ہندوستانی دماغ سے زیادہ،ہندو
دماغ امریکی زندگی کا اثاثہ بنتا جارہاہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ امریکی معیشت
و معاشرت با الواسطہ اور گلوبل معیشت و معاشرت بلا واسطہ بہت جلد اب
یہودیوں کے مقابلے میں ہندو دماغ پر انحصار کرنے لگ جائے گی۔ کیونکہ بر
صغیر کے ہندوستانی حصے سے قابلیت اورصلاحیت کا سفرTalent Flight جاری ہے
اور بڑی تیزرفتاری کے ساتھ جاری ہے۔ تعلیم یافتہ ہندوستانی نوجوانوں کا ایک
بڑا طبقہ، خود ہندوستان کے مقابلے میں اپنے مستقبل کو امریکی Windowمیں خوش
نما دیکھ کر خوشی محسوس کرتاہے۔نئی صدی کے آغاز پر جس نسل نے بڑھاپے میں
قدم رکھاوہ آزاد ہندوستان میں جوان ہوئی تھی ، اوروہ اب اپنی اولاد کو
امریکہ یا برطانیہ میں برسرِ روزگار دیکھتے ہوئے اِس دنیا سے رخصت ہونا
چاہتی ہے۔ زندگی کے مختلف میدانوں میںہندوستانیوں کی پیش رفت، خصوصاً
تکنیکی تعلیمی شعبے میں ہندوستان کی بے پناہ ترقی نے ایک فطرتاًتیز ہندو
دماغ کی بالیدگی کا بھر پور سامان تیار کرر کھا ہے۔ملک میں تعلیمی اداروں
کا ایک جال ہے جو علم کے ہر شعبے میں اپنی خدمات کے ذریعہ اِنہیں فیض یاب
کر رہا ہے۔ ہندو لفظ کے بار بار استعمال سے کسی کو کسی قسم کی کوفت نہیں
ہونی چاہیے۔ ہم لفظ” ہندو “جان بوجھ کر استعمال کرنا چاہتے ہیں، لیکن کسی
فرقہ وارانہ ذہنیت کے تحت نہیں، بلکہ حقیقتِ حال کے اظہار میں آسانی کے لیے
اور بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ۔ تاہم مزید کسی غلط فہمی کو راہ نہ
دینے یا اپنے عندیہ کو مزید واضح کرنے کے لیے ہم کہنا چاہیں گے کہ یہ لفظ
ہم عرف عام میں غیر مسلم کہے جانے والے ہندوستانیوں کے لئے استعمال کرنا
چاہتے ہیں، جنہیں مذہب سے کوئی نسبت نہیں۔ مثلا سکھ مذہب ، بدھ مذہب اور
جین مذہب کی شناخت رکھنے والے بھی شمار کیے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں پست
اقوام ، جنہیں صدیوں سے ہریجنوں کا نام دیا گیاتھا،کے اعلٰی تعلیم یافتہ
افراد بھی ان میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔غرض کہ وسیع معنوں میں مستعمل ہندو
دماغ یا صلاحیت کا سفر Talent Flightجاری ہے اور ہندوستان کے دامنِ ذہانت
کو خالی کرتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف ہندو قوم کو چھوڑ کر دیگر ہندی اقوام کا المیہ یہ ہے کہ اِن میں
اور خاص طور سے مسلم قوم میں تعلیم کی تکمیل کے بعد رفتہ رفتہ پیسہ کمانے
کے بجائے تعلیم کے بغیر یااِسے ادھوری چھوڑ کر فوری پیسہ کمانے کا رجحان
زیادہ پایا جانے لگا ہے ، اِ س لیے یہ نیو یارک یا لندن سے زیادہ دوبئی یا
