قومی یکجہتی کے عناصر ترکیبی میں
سب سے اہم نظریہ پاکستان اور قومی زبان اردو ہے۔نظریہ پاکستان کا مطلب یہ
ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہو گی۔قیام پاکستان کے وقت اس نظریے کو
ریاست کا بنیادی اور سب سے بڑا ستون مانا گیا تھا ۔مگر ریا ست کے
وڈیروں،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے اس نظریے کو پھلنے پھولنے کا موقع
نہیں دیا۔بلکہ سامراج کے وظیفہ خوار اس گروہ نے اس آفاقی نظریے کے آ گے ہر
ممکن طریقے سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کیں۔پاکستان کی نظریاتی اساس کو
کھوٹا کرنے کے لئے کبھی سیکولرزم کی بیساکھیوں کا سہارا لیا گیا تو کبھی
سرمایہ دارانہ نظام کی گود میں پناہ لینے کی کوشش کی گئی۔کبھی ذات پات اور
لسانیت کا بیج بو کر اس نظریے کی پشت میں خنجر گھونپا گیا۔یہ سب کچھ انگریز
کے اس وفادار ٹولے نے کیا جس کی سازشوں اور چیرہ دستیوں نے پورے معاشرے کو
بے انصافی، محرومی اور طبقاتی تفریق کے ایسے چنگل میں پھنسا دیا ہے جس سے
نکلنے کے لئے ایک عظیم انقلاب کی ضرورت نے بڑی شدت کے ساتھ جنم لیا ہے۔قوم
اب جہادی روح کے ساتھ جدوجہد کرنے کو ایک اہم فرض کا درجہ دے چکی ہے۔قیادت
کے فقدان کے سبب عوامی جذبات کی اس شدت کو درست سمت نہیں دی جا سکی مگر
جدوجہد کا یہی جذبہ جنوں صحیح قیادت بھی تلاش کرنے میں کامےاب ہو جائے گا۔
ملک کی حکمران اشرافیہ سامراجی وظیفہ خواری اور اس کے نتیجے میں ملک کا ہمہ
جہتی نظام تباہ کرنے کے لئے ملک وقوم سے بغاوت کی آ خری حدوں کو چھو رہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر سامراجی طاقت نے اپنے غلبے کو مستحکم کرنے اور قوم کو
بحیثیت مجموعی غلام بنانے اور اس کو اس کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار سے
بیگانہ کرنے کے لئے نظام تعلیم کو بدلنا ضروری سمجھا ۔پاکستان کا سب سے بڑا
صوبہ پنجاب غلامی کی ایسی زنجیروں میں جکٹرا ہوا نظر آ تا ہے جوہماری
حکمران اشرافیہ کے بزدلانہ رویوں اور محکوم و غلام سوچ کی بھرپور عکاسی
کرتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ گروہ ہمہ پہلو قومی مفاد کو بیچ کر خود ملک سے
بھاگ جانے کی تیاریاں کر رہا ہو۔در اندازی اور مداخلت کی انتہا دیکھیے کہ
وزیر اعلی پنجاب برطانیہ کے ایک شخص مائکل باربر کو مشیر خاص مقرر کئے ہوئے
ہیں جو معیار تعلیم بڑھانے کے نام پر ہماری صوبائی قیادت کو مٹھی میں لینے
،ان کی نگرانی کرنے ،تعلیمی نظام اور نصاب کو بدلنے کے تمام تر اختیارات کا
مالک بنا بیٹھا ہے۔
لاہور میں ایک ادارہ موجود ہے جوDSD(DIRECTORATE OF STAFF DEVELOPMENT)
کہلاتا ہے ۔اب تک اس ادارے کا کام صرف اساتذہ کو فنی اور تدریسی تربیت دینا
تھا مگر اب یہ ادارہ بین الاقوامی سازشوں کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔اب یہ
ادارہ مکمل طور پر برطانوی ٹاسک فورس کے حوالے کر دیا گیا ہے جس کے سربراہ
مائیکل باربر اور ریمنڈ نامی دو اشخاص ہیں۔برطانوی شہریت کے حامل یہ دونوں
افراد اب اس ادارے میں بیٹھ کر پنجاب کی تمام تر تعلیمی سرگرمیوں کو کنٹرول
کر رہے ہیں حتی کہ تعلیمی افسران کے تقررو تبا دلے کے تمام تر اختیارات
انہی کے پاس ہیں۔۲۲ جولائی 2011 کو میاں شہباز شریف صاحب نے خود DSDجا کر
برطانوی ٹاسک فورس کے سربرا ہان مائیکل باربر اور ریمنڈ سے ایک تحریری معا
ہدہ کیا جس کے مطا بق یہ ٹاسک فورس اسا تذ ہ کے تقرروتبادلے کے نظام کو
بہتر بنائے گی او ر سکولوں میں مخلوط نظام تعلیم کو رائج کرے گی۔ان ارادوں
