ماں تجھے سلام

ماں اسلام علیکم ، میری جان سے بھی زیادہ عزیز ماں کے علاوہ دنیا بھر کی مائی اس ناچیز کا سلام اور نیک تمنائیں قبول فرمائیں۔بندہ ناچیز ایک عرصے سے مختلف حوالوں سے مضامین کی شکل میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو جوڑنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں۔مگر آج اُس عظیم ہستی کے متعلق لکھنے بیٹھ گیا توبے ساختہ آنسوں ٹپک پڑے۔میری کیا مجال کی میں ماں کے حوالے سے دو سطور لکھ کر خود کو بری الذمہ ٹھراﺅں، یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ جب کہ خالق کائینات نے خود ماں کی تعریف میں فرمایا ہے کہ (ماں کی قدموں تلے جنت ہے)اہل علم فرماتے ہیں کہ اللہ کی اپنی مخلوق سے محبت کا اندازہ یا تشبیہ دینے میں سوائے ماں کے علاوہ کوئی اور محبت نظر نہیں آتی ہے سبُحان اللہ۔ اس کا واضع مطلب یہ ہے کہ جس کو خدا نے اپنی محبت کی تشبیہ دی ہو اور جس کے قدموں تلے جنت ہو جو اپنی اولاد پر خوشی خوشی سے جانثار کرے وہ عظیم ہستی ماں ہی تو ہے۔والدین کے چہرے کی طرف پیار سے دیکھنا بھی عبادت میں شامل ہے، ماں کے ساتھ مسکرا کے بات کرنا تو عین عبادت ہے۔کسی شاعر نے کہا تھا کہ (خدا کے محبت کی ابتداءہے ماں،) تو مجھے بھی کچھ کہنے دیجئے اس جملے کی طرح پر میں یہ کہنا چاہوں گا۔(ارض و سماں پہ محبت کی انتہا ہے ماں) کیا ہمارا قلیل علم، کیا ہماری سعش، کیا ہماری زباں قرطاس پر ماں کی محبت کا احاطہ کرسکتی ؟ کہاں سمندر کی گہرائی اور کہاں شبنم کے قطرے جو دھوپ نکلتے ہی سوکھ جاتے ہیں۔ماں اپنی اولاد کےلئے کتنا دکھ جھیلتی اس کی نظیر نہیں ملتی، ماں اپنے اولاد کی خاطر طرح طرح کے مظالم برداشت کرتی ہے ،ماں کے علاوہ کوئی دوسرارشتہ ایسی قربانی دینے پر قادر نہیں،ماں بچے کی خاطر نہ گرمی دیکھتی ہے اور نہ سردی، نہ بھوک پیاس غرض دنیا کی بڑی سے بڑی آفت بھی ماں می ممتا کو کم نہیں کرسکتی ہے۔ اُس کی اولاد جوان ہواجائے تو بھی کی نظر میں وہ بچہ ہے اگر اولاد بوڑھے بھی ہوجائیں تب بھی ماں اُسے وہی پیار کرتی ہے جب وہ ماں کی گود میں تھا تو کرتی تھی۔اولاد ، دور کہیں چلے جائیں اور سالوں تک نہیں لوٹ آجائیں تو ماں ہر ہر پل نہ صرف انتظا ر میں گزارتی ہیں بلکہ اپنے لخت جگر کی سلامتی کیلئے دن رات خدا سے دعائیں مانگتی ہیں۔اگر اُس کا بچہ سکول سے زرا دیر کرے تو ماں کا دل دھڑکتا ہے۔اُس کی اولاد تعلیم کی غرض سے ماں سے دور ہو یا ملازمت کی غرض سے کہیں چلا جائے ماں بے چینی سے وہ لمحے ، وہ دن، وہ مہینے، وہ سال گزارتی ہیں جب تک اولاد سے ملاقات نہ پائے ماں کا دل اولاد سے ملاقات پر شکرانے کے ساتھ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ہمارے اس پسماندہ علاقے میں مائیں بہت تکلیف اُٹھاتی ہیں۔ جس گھر میں ماں اکیلی ہو ، بچے کو گود میں رکھ کر روٹی پکاتی ہیں، یہاں تک گائے،ہمارے دیہاتوں میں گائے، بکری کے دودھ چوائی کے دوران بھی بچے کو بغل سے جدا نہیں کرتی ہے۔گھر کے اندر کا کام کاج ہو یا کھیتوں میں مشقت ماں اپنی اولاد کو جُز بدن کی طرح ساتھ ساتھ رکھتی ہے۔ماں کو اُس کے سسرال کے گھر میں کوئی سہولت میسئر ہو یا نہ ہو اپنی ہر خواہش کو قربان کر کے اپنی اولاد کو سکھ اور چین سے دیکھنا چاہتی ہیں۔بچے کو ذرا سا بخار ہوجائے یا ذرا سی گرمی ،سردی لگ جائے ماں ایک پروانے کی طرح بچے کے گرد گھومتی ہے۔