بحرین کو اپنا معاشی قبلہ بنانے پر مجبورہیں( یہ اور بات کہ اِنہیں اپنے
روحانی قبلے کی بھی زیارت کا ”اتفاقاً“ موقع مل ہی جاتا ہے)اور جلد از جلد
دولت کی ریل پیل دیکھنے کے خواہشمند ہیں، قطعِ نظر اِس سے کہ یہ خواب
شرمندہ تعبیر ہوتا بھی ہے یا نہیں۔
ہندو نوجوان کا معاملہ جداگانہ ہے۔گو کہ آزاد ہندوستان کی آئینی سہولت کے
تحت جدید تعلیم کا انتظام سب کے لئے یکساں طور پر موجودتھا،جن کا دیگرنسلی
و قومی اکائیوں نے اور خاص کر ہندو نوجوانوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔
حالانکہ ملک مستقلاً کرپشن، بے ایمانی و بدعنوانی کی لپیٹ میں رہا، نااہل
سیاسی ماحول ہر لمحہ ملک پر چھایا رہا اور آج بھی یہ صورتحال پنپ رہی ہے ۔
ان نسلی و قومی اکایﺅں نے اسے برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اولاد کے مستقبل
کی بھر پور منصوبہ بندی کی۔ پھر ایک آزاد مملکت نے بھی اِسے تعلیم و ترقی
کے مواقع فراہم کیے، جبکہ دیگر اقوام کا نوجوان مختلف تاریخی و سیاسی اسباب
کے تحت اِس قابل نہ تھا یا نہ رکھا گیا کہ وہ ہندو نوجوان کے کندھے سے
کندھا ملا کر چل سکے۔ چنانچہ گزشتہ جن دو نسلوں کو ہم ترقی یافتہ ممالک
میںجوان ہوتے دیکھتے ہیںاور اِن ترقی یافتہ ممالک کی بہبودی میں اپنا حصہ
ادا کرتے اور اِس کے ثمرات کے حصہ دار بنتے دیکھتے ہیں، اِ ن کی بڑی تعداد
ہندو ہے۔آج امریکہ میں ٹکنکل ،خلائی سائنس کے شعبوں سے لے کر اِنتظامیہ کے
کلیدی منصبوں پر ہندو قوم کے نمائندے بر سرِ کار نظر آتے ہیں، نیز اِن کا
عمل دخل امریکی پالیسی و پروگرام کی تشکیل میں صاف دکھائی دیتاہے۔حالات کے
اِس مثبت اور خوش آئند پہلو کودیکھتے ہوئے کسی منفی پہلو کے ذکر کو ممکن ہے
خوش آمدیدکہنے کو ہندوستانی مزاج تیار نہ ہو۔خود ہمیں بھی یہ بات پسند نہیں
کہ اِن کی ترقی کو بد نظری سے دیکھیں، لیکن زمینی حقائق ہمیں منفی پہلو کے
اس تذکرے پر دو وجوہات کی بنا پر مجبور کرتے ہیں:
اولاً یہ کہ ہم اِس ملک کے باشندے ہیں اور اِس کی خیرخواہی تقاضہ کرتی ہے
کہ ہم اِس کے مفاد میں جو مناسب ہے اُس کا برملا اِظہار کرےں۔ثانیاً، یہ کہ
جن متوقع تباہی کی دہلیز پر ہم خود کو موجود پاتے ہیں، وہاں خود ہمارا اپنا
مفاد ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم حالات کے جائزے، تجزیے اور اخذِ نتائج کی
ایماندارانہ سعی کرکے نہ صرف اپنی بے خبر نسلوں کو تباہی کے ریلے میں بہہ
جانے سے بچائیں بلکہ خودہم اپنے بچاﺅ کی بھی فکر کریں۔
ہندو دماغ کی عالمگیر مقبولیت اور پذیرائی پر اپنی دلی مسرت کے احسا س و
اظہارِ طمانیت اور ایک ترقی یافتہ قوت کی شکل میں ہندوستان کی پیش رفت کی
