جی صاحب جی ؟

میں ایک دفتر میں ریسرچر کی حیثیت سے کام کرتاتھا۔دن بھر کتب بینی ،جدید عنوانات پر خاکہ بنانا اور اس پر معلومات جمع کرکے ایک تحقیق پیش کرنا تھا ۔یہ کوئی زیادہ دور کی بات نہیں۴سال پہلے کی بات ہے ۔میں اپنے آفس میں ایک نوجوان کو دیکھتاتھا جو دفتر ی اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ہیڈ آف ڈیپارٹ کے گرد گھومتارہتاتھا۔موصوف کی عادت تھی کہ کسی بھی میٹنگ میں کوئی بھی بات ہوتی ۔تو بجائے کسی فکر ی پہلو کو اجاگر کرتے بلکہ صاحب ۔جی حضور ،قبلہ ،یس سر ،پر اکتفاء کرتے ۔کبھی باہم بیٹھنے کا اتفاق ہوتا تو ممدوح کمال درجہ کے ۔۔۔۔۔۔۔تھے ۔سر آج آپ کی ٹائی تو بہت خوبصورت لگ رہی ہے ۔حضور میٹنگ میں آپ نے کما ل گفتگو کی ۔کبھی مجھ ناچیز کے اوج ثریا واصل کردیتے ۔ظہوربھائی کما ل کے آدمی ہویار۔دل خوش ہوگیاہے آپ کی بات سن کر۔وغیر ہ۔ان میں ایک یہ خوبی بھی تھی کہ جس کی تعریف کرتے تھے اس کی طبیعت میں اعتدال رکھنے کے لیے اس کی تعریفوں کے پل باندھتے تھے وہاں عدم موجودگی میں اس کی عزت کاجنازہ بھی اپنی اقتدا ء میں پڑھاتے تھے ۔نتیجہ کیا نکلا کہ ان کی کوئی عزت نہیں تھی ۔انکی ہر بات خوشامد ،چاپلوسی سے موسوم کی جاتی ۔ہوا پھر یہ کہ ہر شخص ان سے کٹنے لگااور اب ان کے برے دن آگئے ۔لگائی بجھائی کی وجہ سے جاب سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

محترم قارئین ۔کوئی کسی کی روزی روٹی میں کمی زیادتی نہیں کرسکتا،صرف چند سکوں کی خاطر اپنی عزت کو داؤ پر لگادینا کہاں کی دانشمندی ۔پیارے آقا ،مدینے والے مصطفی ﷺکا فرمان ِ عظمت نشان ہے :

معاوية قال سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول إياکم والتمادح فإنه الذبح
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ توذبح کرنے کے مترادف ہے۔(ابن ماجہ)

اسلام معاشرے و معاشرت کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے ۔
اسلام میں خودپسندی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اس کی جہاں ممانعت بھی وارد ہوئی ہے وہاں ہی کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے کہ کہیں شیطان اس بندے کو مغرور، متکبر نہ بنادے، اسلام ایک انسان کی ہر معاملے میں بہترین رہنمائی کرنے والا دین ہے اسلام نہیں چاہتا کہ ایک انسان اپنی حدود کو پار کرئے کہ جس کی وجہ سے اس کی زندگی میں خرابی آئے،اسلام نے ہر معاملے میں بہترین رہنمائے اصول دیئے ہیں اگر ان اصولوں کو فراموش کرکے ان کے خلاف اقدام کیئے جائیں تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے جو آخر کسی بڑے فتنے کا سبب بن جاتا ہے اور انہی اصولوں میں سے ایک اصول ہے کسی انسان کے سامنے اس کی تعریفوں کے پل باھندنا کہ جس کی وجہ سے وہ بندہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے انسان کے اندر تکبر کا بیج بو دینا ہے اور جس انسان میں تکبر آگیا تو سمجھ لو کہ اس کی آخرت تباہ ہو گئی۔

