وہ ایک کہر بھری شام تھی۔جب میں
لاہور شہر کی ایک مشہور شاہراہ پر ٹریفک کے ہجوم میں پھنس کر رہ گیا
تھا۔گاڑیوں کا ایک میلوں لمبا اژدہا ہمارے آگے کھڑا تھا۔اور اسکے حرکت کرنے
کے کوئی آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے۔میں نے گاڑی کا انجن بند کر دیا
اور سوچنے لگا کہ ہر روز اس ٹھٹرتی ہوئی سردی میں عوام سڑکوں پر آکر
بجلی،اور گیس کی غیر اعلانیہ اور طویل بندشوں کے خلاف مظاہرے کیوں کرتے
ہیں؟کیا کبھی ان دھرنوں اور مظاہروں سے حکومتی حلقوں میں ہلچل پیدا ہو ئی
ہے؟سچ تو یہ ہے کہ ان احتجاجوں سے اقتدار کے اونچے ایوانوں میں بیٹھے ان
کرتا ؤں دھرتاؤں میں سے کسی کے کانوں میں کئی میل پر بھی جوئیں تک نہیں
رینگتیں۔یہ لوڈ شیڈنگ نامی عذاب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک کھیل کی
طرح ہے جس سے وہ پوائنٹ بناتے ہیں اور ہم انہی کو نعرہ مار مار کر پکارتے
اور ان سے مدد کی توقع کرتے ہیں۔
گاڑی ایک انچ بھی حرکت نہ کر سکتی تھی،پیچھے نہ آگے،کوفت انتہا کو پہنچ چکی
تھی۔نہ جانے کتنے ہی لوگ اس جگہ پھنس چکے تھے۔ٹائر جلا کر سڑک بند کی جا
چکی تھی۔اور میں پچھتا رہا تھا کہ اس سڑک سے مجھے آج ہی گزرنا تھا۔میں نے
سر کو سیٹ پر ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں۔ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ
گاڑی کی کھڑکی پر دستک کی آواز نے مجھے آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا۔میں
نے دیکھا وہ آٹھ نو سال کا ایک بچہ تھا۔میں نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور
اس سے باہر کی صورت حال پوچھی۔جواب توقع کے مطابق نا امیدی کا ہی تھا۔میں
سوچنے لگا کہ نا جانے کتنا وقت مجھے یہاں رکنا پڑے گا۔
صاحب!انڈے لے لیں۔اس بچے نے اپنی معصوم آواز میں کہا۔نہیں یار،نہیں
چاہیے!جواب سن کر مایوسی کی ایک لہر اسکے چہرے سے گزر گئی۔مجھے اندازہ ہوا
کہ شاید وہ ضرورت مند ہے۔میں نے جیب سے بیس روپے نکال کر اس کی طرف بڑھا
دئیے۔اس نے بیس روپے لے کر اپنے ہاتھ میں پکڑے کولر میں سے دو گرم انڈے
نکالے اور میری طرف بڑھا دئیے۔میں نے فوراً کہا ’’ انڈے نہیں چاہیے تم پیسے
یونہی رکھ لو‘‘۔
’’نہیں صاحب!’’میں بھیک نہیں لیتا‘‘اسکی آواز میں تکبر تھا،انا تھی،ایک پر
سکون لہجہ تھا۔میں حیران رہ گیا۔دل ہی دل میں سوچنے لگا۔یہ کون ہے؟جو کہہ
رہا ہے میں بھیک نہیں لیتا؟جس ملک کے حکمران ساری دنیا میں کشکول لیے
گھومتے ہوں اور بھکاری مشہور ہوں۔جو بھیک لینے کے لیے کوئی بھی حد پار کر
سکتے ہوں۔جو اپنے آپ کو ذلت کی پستیوں میں گرا کر ڈالروں کی بھیک مانگ کر
اپنے اثاثے ریکارڈ سطح تک لے جانے کی دن رات کوشش کرتے ہوں۔امداد کے نام پر
اربوں ڈالرز بھیک لے کر ملک کے بچے بچے کوعالمی اداروں کا مقروض بنا چکے
ہوں۔جو سوئزرلینڈ میں خفیہ بھاری اکاؤنٹ ہونے کے باوجودخود کو بھوکا ننگا
کہہ کر اغیار کے سامنے جھولیاں پھیلاتے ہوں۔جس ملک کا حاکم طبقہ ملک ،ملک
گھوم کر وہاں کے بڑوں سے اپنے لیے رقومات کی بھیک مانگتے ہوں۔جو کبھی سیلاب