توصیف وتائید اور ہمت افزائی و قدرانی کے باوجود ہم عرض کریں گے کہ آزاد
یوروپی معاشروں کی فحاشیانہ قباحتوں کی اُمنڈتی سُنامی پر خود ہندودانشوروں
کی موجودہ بے حسی حیرت ناک ہے۔ ایک خوف ہے جو نہ جانے ہم جیسے کتنے ہی حساس
انسانوں کو پریشان کرتا رہتا ہے۔!!ہندوستان کے نوجوان دماغ کو روشن مستقبل
کی حقیقتوں( یا جھانسوں) کے ساتھ جس فحاشی کی یلغار کا سامنا ہے اُس کے
احساس و ادراک کی یہاں کسی سطح پر کوئی جستجو دکھائی نہیںدیتی۔ نہ قومی سطح
پر نہ عوامی سطح پر۔لذّت آشنا مزاجوں کے لیے اِس قدر حسین دور شاید اِس سے
پہلے کبھی میسر نہیں آیا کہ آبادیوں کی آبادیاں زندگی کی جملہ لذتوں سے
متمتع ہونے یا متمتع کروانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ قدم قدم
پر جیسے اِس سلسلے کیFacilities کی گویا فصل ِ بہار ہے، جو جوانوں کو اپنی
جانب راغب کرنے اور اپنی گرفت میں لینے کا بھرپور بلکہ پروفیشنل سامان اپنے
اندر رکھتی ہے۔ہمارے پاس مثالوں کی کمی نہیں کہ کس طرح نوجوان اپنی منزلِ
تباہی کی طرف بگ ٹٹ دوڑ رہے ہیں اورفحاشی کی گہری کھائی جن کی منتظرنظر آتی
ہے۔ ایسے میں ہمارے یہاںفلم انڈسٹری ، فیشن انڈسٹریز اور مخلوط معاشرے کی
آزاد طرز زندگی نے خطرے کا جو بگل بجا دیا ہے اُسے بہرے کانوں سے سننے والی
ہندوستانی قیادت بے حسی کا مظاہرہ نہ کرے گی تو اور کیا کرے گی۔ یہ تو خود
کرپشن کی کیچڑ میں گلے تک ڈوبی ہوئی ہے اور حصولِ اقتدار کی رسہ کشی میں
اِس نے ہندوستانی معاشرے کو مغربی اقوام کی نقالی کی کھلی چھوٹ دے رکھی
ہے۔ایسے میںہندوستانی قیادت ایسا کیوں نہیں کرے گی جب کہ فحاشی ہمارے یہاں
تجارت کامقام حاصل کر چکی ہے۔ ڈر ہے کہ شرافت و اخلاق کے جنازے اِس کے
کندھوں کی بہت جلد زینت بن کر رہیں گے(خدا نہ کرے)۔مضمون کو طول دینے سے
بچنے کے لیے ہم حال کے کچھ واقعات میں سے ایک دو مثالوں کے تذکرے پر
اکتفاءکر نا چاہیں گے۔تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ ہماری تشویش بے سبب
نہیں۔
پہلی مثال اُس ریلیٹی شو کی ہے، جو بگ باس کے نام سے مشہور ہے۔ جسے محض
تفریح سمجھ کر دیکھا گیا( اور آئندہ بھی اِ س کا سلسلہ جاری رہے گا) کیوں
کہ اِس کے سیزنوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ”بگ باس سیریز“ ایک، دو ، تین
.... وغیرہ وغیرہ۔ ابھی چند ہفتے پہلے اِس کے پانچویں سیزن کا اختتام ہوا
۔یہ سیزن اپنے گزشتہ سیزنوں کے مقابلے میں ایک منفرد سیزن رہا ہے۔ خصوصیت
کے ساتھ اِس اعتبار سے کہ اِس میں عصرِ حاضر کے نوجوان ذہن کو متاثر کرنے
کے لیے ایسے کردار جمع کیے گیے تھے جن کی ایک ایک حرکت جیسے موجودہ دور کی
