعہ‘‘﴿المیزان الکبریٰ: ۲ ، ۴ ۷ ﴾
حنابلہ اور شوافع اجارہ پر قیاس کرتے ہیں اور احناف یہ جواب دیتے ہیں کہ
اجارہ میں دودھ کا عوض نہیں ہے بلکہ اس کے عمل کامعاوضہ ہے۔
اس طرح امام شافعی(رح)واحمد(رح) کے یہاں اس کی اجازت ہوگی،امام ابو
حنیفہ(رح) کے یہاں جائز نہیں اور حنفیہ کا نقطئہ نظرفطرت سے ہم آہنگ،عقل کے
تقاضوں کے مطابق اور نصوص کے موافق ہے۔
بینک ڈرافٹ وغیرہ کا شرعی حکم
آج کل بڑی رقوم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے لئے چیک، ڈرافٹ اور
پوسٹل و منی آرڈر وغیرہ کو آسانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا
تعامل اس درجہ ہے کہ اس سے گریز بھی مشکل ہے، بہ ظاہر اس پر ’’سفتجہ‘‘ کی
صورت صادق آتی ہے جسے بعض فقہائ نے ناجائز اور بعض نے مکروہ قرار دیا ہے۔
’’سفتجہ‘‘یہ ہے کہ ایک شخص کسی کو قرض دے اورکسی شہرمیں جہاںجانا ہے وہاں
قرض وصول کر لے تاکہ راستہ کے خطرات سے محفوظ رہ سکے اورپُر امن طور پر اس
کو یہ رقم مل جائے، اس کے لئے کبھی یہ صورت بھی اختیار کی جاتی تھی کہ ایک
آدمی ایک شہر میں کسی سے ایسی رقم لے لیتا اور دوسرے شہر میں جہاں اس کا
کاروباری رفیق موجود ہوتا، وہاں وہ یہ رقم صاحبِ مال کو ادا کر دیتا، علامہ
مجدالدین فیروز آبادی(رح) لکھتے ہیں:
وہ یہ ہے کہ تم کسی کو مال دو جس کا مال کسی اور شہر میں ہو، تمہارا مقصود
یہ ہو کہ وہاں کا سفر کرو چنانچہ تم اس سے اس شخص کے نا م ایک تحریر لو جس
کے پاس اس دوسرے شہر میں اس کا مال ہو کہ وہ تم کو اتنا ہی مال دے دے جتنا
مال تم نے اس کو اپنے سفر سے پہلے دیا تھا۔‘‘﴿القاموس المحیط : ۱ ، ۴ ۹۱﴾
اب اگر چیک، ڈرافٹ وغیرہ کی صورت پر غور کیا جائے تو یہ صورت پوری طرح صادق
آتی ہے، فقہائ نے یہ بھی لکھا ہے کہ سفتجہاس وقت مکروہ ہوگا جب صاحبِ مال
معاملہ میں بہ حیثیت شرط اس بات کو داخل کر دے کہ وہ یہ قرض فلاں دوسرے شہر
میں ادا کرے گا،یا عرف میں یہ بات اتنی عام ہو گئی ہو کہ اس کامقصدومنشائ
ہی یہی سمجھاجاتاہو،تب یہ سفتجہ مکروہ ہوگا﴿ھندیہ:۳،۶۳۱﴾مذکورہ مروجہ
طریقوں میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے۔
لیکن یہ مسئلہ متفق علیہ نہیں ہے، حضرت عبداللہ بن عباس(رض) اور عبداللہ بن
زبیر(رض)کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ مکہ میں تاجروں سے نقد قرض لے لیا کرتے
تھے اور کوفہ اور بصرہ میں ادائیگی کا تحریری و ثیقہ لکھ دیتے
تھے،﴿المبسوط﴾علامہ ابن تیمیہ(رح) بھی اس کو جائز اور درست قرار دیتے ہیں ۔
﴿فتاویٰ ابن تیمیہ(رح)﴾
موجودہ دور میں جہاں یہ ایک کاروباری ضرورت بن گئی ہے، مناسب ہوگاکہ اس
مسئلہ میںفقہی اختلاف سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کو جائز اور درست قرار دیا
جائے جیسا کہ منی آرڈر کے سلسلے میں ہندوستان کے اکابر علمائ نے جواز کی
شکل پیدا کی ہے ۔
مخدرات کا استعمال اور خرید وفروخت
جوچیزیں نشہ نہ پیدا کرتی ہوں لیکن صحت کے لئے مضرت رساں ہوں اور ان کا
استعمال انسان کو ان کا خوگربنادیتا ہو، آج کل ان کو’’مخدرات‘‘ کہاجاتا
ہے،ظاہرہے ایسی چیزوں کا استعمال جائز نہیں اور صحت جسمانی کے ساتھ کھلواڑ
ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی ایک گراںقدرنعمت ہے،ایسی چیزوںکی خریدوفرو خت کرنا
بھی جائز نہیں اور ان کی قیمت قریب بہ حرام ہے، اس سلسلہ میں فقہائ نے یہ
اصول بتایاہے کہ:
’’جس چیز کا بعینہ گناہ میں استعمال کیا جارہا ہے اس کی خریدوفروخت مکروہ
ہوگی اور جس کااستعمال تبدیلی کے بعد گناہ ہو تو اس کی خرید وفروخت مکروہ
ہے۔‘‘﴿درمختارعلی ھامش الرد:۵،۷۷۲﴾
اسی لئے فقہائ نے تمبا کو وغیرہ کی خریدوفروخت کو بھی منع کیا ہے:
’’تمبا کو کی خریدوفروخت اور اس کا استعمال دونوں ممنوع
ہیں۔‘‘﴿ردالمحتار:۵،۵۹۲﴾ |