اور اس معاہدے کی تصویر تو اس پمفلٹ پر موجود ہے جو DSDاپنی سالانہ کا
رکردگی کے نام پر شائع کرتا ہے۔سال 2011 کی کارکردگی پر مشتمل یہ پمفلٹ
ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ پنجاب کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔اس رنگین
پمفلٹ کے سرورق پر ان اداروں کے نام بھی درج ہیں جو حکومت پنجاب کو انگریزی
میڈیم اور مخلوط تعلیم کے نفاظ کے عوض امداد دے رہے ہیں ان
میںUNICEF,UNESCO,JICA, ،CIDAاورUSAIDشامل ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب نے یہ معاہدہ کس حیثیت میں اور
کیوں کیا ؟جو لوگ ان کو منتخب کر کے اپنا رہنما بناتے ہیں وہ جاننا چاہتے
ہیں کہ اس معاہدے کے مندرجات کیا ہیں ؟ وہ کون سی مجبوریاں ہیں جن کی بنا
پر اس طرح کے ملک و قوم کی سا لمیت کو داؤ پرلگانے والے معاہدے کیئے جاتے
ہیں؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے اس ملک کا نظام تعلیم اس دھرتی اور تہذیب سے
وابستہ ماہرین تعلیم درست کر سکتے ہیں یا سامراجی طاقتوں کے نمائندے جن کے
ہم دو سو سال تک غلام بھی رہ چکے ہیں؟در حقیقت DSD پنجاب میں ایسٹ انڈیا
کمپنی کا ایک بہت بڑا اڈا بن چکا ہے جو ہمارے نظام تعلیم پر قابض ہو چکا ہے
اور نجانے اس آڑ میں ملک میں مزید کیا کیا گل کھلا رہا ہے۔اس ٹاسک فورس کے
سربراہ مائیکل باربر کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ جب پنجاب کے ضلعی تعلیمی
افسران نے حکومت پنجاب سے کہا کہ انگریزی میڈیم کا نفاذ ممکن نہیں تو
مائیکل باربر نے سب کو بھلا کر الٹا لٹکا دینے کی دھمکی دی۔اس سے یہ بات
بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ پنجاب حکومت اپنے ہاتھ کٹوا کر سامراجیوں کے ہاتھ
میں دے چکی ہے۔
موجودہ DTE(district teacher educator)کو تربیت بھی نام نہاد برٹش کونسل کی
لڑکیاں فراہم کر رہی ہیں جہاں انگریزی کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولنے کی
اجازت نہیں ۔ یہ کورسز بھی DSD میں سامراجی امداد کے ساتھ ہو رہے ہیں
۔ٹرینگ کے بہانے DTE کو انگلش میڈیم اور مخلوط نظامِ تعلیم کو رائج کرنے کے
لیے غیر محسوس طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔حکومتِ پنجاب نے نئے ماڈل
سکولوں کے قیام کی بھی منظوری دی ہے جہاں خصوصی طور پر مخلوط تعلیم کا
اہتمام کیا جائے گا یہ سکول بھی پنجاب میں سامراجیوں کے پنجے مضبوطی سے
گاڑنے میں مدد دیں گے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب کے حکمران کس سرعت سے
صوبے کے دس کروڑ عوام کو ملک دشمنوں کے ہاتھوں بیچ رہے ہیں ۔
دوسری طرف وزیر اعلٰی پنجاب کی دھواں دھار تقریریں سنیں تو وہ غیر ملکی
امداد پر لعنت بھیجتے اور خود انحصاری کا سبق پڑھاتے نہیں تھکتے مگر حقیقت
اس کے بالکل بر عکس ہے۔پنجاب ہی وہ صوبہ ہے جس میں تعلیمی پالیسیاں اس حد
تک تبدیل ہو رہی ہیں کہ تعلیم اور تہذیب کا جنازہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی جا رہی ۔یہ تو وہی دور آ رہا ہے کہ جس میں بادشاہ بہادرشاہ ظفر دلی
تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔باقی ملک پر انگریز مکمل عمل داری قائم کر چکے
تھے۔
تمام محب وطن افراد ،اساتذہ، طلبا،سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین،شعراء و
ادبا الغرض قوم کے بچے بچے کو اب ایک اور آذادی کی جنگ لڑنے کو تیار ہو
جانا چاہیے اور ان سیاسی شعبدہ بازوں کے چہروں کو پہچاننا چاہیے جو حب
الوطنی کا لبادہ اوڑھ کر چند ڈالروں کے عوض ملک و قوم کا سودا کرنے پر تلے
ہوئے ہیں۔ |