نبض ہو، جویہ بتاتی ہو کہ اِس دور کے نوجوان کی کیا بیماریاں ہیں جن میں یہ
مبتلا ہیں۔ اِس لیے کہ اس شو میں شریک تمام ہی نوجوان ، ہماری نوجوان نسل
کی سوچ ، معا شرت اور کلچر کے ہو بہو عکاس نظر آتے تھے۔ایسے میں ایک خوب رو
نوجوان لڑکی جسے ہند نژاد غیر ملکی مہمان کی شکل میں پیش کیا گیا، بگ باس
کے گھر میں داخل ہوتی ہے۔نوجوان ہندوستان کی نظریں اِس خوب رو”دوشیزہ“ کے
رُخ پر جم کر رہ جاتی ہےں، یہاں تک کہ ہندوستان میں انصاف پروری کے کاز کا
ایک فلمی چیمپین اور معروف و مشہور فلم ساز اِس خاتون سے”ملاقات کا شرف“
حاصل کرتا ہے اور خود کو متعارف کراتے ہوئے اپنی نئی فلم میں کسی اہم کردار
کو ادا کرنے کی پیش کش بھی کرتا ہے۔ خیر، یہ خاتون اپنے قیام کے دوران اپنی
خوبصورتی اور جاذب نظری سے گھر والوں کا اور شو کے ناظرین کا دل موہ لیتی
ہے۔ایک شریف لڑکی کی حیثیت سے اُس کے چرچے گھر گھر ہوتے ہیں۔اِس خاتون کی
حقیقت کو جانے بغیر ناظرین اِس کی اداﺅں پر مر مٹتے ہیں اور اُس کی شریف
النفسی کے چرچے زبان زدِ خاص وعام ہو جاتے ہیں۔ اِسے بگ باس کی چھت کے نیچے
اُن مکارانہ چالوں سے کوئی واسطہ نہ رکھتے ہوئے دیکھا جاتا ہے،جو عام طور
پر بگ باس کی خصوصیت ہوتی ہیں۔بہر کیف بگ باس کے لیے مذکورہ خاتون کا
انتخاب، اُس کا بظاہر پر وقار داخلہ اورشریفانہ اور غیر متنازعہ فیہ
رویہ،کل ملا کر اُس کا بظاہر شفاف کردار ہم جیسے بہت سے قلمکاروں کو متاثر
کرتا ہے ۔نتیجتاً، یہ صورتحال قلمکار کو اِس اِقدام پر اُکساتی ہے کہ اِس
خاتون کے بارے میں مزید جانکاری کے حصول کی جستجو کی جائے۔چنانچہ ہماری بھی
رگِ تجسس پھڑکی،کہ آخر ایسی کیا بات ہے اِس شخصیت میں کہ جس کا اِس قدر
شاندار استقبال اورشاندارداخلہ ممکن بنایا گیا اورہندوستانی ناظرین کی
تفریح کے لیے جائز قرار دیا گیا۔ہمارا یہ تجسس ہمیں انٹر نیٹ کی طرف لے
جاتا ہے، جہاں کسی بھی شخصیت، واقعہ یاانسانوں سے جڑے کسی بھی امر کی باریک
سے باریک تفصیل آسانی سے دستیاب رہتی ہے۔
چنانچہ اِس سلسلے میں انٹر نیٹ ہماری معلومات کا ذریعہ بنا۔ لیکن اللہ کی
پناہ.... جب ہم نے اِس خاتون کا پیج کھولا تو دیکھا کہ یہ خاتون ہر جگہ
مادرزاد برہنہ نظر آتی ہے اور بلا مبالغہ سینکڑوں سائٹس پر اِس کاکام اِس
کے سوا کچھ نہیں کہ انتہائی حیا سوز جنسی اختلاط کے نگاہ سوزمناظر پیش کرتی
دکھائی دے۔ ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ بگ باس کے ہندوستانی کرتا
دھرتاﺅں کوPornographyکی دنیا کی ایسی کسی خاتون کا محض اِس لیے پیش کیا
جانا کہ وہ ہندوستانی نژاد ہے ،کیوں کر گوارہ ہواکہ بلاتکلف اِسے شریف
