استاد،طالبِ علم اور کمرہ جماعت

تعلیم کے مفہوم کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس کا مطلب محض روایتی طور سے سیکھنا نہیں بلکہ تعلیم سے مراد ہر وہ عمل ہے جس کے ذریعے فرد کی شخصیت اور اس کے کردار میں کوئی تبدیلی رُونما ہو۔تعلیم کے حصول کے دو طریقے ہیں:رسمی اور غیررسمی تعلیم۔

رسمی تعلیم کے حصول کا ذریعہ منظم مطالعہ اور تربیت کا نظام ہے۔ہر بچہ مختلف فطری صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے لیکن ان فطری صلاحیتوں کی تکمیل اور جِلا کیلئے راہنمائی درکار ہوتی ہے جس کیلئے معاشرے میں ایک الگ ادارہ،سکول کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔جہاں بچہ معاشرتی مطابقت پیدا کرنے اور اپنے آپ کو سماجی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کیلئے اپنی خصوصیات اور صلاحیتوں کو ترقی دیتا ہے۔

اگرچہ سکول کا سارا انتظام و انصرام ہی بچے کیلئے مددگار ہے لیکن اس کیلئے اہم پلیٹ فارم کمرہ جماعت ہے جہاں وہ تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے ذہنی نشوونما کے عمل سے گذرتا ہے۔ ہر بچہ انفرادی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ہر بچے کے مقیاسِ ذہانت کی سطح بھی جُدا ہوتی ہے۔اُستاد ایک ماہرکی حیثیت سے ہر بچے کواُس کے رُجحانات و میلانات کا لحاظ رکھتے ہوئے ،راہنمائی فراہم کرتا ہے۔مؤثر تدریس کیلئے کمرہ جماعت کے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے۔دورانِ تدریس کمرہ جماعت میں مختلف واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات کمرہ جماعت کا ماحول پیچیدہ بھی ہو سکتا ہے۔اگر کمرہ جماعت کو ایک سلطنت،استاد کو حاکم اور طلباءکورعایا فرض کیا جائے تو اُستاد کو اِس سلطنت کا انتطام اِس طریق پر کرنا ضروری ہے کہ اُستاد کی حاکمیت بھی قائم رہے اور طلباءبھی زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں لہٰذا کوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے جو طالبِ علم کو تعلیمی عمل سے بغاوت پر اُکسائے۔کمرہ جماعت کے بہتر انتطام کیلئے چند تجاویز حسبِ ذیل ہیں۔

تدریس کا آغاز:
استاد کیلئے ضروری ہے کہ وہ کمرہ جماعت میں تدریس کا آغاز مستحکم انداز سے کرے وہ شروع میںEasy behaveنہ کرے کیونکہ طلباءاساتذہ کا اپنے بارے میں احساسات کا اندازہ اور استنباط اس بات سے لگاتے ہیں کہ وہ کمرہ جماعت میں ان کے ساتھ کس طرح تعامل کرتا ہے اور کیسا رویہ اختیار کرتا ہے۔استاد تدریس کے آغاز میں اتنا نرم رویہ اختیار نہ کرے کہ طلباءآزادی محسوس کریں اور سیکھنے کے عمل میں سنجیدہ رویہ اختیار نہ کر سکیں۔

استاد ایک منصف کی حیثیت سے:
استاد تمام طلبہ سے مساوی برتاﺅ کرے۔رنگ،نسل،زبان،مذہب اورقوم کی بنیاد پر تعصب کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ غیرجانبداری برتے۔اور بچوں میں مصالحت کروا دے تاکہ ان کی باہمی چپقلش جڑیں پکڑ کر ان کی معاشرتی زندگی کو متاثر نہ کرے۔

بچوں کی عزتِ نفس کا تحفظ:
ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے جس کی تکریم کی وہ دوسروں سے توقع کرتا ہے اور بچے تو بدرجہاحساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیںلہٰذاجماعت کے سامنے بچے کی شخصیت سے متعلق تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنے سے گُریز کیا جائے تاکہ اُس کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

پُر جوش رہنا:
استاد سبق کا آغاز پُرجوش انداز سے کرے تاکہ طلباءکی توجہ سبق کی طرف مبذول کی جا سکے۔استاد کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہئے بلکہ ہر نئے سبق میں ان طلباءسے جو کمزور ہوتے ہیںاچھی امید رکھے کہ وہ اس بارضرورسیکھیں گے چاہے اس کیلئے انفرادی توجہ دینی پڑے۔

اٹل قوانین:
استاد کے قوانین و ضوابط اٹل ہونے چاہییں۔استاد کیلئے استقامت کا دامن تھامنا ضروری ہے۔تاکہ طلباءکو معلوم ہو کہ انہیں جو کام سونپا گیا ہے اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔اس سے ان میںسماجی نظم و ضبط کو پروان چڑھنے میں مدد ملے گی۔استاد موقع شناس ہو تاکہ حالات کی مناسبت سے کمرہ جماعت کا نظم و ضبط قائم رکھ سکے۔

تدریس کا آغاز تازہ دم ہو:
استاد کیلئے جہاں کمرہ جماعت میں تدریس کے آغاز میں Easy behaveکرنے سے احتراز لازم ہے وہیں اس کیلئے ضروری ہے کہ سبق کا آغاز ولولہ انگیزطور سے کرے تاکہ سبق میں طلباءکی توجہ اوردلچسپی حاصل کرے اور سبق کے اختتام تک قائم رکھ سکے۔کیونکہ مﺅثر تدریس کیلئے سبق میں طلباءکا انہماک ضروری ہے۔

امید ہے کہ ان باتوں کا خیال رکھ کرتدریس کے مقاصد حاصل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہو سکے گی۔
Muhammad Faiz ul Hassan
About the Author: Muhammad Faiz ul Hassan Read More Articles by Muhammad Faiz ul Hassan: 2 Articles with 18122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.