حضور کا فرمان ہے کہ جوچیز تم
اپنے لئے پسند کرتے ہووہی چیز اپنے دوسرے مسلمان بھائی کیلئے بھی پسند کرو
حضور کا یہ بھی فرمان ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کو اس کی
اجرت جسے آج کل عرف عام میں ہم دیہاڑی کہتے ہیں دو ۔ لیکن آج اگر دیکھا اور
سوچا جائے تو اس ملک اور معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے یاہم جو کچھ کر رہے
ہیں بطور مسلمان یہ ہمارے ساتھ سوٹ نہیں کرتے ، آج منافقت کے بغیر ہماری
سیاست ، جھوٹ کے بغیر ہمارا کاروبار اور ظلم کے بغیر ہماری افسری نہیں ہوتی
۔ اقتدار تک پہنچنے کیلئے ہم جھوٹ، دھوکہ ، ظلم اور فراڈ کا سہارالیکر نہ
صرف غریبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے پر دریغ نہیں کرتے بلکہ ایمان تک کو بھی
بیچ دیتے ہیں ۔ کاروبار کرتے ہوئے مال فروخت کرنے کیلئے ہم جھوٹی قسموں پر
قسمیں کھاتے ہوئے نہیں تھکتے ۔ اللہ نے اگر اپنے فضل سے ہمیں کسی کرسی پر
بطور افسر بیٹھنے کا موقع دیا دیا تو ہم اپنے زیر سایہ غریب ملازمین پر غصہ
اور نزلہ اتار نے تک چین و سکون سے نہیں بیٹھتے ۔ اس ملک میں کتنے لوگ ایسے
ہیں جو اپنے قیمتی ووٹ سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کی منافقت کا
شکار ہو کر اللہ اللہ کر رہے ہیں ۔کتنے لوگ ایسے ہیں جو روزانہ تاجروں کی
جھوٹی قسموں کے ہاتھوں ڈس کر جمع پونجی سے محروم ہو تے ہیں ۔ کتنے لوگ ایسے
ہیں جو ظالموں کے ہاتھوں اپنے حقوق غصب ہوتے دیکھتے ہوئے آنسو بہاتے ہیں ۔
کتنے لوگ ایسے ہیں جو ظالم افسروں کے ہاتھوں بے چین و پریشان ہیں ۔
صدر زرداری سے لیکر عام آدمی تک اس ملک کا ہر شخص اپنے آپ کو انصاف پسند ،
غریب پرور اور سچا اور پکا مسلمان کہتے ہوئے نہیں تھکتا لیکن حقیقت یہ ہے
کہ اس ملک میں مجھ سمیت ہر شخص سے جھوٹ ، فریب ، دھوکہ ، ظلم و ستم ،
منافقت اور لوٹ مار میں جتنا ہو سکتا ہے وہ برابر کا حصہ ڈال رہا ہے جس شخص
کے پاس بس میں جو ہے وہ وہی کرتا ہے اس ملک میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو ہم
میں سے ہی کسی کی وجہ سے روزانہ فاقوں سے رہتے ہیں ۔ کتنے ایسے ہیں جو ہم
میں سے کسی وجہ سے بروقت طبی سہولیات نہ ملنے کے باعث موت کو گلے لگاتے ہیں
کتنے ایسے ہیں جو روزانہ ہماری طلم و ستم کا نشانہ بن کر اپنے اللہ کے حضور
گڑ گڑاتے ہیں جس ملک میں ظلم ، جھوٹ، منافقت کا بول بالا ہو اور انصاف کو
دولت کی چادر میں لپیٹ دیا جائے تو پھر اس ملک سے چین و سکون اٹھ جاتا ہے
اور تباہی کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ کفری حکومت تو چل
سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں اسی لئے حضور نے فرمایا کہ مظلوم کی بددعا سے بچو
، اس ملک میں غریبوں کے حقوق سر عام ہڑپ کئے جا رہے ہیں اور غریبوں کے
استحصا سے کوئی شخص دریغ نہیں کرتا ۔کتنے ادارے ایسے ہیں جہاں غریب مزدوروں
سے کام تو لیا جاتا ہے مگر انہیں مزدور ی نہیں دی جاتی حضور نے تو پسینہ
خشک ہونے سے پہلے اجرت دینے بارے فرمایا لیکن ان دارووں میں تو غریب
مزدوروں کا خون بھی خشک ہو جاتا ہے پر انہیں اجرت نہیں ملتی یہ بھی ظلم کی
ایک قسم ہے ۔ وہ غریب لوگ جو غربت کے ہاتھوں دن بھر افسروں کی باتیں سنتے
ہیں یا پھر اپنے ناتواں جسم پر بوجھ اٹھاتے ہیں وہ یہ کام صرف اسلئے کرتے
ہیں تا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں اب اگر انہیں کئی کئی مہینوں
تک اجرت (تنخواہ) نہیں ملے گی تو وہ آخر کیسے جئیں گے یا پھر معصوم بچوں کا
پیٹ کیسے پال سکیں گے ۔ کیا تم نے کبھی سوچا کہ اگر تمہیں بروقت تنخواہ نہ
ملے تو تم آرام و سکو ن کی نیند کر لو گے یا پھر روٹی کے ایک لقمہ کیلئے
رونے والے اپنے معصوم بچوں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو روک سکو گے اگر
نہیں تو کراچی سے گلگت اور پشاور سے مکران تک کے افسروں ، فیکٹری مالکوں ،
سکول کے پرنسپلوں ، اخبارات کے ایڈیٹروں ، ہسپتالوں کے سربراہوں ،
ٹھیکیداروں وغیرہ خدا راہ اپنے غریب ملازمین کا استحصال کر کے عذاب الٰہی
کو دعوت نہ دو یہ غریب ورکرز ، مزدور بھی تمہارے مسلمان بھائی ہیں جو چیز
تم اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی ا ن کیلئے بھی پسند کرو ، بھوک سے رہنا اگر
تمہیں پسند نہیں تو پھر ان کیلئے کیوں پسند کرتے ہو ذرہ سوچو ۔۔۔۔۔۔۔ |