گھرانوں کے ہندوستانی ناظرین کی تفریح کا سامان بنا یا جائے، اِس سے
لاپرواہ ہو کر کہ انٹرنیٹ پراِس کی تلاش میں نوجوان نسل سرگرداں ہو جائے گی
اور بے حیائی و فحاشی کے مناظر غیر معیوب ہوکراِن کی زندگی کا حصہ بن جائیں
گے۔!!کوئی ہے جو اربابِ بگ باس سے یہ پوچھے کہ وہ کیا مقاصدپیش نظر تھے کہ
اُنہیں ایک مقبول عام سماجی ٹی وی شو پر، جسے ممکن ہے اِس دور کے شریف لوگ
بھی محض تفریح کی غرض سے دیکھنے کا شوق رکھتے ہوں گے، ایک فاحشہ کو پیش
کرنے کا خیال آیا۔!!وہ کیا پیغام تھا جسے ہندوستانی ناظرین کو عموماً اور
نوجوانوں کو خصوصاً ایسی کسی فاحشہ کے حوالے سے دیا جانا مقصود تھا۔ سوال
یہ ہے کہ کیا فحاشی کو legitimise بنایا جائے گا؟ کیا اِسے ہندی نظامِ
زندگی کا حصہ بنانے کی کوئی مہم تو نہیں چلائی جا رہی ہے؟آج تک اِ س سوال
کے جواب سے ہم محروم ہیں۔
دوسراعبرت انگیز منظر کرناٹک اسمبلی کے اُن کچھ ممبران کی لذت شناسیوں کا
سامنے آتا ہے جنہیں اسمبلی میں موجود کچھ صحافیوں نے اپنے کیمروں میں قید
کرکے ابھی حال ہی میں دُنیاکے سامنے پیش کیا ہے کہ کس طرح بھری اسمبلی میں
اپنی نشستوں پر اپنے موبائل کے سکرین کھولے، ”عزت مآب “عوامی نمائندے جنسی
اختلاط کے مناظر دیکھنے میں منہمک تھے اور جنہیں خبر تک نہ ہوئی کہ بعض
اخباری نمائندے اِنہیں رکارڈ کر رہے ہیں۔کرناٹک کی اسمبلی عمارت سارے ملک
میں مشہور ہے۔ شاید ہی کوئی سیاح ایسا ہوگا جس نے اِس خوبصورت عمارت کو
دیکھنے سے محروم رہا ہو۔شاید دیکھنے والوں نے یہ بھی ضرور دیکھا ہوگا کہ
اِس خوبصورت عمارت کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں:"Government Work is
Gods Work"۔(کارِ جہاں بانی کارِ خداوندی)۔لیکن دیکھیے ! یہاں کیا ہو رہا
ہے ۔یہ سارے نمائندے قانونی شکنجے میں اگرچہ کہ جکڑے جاچکے ہیں لیکن ہمارا
قانونی نظام جیسا کچھ ہے کسی صاحبِ نظر سے پوشیدہ نہیں کہ طویل قانونی
کارروائیاں کس طرح کے انجام سے دوچار ہو جاتی ہیں یا کر دی جاتی ہیں کہ
سرزد جرم کی سنگینی ہی نہیں جرم ہی عوامی ذہن سے محو ہو کے رہ جائے، جیسے
کچھ ہوا ہی نہیں تھا اور نیے نیے عبرت آموز قضیے عوام کی توجہ کو مطلوبہ رخ
کی سمت پھیر لے جانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔توقع یہی ہے کہ فحاشی کی طرف
مائل معاشرے کا یہ اتنا خطرناک واقعہ بھی بہت جلد عوامی یاداشت سے محو ہو
جائے گا۔
کہانی طویل ہو سکتی ہے ، لیکن مندرجہ بالامثالوں کی شکل میں ہندوستانی
مقدرکے یہ دوبنیادی اجزاءحقیقتِ حال سے واقف کرانے کے لیے کافی ہیں۔کروڑوں
