سیدہ ہند رضی اللہ عنہا نے سیدالشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کاکلیجہ چبایا؟

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ انتہائی جری اور نڈر صحابی رسول تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا تھے۔ خیال رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فقط دو چچا سیدنا حمزہ و سیدنا عباس رضی اللہ عنہما مشرف بہ اسلام ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو ”اسد اللہ“، ”اسد رسول اللہ“ اور ”سید الشہدائ“ کے خطابات عطا فرمائے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دل خراش واقعہ غزوہ احد میں پیش آیا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ داری بڑی شد و مد سے تحریراً و تقریراً حضرت سیدہ ہند رضی اللہ عنہا پر عائد کی جاتی ہے۔ اور کئی ”اہل سنت“ کہلانے والے بھی آں موصوفہ سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کو ”جگر خوار حمزہ“ کے مکروہ الفاظ سے یاد کر کے توہین صحابہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ حضرت سیدنا وحشی رضی اللہ عنہ جنہوں نے غزوہ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پر وار کر کے آپؓ کو شہید کیا تھا، اسلام قبول کرنے جب خدمت رسالت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مشرف بہ اسلام ہونا قبول فرماتے ہوئے فرمایا کہ آپؓ اپنا چہرہ میرے سامنے نہ لایا کریں (الاصابة فی تمییزالصحابة)۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سے شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کا چہرہ دیکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلمؓ کوشہید چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی یاد کی وجہ سے غم و الم کی کیفیت سے دو چار نہ ہونا پڑے۔ اس کے برعکس جب سیدہ ہند رضی اللہ عنہا اسلام لاتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی کا اظہار بھی فرماتے ہیں اور اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ ہندؓ کے مابین ہونے والی فصیحانہ و بلیغانہ گفتگو کا تذکرہ بھی کتب میں موجود ہے۔ کیا وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ہند رضی اللہ عنہا سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حوالہ سے کوئی بات نہیں فرمائی؟ جب کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ چھپانے کے لیے فرمایا۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت میں سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کا کوئی کردار نہ تھا۔ نیز اس ضمن میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے سیدہ ہند رضی عنہا کی کوئی بات یا معاملہ طے نہ ہوا تھا۔ اور نہ ہی حضرت وحشی رضی اللہ عنہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔ مگر کئی محقق و جید اور متبحر و ممتاز علماءکرام نے شہادت حمزہؓ کی ذمہ داری حضرت ہند رضی اللہ عنہا پر عائد کی ہے۔ شاید کسی پر اعتماد کرتے ہوئے ان محترم حضرات نے اپنی تحریر و تقریر میں یہ خلاف حقیقت بات بیان کر دی۔ اگر یہ حضرات ذرا سی بھی جانچ پڑتال کر لیتے تو ان پر یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی کہ عم رسول، سید الشہداءحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے منصوبہ میں سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کی مرضی شامل نہ تھی۔

حقیقت یہ تھی کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں طعیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ طعیمہ بن عدی کے بھتیجے تھے، جو کہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔اور حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بھی ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے۔ حضرت وحشیؓ، جناب جبیر بن مطعمؓکے غلام تھے۔ سیدنا جبیر بن مطعمؓ حدیبیہ اورفتح مکہ کے درمیان ایمان لائے اور خلافت معاویہؓ میں فوت ہوئے۔ آپؓ نے حضرت وحشیؓ سے کہا کہ حمزہؓ نے میرے چچا طعیمہ بن عدی کو قتل کیا ہے، اگر تم میرے چچا کے بدلہ میں حمزہؓ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو۔ یہی وجہ تھی جس نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا کہ وہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیں۔

اسی بات کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ”کتاب المغازی“ کے عنوان ”قتل حمزة بن عبدالمطلب رضی اللّٰہ عنہ“ کے تحت بیان کیا ہے۔

(اقتباس از کتاب ”مقام امیرمعاویہؓ و مرویات امیر معاویہؓ “ مولف محمد عرفان الحق ایڈووکیٹ، ص 53، 54)
Muhammad Irfan Ul Haq Advocate
About the Author: Muhammad Irfan Ul Haq Advocate Read More Articles by Muhammad Irfan Ul Haq Advocate: 30 Articles with 72625 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.