زدگان تو کبھی زلزلہ زدگان کا بہانہ بنا کر اپنی جیبوں کو بھرنے کی خاطر
عالمی مالیاتی اداروں سے تعاون کی اپیل کرتے ہوں۔جس ملک کے ایک وزیر کا
ماہانہ خرچہ کروڑوں ہونے کے باوجودلوٹ مار کی صورت زبردستی بھیک کے مختلف
طریقہ کار رائج ہوں ۔جس ملک کے حکمران چند ڈالروں کی بھیک کی خاطر اپنے ہم
وطنوں کو اغیار کے ہاتھوں بیچ ڈالتے ہوں،اور اپنی عفت مآب قوم کی بیٹیوں کو
سر عام بیچ کر اپنی جھولیاں نوٹوں سے بھرتے ہوں۔جو دولت کے اتنے بھوکے ہوں
کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے بینک بیلنس بھرتے ہوں۔حالانکہ ان
میں سے اکثر وہ انٹرنیشنل بھکاری ہیں جو ایسی جاگیروں پر قابض ہیں جن کی
پیمائش کرنے کے لیے بھی کئی ملازمین درکار ہیں،جن کے صرف ہوٹلوں کے بل
کروڑوں سے تجاوز کر جاتے ہیں،جن کی زمینوں پر ہزاروں مزارعے جانوروں جیسی
زندگی گزارتے ہیں،جن کے گھر پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ہیں،جن کی اگلی سات
پشتیں دودھ سے نہا سکتی ہیں،جن کے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے
گوشواروں میں درج جائیدادوں سے زیادہ ان کے ملازمین کی ملکیتیں ہیں ان سب
کے بوجود وہ خود کو خالی دامن سمجھتے ہیں۔اور بھیک مانگنے کا چسکہ وقتاً
فوقتاً پورا کرتے رہتے ہیں ۔ اسی ملک کا ایک چھوٹا سا بچہ کچھ پاس نہ ہوتے
ہوئے بھی کہہ رہا ہے کہ وہ بھیک نہیں لیتا.میں نے چونک کر اس دعویدار کو
دیکھا۔سردی کی شدت کے حساب سے ناکافی لباس ،وجود کی کپکپی کو روکنے کی
ناکام سعی میں مصروف،چہرے پر غربت کی بے رونقی لیے وہ مجھے بیس روپے لوٹا
رہا تھا۔
کیا نام ہے تمہارا؟میں نے پوچھا۔
’’محمد عدنان‘‘اس نے بتایا۔اور پھر میرے اور اس کے درمیان سوال جواب کا ایک
سلسلہ شروع ہو گیا۔اس نے بتایا۔اس کا باپ یرقان کا مریض ہے۔اور ماں گھر میں
باپ کی دیکھ بھال کرتی ہے۔اسکی ایک بہن بھی ہے۔وہ ہر روز اسی طرح انڈے بیچ
کر رقم کماتا ہے جس سے اس کے گھر کے اخراجات چلتے ہیں۔اس نے بتایا وہ ہر
روز دو درجن انڈے بیچتا ہے۔اور پھر جو وقت صبح فارغ ملتا ہے اس میں وہ
پڑھائی کرتا ہے۔ملک پاکستان میں جہاں مہنگائی کا عفریت ہر روز کے حساب سے
نمو پا رہا ہو۔وہاں یہ معصوم بچہ ایک پورے گھر کا جن میں چار افراد ہیں ،کا
خرچہ اٹھا رہا ہے۔میں سوچنے لگا کہ کیسے اس گھر کا خرچہ صرف انڈوں کی اس
کمائی سے پورا ہو تا ہو گا۔کتنے ہی ایسے اخراجات بھی ہوں گے بجلی،گیس وغیرہ
کے بل جس سے فرار ممکن ہی نہیں۔میں سوچنے لگا۔ ہے کوئی دنیا کا ایسا ماہر
معاشیات جو اس گھر کا بجٹ بنا کر دکھا سکے،کہ کس کس طرح اس گھر میں فاقوں
کی نوبت نہیں آتی ہو گی۔کس طرح ایک ماں اپنے معصوم بچے کو دو درجن انڈے
ابال کر دیتی ہے اور سردی کے اس ٹھٹرتے موسم میں اسے ٹریفک سے بھری اس
شاہراہ پر انڈے بیچنے کو بھیجتی ہے۔ہمیں اس کا احساس کبھی نہیں ہو سکتا۔
میں جلد ہی سوچوں کی دنیا سے نکل آیا اور اسے چالیس روپے دے کر چار انڈے
خرید لیے۔اور اسے چالیس روپے تھما دئیے۔اس نے چالیس روپے لیے اور دوسرے