انسانوں پر مشتمل یہ عظیم ملک اور اِس کو مضبوط کرنے والی یہ دو نہایت ہی
اہم طاقتیں ....نوجوان اور خاص طور سے Talentedہندو نوجوان اور یہ اِس ملک
کی جہاںبانی کے منصب پر فائز یہ منتخب نمائندے....یکساں طور پرفحاشی کی
لپیٹ میں نظر آتے ہیں۔ایک طرف ہمارے ریلٹی شوز جنس زدگی اورفاحشاﺅں کو وقار
عطا کرنے پر تلے ہوئے ہیں، سارے معاشرے کو اختلاط زدہ بنا رہے ہیں اور
Talent Flightکے تحت جانے والے باصلاحیت نوجوانوںکیFlightکے بعد بچے کچھے
نوجوانوں کو فحاشی پر مبنی مغربی طرزکے اِختلاط ِمرد و زن سے مرعوب کرارہے
ہیں تو دوسری طرف ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے متخب نمائندے کارِ جہاں
بانی کی اِلٰہی عظمتوں کو داغدار کرر ہے ہیں۔ کسی ملک کے استحکام کو دیمک
کی طرح چاٹ جانے کے لیے باصلاحیت نواجوانوں کا ایساترک مکانی، نوجوان
ہندوستان پر فحاشی کی راست یا بلا واسطہ یہ یلغار اور ہندوستانی سیاسی نظام
کے بکھرتے تار و پود کی یہ داستانیں کیاقومِ لوطؑ کی یاد نہیں دلاتے؟....
کیا فحاشی ہندی نظام ِ زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہے....!!!
ہم اس ملک کے خیر خواہ ہیں اور اب ہمارے ناتواں کندھوں پربڑی بھاری ذمہ
داری آن پڑی ہے ۔ اہلِ وطن میں بھی اب ایسے افراد اور ادارے موجود ہیں جو
موجودہ میڈیا کے ذریعہ پھیلنے والی فحاشی کی اِس یلغار پر چیں بہ جبیں ہیں
اوراِسے بڑی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ایسے میں ہمیں نہایت احتیاط
کے ساتھ اہلِ مذہب کو اعتمادمیں لیتے ہوئے ، مذہب کو نہیں سیکولر قدروں کو
بنیاد بنا ناہے تاکہ اِن تباہی پھیلانے والے عناصرکو ساتھ لیا جاسکے اور
اِس ملک کو کچھ دےا جاسکے۔ جب تک ہم اپنے ملک کو دینے والے نہیں بنیں گے،تب
تک ہمیںاِس شوریدہ سر سیلاب میں بہہ جانے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔واضح رہے
کہ ملکِ عزیز کے کسی بھی نقصان میں ہمارا حصہ بیس فیصدسے کم نہیں بنتا اور
خود ہمارا اپنا نقصان بھی اِتنا ہی ہونے والا ہے۔ لیکن مثبت سوچ کا تقاضہ
تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے ملک کے سارے نقصان کو اپنا نقصان گردانیں۔اِس
حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے ہم ملک عزیز کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ
عرب ممالک میں آج تقریبا ہر شیخ کا قریب ترین مشیر کوئی ہندوستانی یا سندھی
ہے اور امریکی انتظامیہ کے کلیدی عہدوں کے علاوہ دیگرشعبہ ہائے زندگی کے
بہت سارے عہدے بھی ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ
سب اپنے فرضِ منصبی سے بے خبر ہیں۔ ان میں سے ہندوستانیت رخصت ہورہی ہے۔