عالم اسلام کے جیّد علماءکرام جنہوں نے عالم اسلام کے لئے ،جنہوں نے انسانیت کے لئے کارہائے نمایاں انجام دے کر دنیا سے گزرے ہیں آج بھی دنیا اُنہیں نہ صرف یاد کرتی ہیں بلکہ اُن کے کردار کو مشعل راہ بنانے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔آخر کوئی ماں ہوگی جس نے اُسے ہوا، پانی، اور آگ سے بچا کر جوان کیا ایک تندرست ذہن، و تندرست جسم کی بناءپر وہ لوگ دنیا میں عظیم ہوئے ماں کی ممتا اور ماںکے کردار کی وجہ سے،بڑے بڑے سائنسدان، دانشور، مصنفین،ولی،ماہرین طب،اساتذہ،وکلائ،تاجر، حکمران، اور ماضی میں میدان جنگ میں نام پید اکرنے والے بڑے بڑے سورماءیہ سب ماں کی گود میں کھیل کر، ماں کی محنت مشقت خلوص ، ممتا اور ماں کی دعاﺅں کی بدولت مقام حاصل کیا ہے۔ دوستو! میرے خیال میں اگر دنیا کا بڑے سے بڑا لکھاری ساری زندگی ماں کی ممتا کے حوالے سے لکھنا چاہئے تو بھی یا لکھنے کے بعد بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ اُس نے ماں کی پوری محبت کو اپنے جملوں میں سمیٹا ہے۔لگتا ایسا ہے کہ آج کے معاشرے میں ہماری زبان پر جس قسم کے آڈیو چلتے ہیں ہم تو اس قابل ہی نہیں کہ ماںجیسے پاک ہستی کا نام اپنی آلودہ زبان سے لیں؟بس رواجی انداز میں ماں ماں کہتے ہیں وہ ماں ہی تو ہے جو درگزر کرنے والی ہستی ہے۔اُس ماں پر سلام ہو جس کی اولاد کے متعلق مشہور ہے کہ(بعد از خدا بزرگ توئی) اُس ماں پر سلام ہو جس کا بچہ ( در علم اور شیر خدا کہلائے۔اس ماں پر سلام ہو جس کی اولاد ، خلیل اللہ۔ ذبیح اللہ کہلاتی ہے۔سلام اُس عظیم ماں پر جس کا بنائے لا الہٰ بنا، سلام ہو اُس ماں پر جس کا بچہ امام آخر الزماں آج بھی زندہ ہیں اور عالم اسلام آپ کے آمد کی منتظر ہیں۔سلام ہو اُس ماں پر جس کے بچے کو دنیا لال شہباز قلندر کے نام سے یاد کرتی ہے۔کہیں بری امام کے نام سے کہیں سیّد شاہ ولی کے نام سے یاد کرتی ہیںسلام ہو اُس ماں پر جس کا بیٹا امام خمینی جیسا عالم اسلام کا ہیرو ہے۔ سلام ہو اُس ماں پر جس کا بیٹا ڈاکٹر قدیر جیسا سائنسدان ہے،سلام ہو اُس ماں پر جس کا بیٹا مفکر اسلام کہلایا۔ اور سلام ہو اُس ماں پر جس کا فرزند عارف حسین شہید تھا، سلام ہو اُس ماں پر جس کا بیٹاقائد گلگت شہید ضیائالدین تھا، سلام ہو اُس ماں پر جس کے بیٹے قوم وملت کی خدمت کررہے ہیں، سلام ہو اُن ماوئں پر جن کی اولاد انسانیت کی بکاہ کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اور سلام ہو اُس ماں پر جس کا بیٹا سیّد راحت حسین جیسا اتحاد بین الملمین کا داعی ہے۔سلام ہو اُن ماوئں پر جن کی اولاد آج محنت مشقت کرکے روزی کما رہی ہے۔ دنیا کے تمام انسانوں کے ہر دھڑکنے والا دل ماں کا ہی ہے اور دنیا کی تمام ماﺅں کا دل اپنے اولاد کے لئے دھرکتا ہے۔ماں کے عالمی دن کے حوالے سے ہم بہت سستی سے کام لیتے ہیں،افسوس بسنت کو مناتے جان بھی چلی جائے تو کوئی بات نہیں مگر MOTHER DAY منانے میں ہم یقیناً کنجوسی سےکام لیتے ہیں۔ اس دن میں خاص طور پر تعلیمی ادارے کھلنے چاہیئں اور مادر ڈے کے حوالے سے طلباءو طالبات کو روشناس کرانا چاہئے۔ایک جوڑہ خوصوصی طور پر ماں کو مدر ڈے کا تحفہ ضرور دینا چاہئے۔اس دن کے حوالے سے بہت زبردست قسم کےsmsہم ایک دوسرے کو send تو ضرور کرتے ہیںمگر آج کا ماحول ،آج کے انسانوں کی طبیعت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے ماں کا خیال رکھنا چھوڑ دیا، دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی والدین ہیں ۔ ساری دنیا کو بھول جائیں مگر ماں کو کبھی نہ بھولنا ۔ مجھے کچھ دن قبل ایک sms ملا تھا جس میں لکھا تھا کہ ( جب بچہ کھانا نہیں کھاتا تھا تو ماں تب بھی روتی تھی ، اور ضب اولاد ماں کو کھانا نہیںدیتا ہے ماں تب بھی روتی ہے) پروردگار ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما، ماں تجھے سلام٭۔
YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 23934 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More