ہاتھ کے ذریعے اپنے کولر میں سے چار انڈے نکا ل کر میری طرف بڑھائے۔اسکے
ہاتھوں سے میرے ہاتھوں میں منتقلی کے دوران اچانک ایک انڈہ نیچے پختہ سڑک
پر گر کر ضائع ہو گیا۔تین انڈے میرے ہاتھ میں تھے اور ایک سڑک پر۔میں نے
دفعتاً عدنان کی طرف دیکھا۔اسکی آنکھیں.ان آنکھوں کی محرومی کا منظر یاد
آیا ہے تو میرے لئیے کچھ لکھنا مشکل ہو گیا ہے۔یہ وہی جانتا تھا کہ اس ایک
انڈے کی وجہ سے اس کا کتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے۔اسکی آنکھوں میں آنسو امڈ
آئے۔اس کے ساتھ شاید ایسا حادثہ پہلی بار ہو اتھا۔اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے
چالیس روپوں کو دیکھا اور پھر میری ہتھیلی کی طرف دھرے ان تین انڈوں کو
دیکھا۔اور پھر اپنے کولر سے ایک اور انڈہ نکال کر میری طرف بڑھا دیا۔
’’کوئی بات نہیں عدنان‘‘میں نے اسے تسلی دی اور چالیس روپے ہی رکھنے کو
کہا۔
لیکن انڈہ تو میرے ہاتھ سے..اس کی آواز بھرا گئی۔وہ کشمکش میں تھا۔
نہیں محمد عدنان،غلطی میری تھی میرے ہاتھ سے انڈہ چھوٹا تھا۔میں نے اسے
یقین دلانے کی کوشش کی۔اسے منانا بہت مشکل ثابت ہو رہا تھا۔تاہم میں نے اسے
اس بات پر منا ہی لیا کہ غلطی اسکی نہیں میری تھی۔اچانک پیچھے سے ہارن کی
آوازیں آنا شروع ہو گئیں تھی۔میں نے چونک کر باہر کی طرف نگاہ دوڑائی تو
گاڑیاں آہستہ آہستہ چلنے لگیں تھیں۔عدنان بھاگ کر سڑک کنارے فٹ پاتھ پر چلا
گیا تھا۔میں بھی چل پڑا۔لیکن میرا دل میرے پاس تھا نہ دماغ۔آفرین ہے تمہاری
ماں پر کہ جس نے تمہاری ایسی تربیت کی۔تم اس وقت بھی کسی کی دی ہوئی بھیک
قبول نہیں کرتے جب تمہاری ماں تمہیں نہیں دیکھ رہی ہوتی۔حالانکہ تم کسی کی
دی ہوئی رقم کو قبول کر کے اپنے دل میں آئی ہوئی کوئی معصوم حسرت پوری کر
سکتے ہو مگر تم جانتے ہو تمہارا اور ہم سب کا اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
محمد عدنان نے میرے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا کر دیا تھا۔میری زبان پر
بے ساختہ دعائیہ کلمات گردش کرنے لگے۔کاش ہم سب تمہاری طرح ہو جائیں۔اللہ
تمہیں اس آزمائش کا ایسا اجر دے کہ تم اس تنگی وقت کو بھول جاؤ۔تم صرف ایک
بچے نہیں ہو، تم ایک چراغ ہو۔ تم ایک روشن شمع ہو۔
میں سوچنے لگا۔یہ صرف ایک محمد عدنان تھا۔نہ جانے اور کتنے محمد عدنان ہوں
گے۔جو میری نظروں سے روپوش ہوں گے۔دنیا بھر میں بچوں کے عالمی دن کے موقع
پر بڑے بڑے سیمینار اور ریلیاں ضرور منعقد کی جاتیں ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے
کہ صرف تقاریر سے اور ان بچوں کے نام پر بننے والی درجنوں این جی اوز کے
فنڈ کرنے سے ان بچوںکی حالت کبھی نہیں سدھاری جا سکتی۔سڑکوں کے کنارے مختلف
اشیائ بیچتے ان بچوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ بچوں کا عالمی دن کس بلا
کا نام ہے۔یہ کب اور کیوں منایا جاتا ہے؟محمد عدنان جیسے بچے ایک آئینہ
ضرور ہیں جن میں ہم اپنی زبوں حالی واضح دیکھ سکتے ہیں۔ |