فحاشی اِنہیں خوابِ خرگوش میں پہنچا چکی ہے۔ انہیں جگانا ہوگا۔فحاشی کے
خلاف محاز بنانا کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
دراصل فحاشی شادی بیاہ کے ایک مضبوط ہندوستانی ادارے کوکمزور کرتی جارہی
ہے۔ایک پاکیزہ ہندوستانی سماج کی یہ بنیادی Institutionپر خطرات کے بادل
منڈلارہے ہیں۔ شادی بیاہ کے پاکیزہ بندھن سے تہی دامن ہندوستان دنیا میں
اپنی شناخت باقی نہ رکھ سکے گا۔ہمارے ملک میں ہر طبقے میں کسی نہ کسی طرح
کا شادی بیاہ کے بندھن کا ایک عظیم قابلِ قدر رواج پایا جاتا ہے۔اِس کی
حفاظت ہونی چاہیے۔ اگر اِن خطوط پر دانشورانِ ہند کو بلا تفریق ِمذہب و
ملت،بلا لحاظِ سیاسی وابستگی ایک پلیٹ فارم پرہم جمع کرسکتے ہیں تو یہ ایک
بڑا کردار ادا کرنے کے مترادف ہوگا، کیا ہم یہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار
ہیں؟ کیوں کہ ملک کی بقا کے ساتھ خود ہماری بقا کا راز اِسی میں پنہاں ہے۔
کیوں کہ ہم اگر معاشروں کی غلاظتوں کو بہا نہیں لے جائیں گے جس طرح بارش
زمین پر گر کر ندی نالوں کی شکل اِختیار کرتے ہوئے زمین کے جھاگ، کچرہ اور
غلاظتوں کو بہا لے جاتی ہے اور جس طرح آگ خام مال کو تپا کراِس سے جھاگ اور
بے فائدہ چیزوں کو الگ کرتی ہے او ر انسان کے لیے مفید ساز و سامان اور
متاعِ زندگی کو باقی رہنے دیتی ہے، اِسی طرح اگر اِس ملک میں ہمیں باقی
رہنا ہے اورثبات حاصل کرنا ہے تو بارش اور آگ کے اِس کردار کو نبھاناہے اور
اہلِ ملک کے لیے نفع بخش بننا ہے۔کتاب ِ اِلٰہی کی تیرویں صورت کی سترہویں
آیت میں اللہ تعالےٰ کا یہ اِرشاد ہمارے لیے مشعل ِ راہ بن سکتا ہے:”
(جب)اللہ نے آسمان کی بلندی سے بارش نازل فرمائی، تو ندی نالے اپنی اپنی
مقدار کے ساتھ بہہ نکلے اور پانی کے بہاؤ نے جھاگ ، کچرے اورغیر مفیدچیزیں
اٹھا لیں اور(اِسی طرح یہ) انسان ، قیمتی سازوسامان اور متاع حیات کے حصول
کے لیے جن معدنیات کو آگ پر تپاتے ہیں، اس میں بھی اسی طرح کا جھاگ اور
کچرا ہوتاہے(جسے تپش مفید شے سے جد ا کردیتی ہے)۔ ان دو مثالوں کے ذریعے
اللہ حق اور باطل(کی جداگانہ حقیقتوں) کو بیان کرتا ہے۔چنانچہ جھاگ اور
کچرے جیسی جوغیرمفید شے ہوتی ہے اسے اللہ(مفید شے سے دور) ہٹا دیتا ہے اور
جو انسانیت کے لئے نفع بخش شے ہوتی ہے ، اسے اللہ زمیں میں ثبات بخشتا ہے
اور اللہ اسی طرح مثالیں (اِنسانوں کی ہدایت کے لیے )بیان کرتا ہے۔“
ہے کوئی اِنسانیت کے لیے خود کو نفع بخش بنانے والا!! کوئی ہے، رب کائنات
کی ہدایات کو بھٹکی ہوئی اِنسانیت تک پہنچانے والا!!!
کہاں چھپے بیٹھے ہیں اِس ملک کے خیرخواہ....!!! |