ابلیس ::شیطان::بھی اسی تکبر کی وجہ سے برباد ہوا تھا، تکبر اللہ کو بہت ناپسند عمل ہے اس لیئے اسلام نے اس تکبر کو ایک انسان کے اندر آنے کے رستے بند کرنے کی طرف توجہ دی ہے جیسا کہ ایک حدیث شریف میں نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا غندر عن شعبة عن سعد بن اس ارشاد رسولﷺ کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے معاشرے میں کچھ عجیب سی حرکات ہورہی ہیں اگر کوئی دین کے علم سے نابلد انسان ایسی حرکت کرئے تو دُکھ نہیں ہوتا کہ وہ جاہل ہے مگر افسوس کہ ہمارے اہلِ علم حضرات بھی اس مرض کے شکار ہوچکے ہیں کہ جب وہ کسی فورم پر تشریف فرما ہوتے ہیں تو ان کے سامنے ان کی خوب تعریف کی جاتی ہے اور وہ صاحب اُس تعریف کرنے والے کو منع بھی نہیں کرتے کہ بھائی منہ پر تعریف نہ کرو اس سے ہمارے پیارے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے اور اس مرض میں سیاسی اور مذہبی سبھی طرح کے لیڈران شامل ہیں، میں سبھی پر اس کا اطلاق نہیں کرتا مگر اکثریت اس کا شکار ہوچکی ہے، مثلاً جب کسی سیاسی پارٹی کا جلسہ ہوتا ہے تو وہاں پر موجود امیدوار برائے پارلیمنٹ کے سامنے اس کی خوب تعریف کی جاتی ہے اور اس کے نام وہ وہ کام لگائے جاتے ہیں جو اس نے کیئے بھی نہیں ہوتے ہیں اور وہ صاحب اس خوشامدی پر پھولے نہیں سماتے چلو یہ لوگ تو دین کے علم سے بےبہرہ ہیں ان کو ان احادیث کا علم نہیں ہوگا::ویسے یہ احادیث پرائمری کے نصاب میں شامل ہیں مگر افسوس کہ ہمارے اکثر حکمران جاہل اور ان پڑھ ہیں جعلی ڈگڑیاں لے کر ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں::

انھیں بڑے بڑے القابات سے نواز جاتاہے ۔وہ اوصاف بھی گنوائے جاتے ہیں ۔جنھیں موصوف جانتے بھی نہیں کہ یہ میری مداح میں ہیں یا ذم میں یہ صرف ایک مثال کے طور پر ہیں ورنہ اس سے بھی مگر مجال ہے کہ وہ صاحب جن کو یہ القاب نوازے جارہے ہوں وہ ان لوگوں کو منع کریں کہ بھائی آپ کیوں میرے منہ پر میری تعریف کیئے جا رہے ہو؟ اس سے میرے پیارے رسولﷺ سے منع کیا ہے، میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا ان حضرات کے سامنے سے یہ حدیث بھی نہیں گزری؟؟؟

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔ دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا اور اسے لوگوں کو سکھایا اور قرآن کریم پڑھا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا عمل کیا وہ کہے گا میں نے علم حاصل کیا پھر اسے دوسرں کو سکھایا اور تیری رضا کے لئے قرآن مجید پڑھا اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا تو نے علم اس لئے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس کے لئے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو یہ کہا جا چکا پھر حکم دیا جائے گا کہ اسےمنہ لے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔۔۔۔۔الخ
(صحیح مسلم)

ایک اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا گیا لیکن میں نے اسے خود نہیں سنا کہ تم میں ایک قوم ایسی آئے گی جو عبادت کرے گی اور دینداری پر ہوگی، حتیٰ کہ لوگ ان کی کثرت عبادت پر تعجب کیا کریں گے اور وہ خود بھی خودپسندی میں مبتلاء ہوں گے، وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔

(مسند احمد)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی مرویات
ان واضح احکامات کے ہوتے ایک مسلم کبھی بھی خودپسندی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اپنے سامنے کسی کو تعریف کرنے کی اجازت دینی چاہیے، مگر افسوس کہ اہلِ علم طبقہ بھی اس مرض کا شکار ہوچکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جس بندے نے اللہ کی رضا کے لیئے دین کا علم حاصل کیا ہوگا وہ ایسی حرکت کسی کو بھی کرنے نہیں دے گا اور جس نے علم حاصل ہی اس لیئے کیا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اس کو القابات سے نوازیں وہ بلا کیونکر لوگوں کو منع کرئے گا۔

اور آج ہم کیا کررہے ہیں؟کیا آج تک مَیں نے آپ نے اس حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کیا ہے؟اگر اتنی ہمت نہیں کہ مٹی منہ پر پھینک سکیں تو کم از کم کسی کو منہ پر تعریف ہی کرنے سےہی روک دیا کریں میرے خیال سے اس میں کوئی مشکل بات نہیں ہوگی۔

اب تعریف کرنے کا مسنون طریقہ بھی آپ بھائی لوگ نوٹ فرما لیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَالَ وَيْحَکَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ مِرَارًا إِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ مَادِحًا صَاحِبَهُ لَا مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلَانًا وَاللَّهُ حَسِيبُهُ وَلَا أُزَکِّي عَلَی اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ إِنْ کَانَ يَعْلَمُ ذَاکَ کَذَا وَکَذَا
حضرت عبدالرحمن بن بکرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی دوسرے آدمی کی تعریف بیان کی تو آپ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے کہ تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دہرایا کہ جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے ساتھی کی تعریف ہی کرنا چاہے تو اسے چاہئے کہ وہ ایسے کہے میرا گمان ہے اور اللہ خوب جانتا ہے اور میں اس کے دل کا حال نہیں جانتا انجام کا علم اللہ ہی کو ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے۔
(صحیح مسلم): کسی کی اس قدر زیادہ تعریف کرنے کی ممانعت کے بیان میں کہ جس کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہو ۔اور اس حکمِ رسولﷺ سے بات بالکل واضح ہوئی کہ اگر تعریف کرنی ہے تو پہلے وہ کہے کہ میرا گمان ہے اور اصل حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ ایسے ایسے ہے یعنی اس میں فلاں فلاں اچھائی ہے۔

محترم قارئین :آپ ہی بتائیں وہ عمل کے جس کی تائید دل نہ کرے ،وہ کلام جس ترجمانی دل نہ کرے ،دکھاوے ،لالچ ،طمع سے بھرپورہوں بھلا ان میں تاثیر کہاں سے آئے گی۔خود کو اتنا باصلاحیت بنائیں کہ آپ ،جی حضور ،یس سر ،جی جی کرنے کی بجائے ضرورت بن جائیں ۔مت لگائیں آس کسی سے ۔اپنے زورِ بازو پہ جینا سیکھیں ۔مت عادی بنائیں دوسروں کے آسرے ،دوسروں کی جیب میں پڑی رقم پرنظر نہ رکھیں ۔ہرجائز و ناجائز پر لبیک کہنا نہ انصافی ،بے ضمیر اور بددیانتی ہے ۔مت کریں جی حضوری ۔آپ آپ ہیں ،وہ وہ ہیں ۔کیا کہتے ہیں آپ ؟میری بات سے اتفا ق کرتے ہیں ؟اگر کرتے ہیں تو بھی آج ہی سے عہد کرلیں کہ میں عزت کروں گاچاپلوسی ،خوشامد نہیں کروں گا۔ان شا ء اللہ عزوجل ہمارے لیے تمام مسدود راستے کھُل جائیں گئے۔نعرہ لگائیں
ہم عزت کریں گے ۔عزت کروائیں گے۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 594032 views i am scholar.serve the humainbeing... View More